کلام اللہ۔۔۔ ہدایت و کامرانی کا عنوان

Kashmir Uzma News Desk
18 Min Read
قرآن کریم علم کا سمندر، حکمت کا خزانہ، سراپا ہدایت اور معرفت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن پاک بزرگ و برتر کتاب اور مطہر و پاکیزہ کلام ہے۔ باطل اس کے سامنے سے مداخلت کرسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ کلام انسانوں کی ہدایت کے لیے اور خلافت و آبادکاری کے فرائض کی یاددہانی کے لیے آیا ہے۔ یہ انسان کے علم و معرفت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن پاک کا سینوں میں جمع اور محفوظ ہونا، عقلوں میں اس کے معانی کا بیٹھ جانا، اس کو زبانی یاد کرنے کی سہولیت، اس پر غور و فکر و تدبر کرنے کا وجود اور غور و فکر کرنے والوں پر اس کا ظہور اور اس کے اسرار کی نقاب کشائی اور ان سے علم و معرفت کا ارتقاء یہ سب قرآن پاک کی بعض خصوصیات اور فضائل ہیں۔ اللہ نے رحمت دوعالمﷺ کے قلب میں جس طرح اسے راسخ کردیا تھا ۔اسی طرح آپﷺ نے دوسروں تک اسے منتقل کردیا۔ چنانچہ قرآن ہر پہلو سے معجزہ ہے، اپنے الفاظ میں نظم و اسلوب میں، ہدایت و اثر انگیزی میں، علوم و فنون میں، تعلیم و تربیت میں، تطہیر و تزکیہ میں، ماضی، حال و مستقبل کی پیشنگوئیوں میں، ہر ادا اور ہر طرز میں معجزہ ہے۔ قرآن ہر طرح کے اختلاف و تضاد سے، نفی و تناقض سے معجزانہ طور پر محفوظ ہے وحی الٰہی ایک نئی زندگی ہے جو مدہوش عقل کو بیدار کرتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ اس کی آیات و اسرار کے ذریعہ کس طرح اپنے خالق کی عظمت سے آشنا ہو جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے۔ رحمت دوعالم حضور انورﷺ حکم الٰہی کے مطابق فرماتے ہیں:
’’اے نبیؐ ان سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں، خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑائو اور غور و فکر کرو‘‘۔ (سبا:۴۶)
قرآن پر تدبر کرنے کا مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’یہ لوگ قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں‘‘۔ (محمد:۲۴)
قرآن کی آیات سے فکری بیداری، ابتدائی ایام سے ہی پیدا ہوئی۔ تمام مخلوقات کی تخلیق عبث اور باطل نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے ایک مقصد کارفرما ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کچھ کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے‘‘۔ (الانبیائ:۱۶،۱۷)
اسی طرح سورۃ ص آیت نمبر ۲۷ میں بھی فرمایا گیا۔قرآن حکیم میں عقلی غور و فکر کی کھلی ہوئی دعوت ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ اسلام نے عقل تدبر کو دینی واجبات میں شمار کیا ہے اور عقلی وظائف کی سرگرمی کو خدائی فریضہ قرار دیا ہے جس سے فرار اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن حکیم میں تدبر کی دعوت چار مواقع پر ہے اور وہ سب تدبر کے لیے ہی مخصوص ہیں۔ قرآن پر تدبر کی دعوت سورۃ ص آیت نمبر ۲۹، سورۃ النساء آیت نمبر ۸۲، سورۃ المومنون آیت نمبر ۶۸ اور سورئہ محمد آیت نمبر ۲۴ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سولہ آیات میں عقل سے کام لینے اور تفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تفکر وجود کے تمام مظاہر پر مشتمل ہے جیسے سورۃ الجاثیہ آیت نمبر ۱۳، سورۃ الرعد آیت نمبر ۳، سورۃ النحل آیت نمبر ۱۰، ۱۱ اور سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۱۹ میں اس طرح فرمایا کہ ’’اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم غور و فکر کرو‘‘۔ (۲۱۹:۲)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۹۰ اور ۱۹۱ کے نازل ہونے پر رسول اللہﷺ رو پڑے اور فرمایا: ’’تباہی ہے اس شخص کے لیے جو ان آیات کی تلاوت کرے اور ان میں غور و فکر نہ کرے‘‘۔ دوسری روایت کے الفاظ قدرے مختلف ہیں ’’ہلاکت ہے اس شخص کے لیے میں نے ان آیات کو اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان گردش دی اور ان پر غور نہ کیا‘‘۔ (تفسیر الکبیر ج۹ ص ۱۳۳۔۱۳۴، تفسیر القرطبی ج۴ ص۳۱۰)قرآن نے عقل کی زبان ہی میں انسانوں سے خطاب کیا۔ اسی لیے مشرکین نے اپنی عقلوں کی شہادت تسلیم نہ کی او ر محمدﷺ سے درخواست کی کہ ان کے لیے محسوس اور مادی نشانیاں نازل ہوں۔ قرآن نے اس کا اعتراف یوں کیا کہ ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے‘‘؟ (العنکبوت:۵۰) اس پر قرآن کا ردعمل یہ تھا:’’کہو، نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔ (العنکبوت:۵۱)ان آیات سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ مشرکین عقلی دلیل طلب کریں تاکہ حق کی طرف رہنمائی ہوسکے۔قرآن ان کی عقلوں کو یہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے کہ ’’کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی ہی باتیں کرنے کے لیے کہتی ہیں؟ یا درحقیقت یہ عناد میں حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں‘‘؟ (الطور:۳۲)قرآن نے منکرین رسالت کو دعوت دی کہ وہ اپنی عقلوں سے کام لیں اور محمدؐ کے معاملہ میں غور و فکر کریں۔ آپﷺ کی سیرت کے تمام گوشے غور و فکر کرنے والے کے سامنے گواہی دیتے ہیں کہ رحمت دوعالمﷺ برحق رسول ہیں اور علمی پہلو سے اللہ کے رسولؐ اُمی تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمیؐ پر‘‘۔ (الاعراف:۱۵۸)آپﷺ کی پروش ایک صحرائی عوامی ماحول میں ہوئی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے نبیؐ! تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑسکتے تھے‘‘۔ (العنکبوت:۴۸)
نبوت کے حق میں اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی؟ علم کے مکاتب و مدارس سے دور رہ کر ایک امی( فداہ امی وابی) نے کاتبین و مصنفین کو دعوت دی کہ تحریروں کو سمجھیں۔ علم و عرفان کے چشموں سے الگ ہوتے ہوئے آپﷺ نے علم کے چشمے پھوٹ ڈالے۔ یکایک دنیا کو شریعت کے اصولوں کی تعلیم دینے لگا۔ یہ کیا طرز کلام تھا؟ یہ کون سی بھاری بھرکم دلیل تھی؟ ایک نبیؐ جس نے تمام نبیوںؑ کی تصدیق کی۔ یہ کفار دل سے آپؐ کو جھوتا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ آیاتِ الٰہی کے سلسلہ میں ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے۔ ’’یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں‘‘۔ (الانعام:۳۳)قرآن و تنہا کتاب ہے جو اپنا اثبات پہلے کرتی ہے پھر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے۔ اسی لیے اس کی آیات ہیں بار بار ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے جو عقل سے کام لیں، غور و فکر کریں، تدبر و تفکر کا رویہ اپنائیں۔جو شخص فکر اسلامی پر قرآنی عقلی نظر و تدبر کے اثرات کا انکار کر تا ہے وہ گویا اس کائنات میں آفتاب کے وجود سے آنکھیں بند کر رہا ہے۔قرآن کی آیات باہم متصادم نہیں ہیں کسی اختلاف کا امکان نہیں ہے، بشرطیکہ قرآن پر صحیح طور سے تدبر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیان پائی جاتی‘‘۔ (النسائ:۸۲)اسی لئے رسولﷺ نے اپنے صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’اے لوگو! اسی وجہ سے تم سے پہلے کی قومیں گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے اپنے دور کے نبیوںؑ سے اختلاف کیا تھا اور کتاب الٰہی کے ایک حصہ کو دوسرے حصہ سے متصادم کردیا تھا۔ قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ تم اس کے ایک حصہ کو دوسرے حصے سے ٹکرائو بلکہ اس کے تمام حصے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔، تمہیں جو بات اس میں سے معلوم ہوجائے اس پر عمل کرو اور جو باتیں متشابہ نظر آئیں ان پر ایمان رکھو‘‘۔ (ابن سعد، الطبقات، ج۴، جزو۲ ص۱۴۱)
صحابہ کرامؓ نے اس مطلوب و مفہوم و معنیٰ کا پورا شعور رکھا۔ حضرت علی ؓبن ابی طالب فرماتے ہیں کہ لوگوں سے اس اسلوب میں بات کرو جس سے وہ آشنا ہوں اور وہ طریقہ اختیار نہ کرو جس سے لوگ وحشت زدہ ہوں۔ کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو جھٹلادیا جائے‘‘؟ (صحیح البخاری ۱؍۴۱، کتاب العلم)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ایسی نئی بات کہے جس کے مفہوم تک لوگوں کی عقل نہ پہہنچ سکے اور وہ بعض لوگوں کے لیے فتنہ نہ بن جائے‘‘۔ (مسلم)امام مسلم نے متعدد روایات کی تشریح کی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کے واسطہ سے بیان کی گئی ایک حدیث میں وہ کہتے ہیں ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’لوگ برابر سوال کریں گے یہاں تک کہ یہ پوچھا جائے گا کہ اللہ نے پوری خلقت بنائی تو اللہ کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جو شخص اس طرح کی کوئی بات محسوس کرے تو فوراً کہے: میں اللہ پر ایمان لایا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’شیطان تمہارے پاس آگئے اور پوچھے گا کہ فلاں فلاں چیزوں کا خالق کون ہے؟ یہاں تک کہ وہ یہ بھی پوچھ بیٹھے گا کہ تمہارے رب کا خالق کون ہے؟ جب وہ اس حد تک پہنچ جائے تو انسان کو اللہ کے واسطہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس طرح کی سوچ سے باز آجانا چاہے‘‘۔ (مسلم (۱؍۱۱۹ کتاب الایمان، سنن ابودائود ۴؍۲۳۱، کتاب السنۃ)حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں جب یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو آپﷺ نے فرمایا ’اگر تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آیا تو تم کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا: میں کتاب الٰہی یعنی قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے استفسار کیا: اگر کتاب اللہ میں کوئی رہنمائی نہ ہوئی توکیا کرو گے؟ فرمایا: پھر سنت رسولﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے پوچھا: اور اگر سنت رسول اللہﷺ میں بھی کوئی چیز نہ ملی تو تمہارا طرز عمل کیا ہوگا؟ آپؓ نے کہا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے رسول اللہﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو رسول اللہﷺ کو پسند ہے‘‘۔ (ابودائود)حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے نقل کرنے بعد ان مواقف کا سامنا کیا۔ آپؓ کو وہ حالات پیش آئے جن کی نظیر دورِ رسالت میں موجود نہ تھی۔ نمایاں مثال مرتدین کی ہے جنہوں نے اسلام کا اقرار کرنے اور نماز قائم کرنے کے باوجود زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔قرآن کریم نے خلقِ خدا کی ہدایت کے لیے ایسے علوم و معارف کے اصول بیان کر دیے ہیں جن کی نظیر روئے زمین کے تمام علمائ، ادبائ، فلاسفر، قانون دان اور ماہرین اخلاقیات پیش نہیں کرسکتے۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’ہم نے اس کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘‘۔ (انعام:۳۸)دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے‘‘۔ (النحل:۸۹)ابن برہان کہتے ہیں: رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں موجود نہ ہو یا جس کی قریبی یا دور کی اصل قرآن میں نہ ہو سمجھنے والے اسے سمجھ لے اور بہرہ لوگ بے بہرہ ہی رہتے ہیں۔ یہی حال ہر حکم اور ہر فیصلہ کا ہے۔ طالب اپنے اجتہاد، محنت و وسعت اور فہم و فراست کے بقدر اس کا ادراک کرتا ہے‘‘۔ (السیوطی، الاتقان ج۲ ص۱۶۱)الغرض فکر اسلامی کا ارتقاء قرآن کریم سے اور سنت نبویہ سے ہوا جو قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے اور اسلام کی فکری زندگی تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ تمام علوم پر حاوی رہی۔ قرآن کے عملی قوانین پر غور و فکر، تدبر و تفکر ہی سے فقہ کی نشوونما ہوئی۔ اس کے مابعد الطبیعاتی مسائل پر بحث و فکر کے نتیجہ میں علم کلام کی پرورش ہوئی۔ اخروی کتاب کی حیثیت سے اس پر تدبر و تفکر ہوا تو زہد، تصوف اور اخلاق کے علوم پروان چڑھے۔ حکومت کے مسائل کے تعلق سے قرآن پر تدبر ہوا تو علم سیاست وجود میں آیا۔ مصلحین و مفکرین اسلام نے مذہب کے دفاع کے لیے دین کی تفسیر و تشریح عقلی انداد میں کی گئی۔ سید جمال الدین افغانی، امام محمد عبدہ، رشید رضا مصری، حسن البناء شہید، سید قطب شہید، ڈاکٹر علی شریعتی، مرتضیٰ مطہری، سید ابوالاعلیٰ مودودی، محمد امین اصلاحی ، مولانا ابولکلامآزاد ، مولاناعبدالماجد دریاآبادی، مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی محمد شفیع، محمد اقبال رحمہم اللہ اجمعین اور سینکڑوں علمائ، دانشور، مصلح و مفکر میدان میں آئے اور متنوع و مختلف مفاہیم اور منہاجیات کے ساتھ اسلامی عقلیات کی نئی بنیادیں استوار کیں۔، لہٰذا امت مسلمہ کو قرآن کے آئینے کے مطابق اپنے آپ کو پرکھنا چاہیے۔ اسی میں ان کی زبوں حالی سے بچنے کا راز مضمر ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اول وقت میں اس دائمی معجزہ، خدائی چلینج یعنی کتاب اللہ کی طرف تدبر و تفکر کریں۔ ورنہ ہمارا حال باقی قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔ اپنے تمام مسائل کا حل قرآن میں تلاش کریں۔ زندگی کے تمام شعبوں کو قرآن کے زاویہ نگاہ سے دیکھئے تو سکون طلب زندگی میسر ہوگی۔ تمام مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکلوں کا نزول صرف اور صرف قرآن سے دوری کا سبب سے ہیں۔ اللہ ہم سب کو قرآن اور سنت رسولﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 رابطہ : ہاری پاری گام ترال کشمیر (9858109109)
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *