Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

کلام اللہ: فکرِ اقبال کا سرچشمہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 7, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
 علامہ  اقبالؔ کی شخصیت اور فکر کی تعمیر میں قرآن مجید کے علاوہ  حُب ِرسولﷺسب سے زیادہ حاوی اور نمایاں ہے۔ ان ہی دو چیزوں کو اقبال شخصی عناصر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے بجا طور پر لکھاہے کہ اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب( قرآن ) جس قدر اثر انداز ہوئی اتنانہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے  ؎
اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس نے انیسویں صدی کے اواخر میں شعور کی آنکھ کھولی اور وقت کی کیم اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا۔شرق و مغرب کے فلسفے پڑھے قدیم و جدیدسب کا مطالعہ کیا ۔ لیکن بالآخر اس کے ذہن کو سکون ملاتو صرف قرآن حکیم سے اور اس کی علم کی پیاس کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے گویا بقول ان کے ؎   
 نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
 میرے جرم خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز ہیں
قرآن مجید ہی اقبال کی وہ محبوب کتاب تھی جس میں غرق ہوکر انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انہیں ایک نیا یقین ایک نئی روشنی اور ایک نئی قوت وتوانائی حاصل ہوتی ، جُوں جُوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوئی۔
قلب اقبالؔ میں قرآن پاک کی قدر ومنزلت کیا تھی۔ اور کسی طرح وہ قرآن ہی کے حوالے سے انسان کے تمام روحانی، سیاسی ،سماجی اور اقتصادی مسائل کا حل ڈھونڈنکالنے کی متلاشی اور متمنی تھے ۔ اقبال کے اسی فنائیت فیِ القرآن کے بارے میں سید مولانا مودی رقمطراز ہیں۔
’’مغربی تہذیب و تعلیم کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا۔ اس کے منجد ھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا ۔ جتنا اسکی گہرائیوں میں اُترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاںتک کہ اس کی تہہ میں جب وہ پہنچاتو دنیانے دیکھ لیا کہ وہ قرآن ہی میں گم ہو چکا ہے ۔ اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ وہ کچھ سوچتا جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کی نظر میں شے واحد تھے۔ اس شئے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا کہ اس دور کے علماء دین میں مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا۔ جو فنائیت فی ِ القرآن میں اس امام فلسفہ سے لگا کھاتا ہوا‘‘  
اقبال کے پورے نظام فکر ونظر کا محور قرآن پاک ہے ۔ چنانچہ اردو اور فارسی کلام اور خطبات میں جابجا قرآنی آیات کا سہارا لے کروہ اپنے خیالات کی ترسیل وتشہیر کرتے ہیں۔ پندرہ سال مسلسل قرآن کا بالا ستعیاب مطالعہ کر تے رہے ۔کیونکہ قرآن بار بار افلا تعقلونِ اور افلاتدبرون کے الفاظ کے ذریعے انسان کو غور فکر کی تلقین کرتا ہے ۔ اقبالؔ نے بعض آیات پر برسوں غور وفکر کیاتب جاکر اس درجہ پر پہنچے کہ دور حاضر کے پیدہ شدہ مسائل کا حل قرآن سے ڈھونڈ نکالتے تھے۔اور مغربی مفکرین کے فلسفیانہ سوالات کے جوابات کے قرآن ہی کو کافی سمجھتے تھے۔ بقول خلیفہ عبدالحکیم علامہؔکا عقیدہ تھا کہ انسانی زندگی کے مزید ارتقاء میں کوئی دور ایسا نہیں آسکتا جس میں قرآن کے حقائق کا نیاانکشاف ترقی حیات ان کی رہبری نہ کر سکے ۔ زندگی کی نَوبہ نَو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی۔ لیکن قرآن کے اساسی حقائق کھبی دفتر پارینہ ہوں گے اقبال کے قرآن پاک کے ساتھ شغف اور وارفتگی کا کیا عالم رہا ہو گا ۔ اس کا اندازہ ان ہی کے شعر   ؎
 تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول قرآن 
  گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
(اسراری خودی)
قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس نے دنیا کو ایک نئے انقلاب نئی تہذیب وثقافت نئے قانون ۔نئے عقائد اور انسانی زندگی کو ایک نئی روش سے متعارف کرایا۔ انسانیت کی تاریخ پر قرآن نے جتنا گہرا اثر ڈالا۔ اتناکسی اور کتاب سے آج تک ممکن نہ ہو سکا اور نہ کھبی ہو گا۔ خود اقبال کثیر المطالعہ مفکر شاعر ہونے کے ناطے اس سرمدی کتاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی معرکتہ الأراء تصنیف ’’فکر اقبال‘‘ میں اقبال کو قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن کہتا ہے ۔ اقبال نے حیات کے آخری برسوں میں،ضعف بصارت اور جملہ خرابی صحت کے باعث مطالعہ کتب تقریباً ترک ہی کردیا تھا تو وہ باقاعدہ طور پر قرآن کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
’’تعلیمات کلام پاک کے ہزار پہلوئوں میں سے ایک پہلویہ بھی ہے کہ ان تعلیمات پر عمل کر کے ہی آدمی کو انسان بننے کی سعادت حاصل ہو سکتی ہے ۔ اور اس ضمن میں کلام پاک میں قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کی گئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود انسان عصر حاضر تک آکر خالص مادی اور لادینی نقطہ نظر اپنانے کے سبب نہ صرف اپنا سرمایہ عشق لُٹابیٹھاہے۔بلکہ اس کی عقل بھی غلام ہوکر رہ گئی ہے ۔اور یوں عصری انسان ۔ایمان عمل ۔علم اور اخلاص جیسے عناصر سے تو محروم ہواہی انسان کائنات اور خدا کے درمیان اس کی وحدت کی حیثیت بھی ختم ہو کر رہ گئی یہ وحدت دراصل قرآنی تعلیمات کا یایوںکہیں کہ دینی شعور کا عطیہ تھا۔  ‘‘
بلاشبہ اقبالؔ کی شاعری اور فکر کا محور انسان ہے ۔ وہ انسان کو کائنات میں ایک برتر اور مخلوق قرار دیتے ہیں ۔اور اس کی پوشیدہ ذہنی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی بناء پر کائنات اور خالق کائنات سے اس کے رشتوں کی معنویت اور اس کے مقصد حیات کی تعین و توضیح کو اپنا مطمع نظر قرار دیتے ہیں ۔جو بظاہر قرآنی فکر سے مماثل ہے۔
اقبال دور جدید کی مادی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہی عصری انسان کو بھی ایک مثالی انسان بننے کا درس دیتے ہیں ۔ یہ مثالی انسان مادی اور روحانی قوتوں کا ملا جُلاپیکر ہے ۔کیونکہ اقبال کے عہد میں مغرب کی جانب سے بربادی کا سیلاب بس زوروشور کے ساتھ مشرقی اقوام خصوصاً عالم اسلام کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا ۔ شاعر مشرق نے اس زور وشور سے اس کے خلاف جہاد شروع کیا انہوں نے یورپ کے طلسم کے تاروپودبکھیر کر یورپ کی ہوس پر ستی اور استحصال پسندی اور نوآبادیت (Colonalism) کے خطرناک نتائج اور اس کے خلاف جہاد کی ا ہمیت سے مشرقی اقوام اور عالم اسلام کو آگاہ کیا۔ دراصل اقبال اپنے عہد کی انسانی زندگی کے بحران اور طوفان سے ساحل کے تماشائی نہیں بلکہ ناخدا کی طرح وابستہ تھے۔ اپنے زمانے کے حشرخیز تضادات پر نظررکھتے ہوئے وہ انسانی اخوت ومساوات اور آزادی کے جن تصورات تک پہنچے تھے ۔ اور اس کے پیچھے بنی نوع انسان کی محبت کا جو جذبہ کارفرماتھا۔ وہ ان کے عہد کے دیگر شعرا اور فلاسفہ کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے ۔بنی نوع انسان کے لیے اسی جذبہ محبت کی بناء پروہ اپنا محضوص فلسفہ فلسفہ خودی مرتب کرتے رہے ۔ اور ایک حقیقی انسان کی جستجو و تلاش کر تے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ اقبالؔ کے یہاں انسانِ کامل ۔ان کے دیگر تصورات کی طرح ایک تصورہے جس کا بہترین نمونہ رسول پاکﷺ کی ذات مبارک ہے ۔ لیکن اقبال کا تخاطب انسان کا مل سے نہیں ۔ عصری انسان ہی کو مخاطب ہو کر اقبال لکھتے ہیں   ؎
 کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
  مشرق سے اُبھرتے ہوئے۔سورُج کو ذرا دیکھ
 سمجھے گازمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
  دیکھیںگے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
 ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے 
  پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرار ے
 تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ
  کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضادیکھ
 آئینہ ایام میں آج اپنی ادادیکھ 
علامہ اقبالؔ دیکھ رہے تھے کہ ملت اسلامیہ کا شیرازہ مشترہو چکا ہے ۔ اور مغربی استعماراور تہذیب کا استیلاپوری شدت کیساتھ انہیں اپنی لپیٹ میں لے رہاہے۔ ان کا دل آگاہ اور ان کی نگاہ حق میں قرآن حکیم کے نسخہ شفاکے بغیر کو ئی چارہ کا رنہیں دیکھتے وہ رجوع الی القرآن کی دعوت حق لے کے اُٹھتے ہیں اور مسلمان کو یہ کہتے ہو ئے قرآن کی طرف بلاتے ہیں کہ یہی پیغام حیات ہے۔ ان کی نظروں میں امت کے عروج و زوال کا پورا نقشہ ہے ۔اور اس زوال واضمحلال کو دیدۂ عبرت سے دیکھتے اور خون کے آنسو روتے ہوئے ان کی غیرت کو جھنجھوڑتے ہو ئے کہتے ہیں :اے اسلامی توحید کے وارث!۔نہ تمہارے پاس وہ کلام ساحر ہے جس سے تو دلوں کو موہ لیتا اور نہ وہ عمل قاہر ہے جس سے سرکشوں کو مسخر کرتا کبھی وہ تم تھے کہ تمہاری نگاہ مردافگن اور صاعقہ فن تھی ۔ اور آج نہ وہ جذب و کشش۔ تووہ توحید اسلامی کے وارث سے شکوہ سنج ہوتاہے    ؎  
اے لااِلہ کے وارث باقی نہیں تجھ میں
 گفتار  دلبرانہ  کردارِ  قاہرانہ
  تیری نگاہ سے دل سینوں کا پنتے تھے
 کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ 
(بال جبرل)
علامہ کے نزدیک قرآن سے یہی دُوری اور کتاب الٰہی سے یہی بعداصل کا سبب ہے مسلمانوں کے زوال اور اُمت مسلمہ کے نُکبت وافلاس اور ذلت وخواری کا !جواب شکوہ میں جوبات انہوں نے حددرجہ سادہ الفاظ میں فرمائی تھی    ؎
 وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر  
اور تم خوار ہوئے تارُک قرآن ہو کر  
یہی مفکر اسلام ڈاکٹر اسرار اقبال کی فنائیت فی القرآن کے حوالے سے یوں تحریر کرتے ہیں۔ اقبال فی الواقع جمال و جلال قرآن کا مشاہدہ اپنے قلب کی گہرائیوں سے کر رہے ہیں ۔ اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ شنید نہیں ‘‘ دید پر مبنی ہے ۔ بلکہ ایسا لگتا ہے ۔ جیسے ان کا پورا وجود کلام پاک کی عظمت کے بارِ گراں سے خاشِعاًمُتَصَدَِّعاً ہوا جارہا ہے۔
عظمت قرآنی کا احساس وادراک ان کے ریشے ریشے میں سرایت کہتے ہوئے ہیں۔ اور ان کا ہر بُنِ موقرآن کی جلالت قدر اور فعت شان کے ترانے گارہا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ان کا فکرِ قرآنی فکر ہے ۔ان کی نظر قرآنی نظر ہے اور جب وہ اپنے نتائج فکر ونظر کو الفاظ کا جامہ پہنالیتے ہیں تو غیرارادی طور پر قرآنی اسلوب وآہنگ کی شان نمودار ہوتی ہے ۔ ان کے بیشتر اشعار ایسے ہوتے ہیں جن میں بلاواسطہ کسی طور پر قرآن اسلوب وآہنگ کی شان نمودار ہوئی ہے۔کسی آیت قرآنی یا حدیث نبویﷺ کی طرف اشارہ ہے اور شاید ہی کوئی شعر یا نظم ایسی ہے ۔ جس میں بالواسطہ طور پر قرآن سنت یا تاریخ اسلام تذ کرہ نہ ہو۔ یہ قلب و ضمیر کو اللہ کے رنگ میں
رنگنا۔ترجمہ:اور یہ ہے اللہ کو نُور سے دیکھنا کہ جس کے بارے میں اللہ کا رنگ اختیار کرئو اس سے زیادہ حسنِ وجمیل تنگ اور کیا ہو سکتا ہے :نبی ﷺ نے ابن کیثر کی روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق ارشاد فرمایا:مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نُور سے دیکھتا ہے‘‘۔اقبالؔ کی شاعری کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم اُن کے باطن کی عمیق گہرائیوں میں سرایت کر گیا ہے ۔یہاں تک کہ قاری ہوتے ہو ئے بھی وہ خود صاحب قرآن بن گئے قرآن اُن کے لیے تخلیقی سرچشمہ کا حکیم رکھتا ہے۔یہ تخلیقی سرچشمدان کی شخصیت پر محیط ہو گیا ۔ یہ اتنا ہمہ گیر، وسیع، متنوع اور حُرکی ہے ۔ کہ وہ کسی اور فکری مواد کے دست نگرنہ رہے انہوں نے قرآن حکیم کی روشنیوں کی تخلیقی ترسیلیت کو اپنا شعری مقصدقراردیا ۔ اور جذباتی لے میں اپنے لئے بَد دُعاکی کہ اگر میرے حرف واظہار میں کوئی چیز غیر قرآن پوشیدہ ہو تو مجھے روز قیامت آں حضورﷺ کا بوسہ پا نصیب نہ ہو۔ انہوں نے اپنے فلسفۂ خودی کے تارِ حریردورنگ میں مشرق و غرب کے علماء کے افکار ونظریات کا تحقیقی مطالعہ کر کے ان کا دقتِ نظر سے تجزیہ کیا ۔ ان میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی شیخ مجدداَلفْ ثانی ابن خلدون فیڈرک نطشے ہندی برگساں کارل مارکسی۔میکیاولی ، افلاطون وغیرہ وغیرہ کے نام بڑی اہمیت کے حامل ہیں  ۔ ان علماء وحکماء کی تحریروں میں انہیں جہاں جہاں اسلام سے مماثل اور ہم آہنگ پہلونظرآئے۔اقبال نے ان کی دل کھول کر پذیرائی کی ۔مثال کے طور پر انہوں نے سوشلزم کے ضمن میں کارل مارکس کا وشوں کی سراہنا کی اور کہاکہ کارل مارکس کی کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے کہ خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے ۔لیکن کائنات کی ماہیت اور خلاق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کو کافرانہ کہا ہے۔ اقبال نے سو شلزم کو ہمارے کلمہ کے آدھے حصے یعنی لااِللہ کی تعبیر قرار دیا ۔ اور یہ بتایا کہ اسے ابھی اِلااللہ کی منزل طے کرنا باقی ہے ۔ اس منزل پر پہنچنے کے لیے اسے اسلام کا دامن تھا مناپڑے گا’’ضرب کلیم‘‘کی ایک مختصر سی نظم’’لاواِلا‘‘ میں کہتے ہیں  ؎ 
نہادِ زندگی میں ابتداء لاانتہاء اِلاّ
  پیامِ موت ہے جب لاہواِاِلاّ سے بیگانہ
     وہ ملت،روح جس کے لاسے آگے بڑھ نہیں سکتی 
یقین جانو ہوالبریزاس ملت کاپیمانہ
اسی طرح جرمن مفکر فیڈرک نطشے نے سپرمین کی تخلیق کے لیے حصول قوت کا جو نظریہ پیش کیا۔اقبال اس سے جزوی طور پر متاثر ہوئے لیکن نطشے حصول وقت کے لیے جب خلاق کی سرحدوں کو پار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور پھر خدا کے مرچکنے کا نعرہ بلند کرتے ہو۔ تو اقبالؔ توحید کے علمبردار کی حیثیت سے ہمدردانہ لہجے میں کہہ اُٹھتے ہیں ۔ 
اگر وہ مجذوب فرنگی ہوتا اس زمانے میں 
تو اقبال اس کو سمجھاتا کہ مقام ِکبریا کیا ہے
 اقبالؔ کی عظمت کا سراغ ان کی شعری، انفرادیت، جامعیت، اور قوت ہی کے ذیعے لگایا جاسکتا ہے ۔ بلاشبہ ان کی عظمت ان کی شعری تجربات اور موضوعات کی بوقلمونی اور وقعت کی مرہون منت ہے ۔ان میں قرآن مجید سے باطنی رشتے کے نتیجے میں ان پر جواسرار منکشف ہوتے ہیں ۔ ان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔واضح رہے یہ قرآنی افکار کو منظوم کرنے کا عمل نہیں ۔ بلکہ یہ روح قرآنی کی اپنے ضمیر پر جلوہ گری کے عمل کے منسوب ہے ۔ شیکسپیئر نے تاریخی کہانیوں کے سرچشمے سے کسب فیض کیا ۔ ملٹن اور بلیک مذہبی کتب سے مستفید ہوئے اسی طرح اقبال شاعری کا وہ حصہ جودائمی تب وتاب رکھتا ہے ۔ قرآن مجید کے نور سے فیضاب ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کا داخلی وجود قرآنی انوار سے مزین ہوا ہے ‘‘   ع
 سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لئے 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سانبہ جموں میں بی ایس ایف اہلکار کی مبینہ خودکشی
تازہ ترین
گرمیوں کی تعطیلات کے بعد کل سے دوبارہ کھلیں گےاسکول: سکینہ ایتو
تازہ ترین
دنیا بھر میں جاری تنازعات تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں: نتن گڈکری
تازہ ترین
سرنکوٹ میں چھت سے گر کر بزرگ خاتون لقمہ اجل
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?