مقصوداحمد ضیائی
زیر نظر کتاب “کلام اقبالؔ سے ایک انتخاب” عزیزالقدر والمرتبت مولانا الطاف حسین اشاعتی صاحب مدرس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کی لاجواب کاوش ہے۔ جس کے بالاستیعاب مطالعہ کی توفیق ملی سرِورق اس خوبصورت شعر کہ
مرے اشعار اےاقبال! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
پر نظر پڑھتے ہی علم دوست قاری کتاب کے مطالعہ پر مجبور ہو جاتا ہے صاحبِ کتاب شعبان المعظم ١٤٤٦ھ مطابق ٢٠٢٥ء کے اواخر میں مختصر وقت کے لیے پونچھ اپنے گھر آئے تو آں موصوف اپنی مادرعلمی اول جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ میرے دفتر بھی آئے بالمشافہ ملاقات ہوئی ؛ دوران گفتگو یہ جان کر مجھے قلبی خوشی ہوئی کہ آں موصوف علامہ اقبالؒ کے منظوم کلام میں سے لگ بھگ ١٤٥٠ سے متجاوز منتخب اشعار مع حل لغات و جامع تشریحات پر کام کر رہے ہیں۔ قبل ازیں ان کی گراں قدر کاوش “قصص القرآن” منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر مقبولیت حاصل کرچکی تھی۔ اس انتخابِ لاجواب پر مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی۔ ذی قعدہ کے اواخر میں بذریعہ واٹس ایپ مذکورہ مجموعہ کی PDF ارسال کرتے ہوئے موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ “یہ میری حقیر سی کاوش ہے۔ جس پر آپ کی قیمتی آراء اور مشوروں کا بے تابی سے انتظار رہے گا۔ تقریظ بھی عنایت فرما دیں تو نوازش ہوگی”۔ موصوف ہمارے عہد کے صاحبِ علم ؛ صاحبِ فکر و فن ؛ بلند اقبال ؛ بلند فکر ؛ باصلاحیت عالمِ دین ہیں بالخصوص عربی زبان و ادب سے بے پایاں شغف کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ میرے لیے سعادت کی بات یہ رہی کہ مجھے تقریظ لکھنے کے لیے مکلَّف کیا۔ لیکن اے کاش! مجھے یہ کام اطمینان سے کرنے کا موقع ملا ہوتا! صورت حال یہ رہی کہ “آپریشن سندور” کے دورانیہ میں یہ کام انجام پایا جبکہ میرے ولی حمیم قاری محمد اقبال شہید کی شہادت کا سانحہ بھی پیش آیا جس نے ذہن و دماغ پر گہرا اثر ڈال رکھا تھا اور لطف کی بات یہ کہ اس دوران متعدد علمی دعوتی اور اصلاحی مضامین عاجز کے قلم سے صادر ہوئے جن پر ایک علم دوست نے غضب کا تاثر لکھا کہ “قلم وقرطاس اپنے شباب پر ہے اس کے شباب و شادابی میں مرگ و زیست مانع نہیں ؛ بل کہ دونوں انشاء کی بلندی میں یکساں طور پر برابر کے شریک و سہیم ہیں یہ “ظالم” أحیا کے لیے حیات بخش اور ممات کے لیے اماتت کا بہترین ذریعہ ہے۔مالک ارض وسماء اس کی بھر پور حفاظت فرمائے”۔ بہ ہرحال ہمیں اعتراف ہے کہ آئے روز جہاں دینی تعلیم کی تحصیل کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں ہم سے مطالعہ کتب بھی رختِ سفر باندھے ہوئے ہے۔ کتب بینی کی عادتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پڑھنے پڑھانے کی روایتیں دم توڑ رہی ہیں۔ افادہ و استفادہ کا شوق چُر مرا رہا ہے۔ بایں ہمہ یہ دنیا سچے جوئیان علم اور شائقین کتب و مطالعہ سے خالی نہیں ؛ اس گئے گزرے دور میں مولانا الطاف حسین اشاعتی ہیں کہ جن کی معلومات قابل رشک ؛ شوق مطالعہ لائق تقلید اور فکر مستقیم ؛ آں موصوف کو قدرت نے انشا کا پاکیزہ ذوق بخشا ہے۔ ان کے قلم میں بلاکی تراوٹ ؛ شیرینی اور تاثیر پائی جاتی ہے۔ “کلام اقبال سے ایک انتخاب” ان کے ذوقِ علم اور شوقِ قلم کا بیش قیمت مجموعہ ہے۔ شعر و ادب کے میدان میں حکیم الامت شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ علامہ نے اسلام کی عظیم اقدار کو حال اور مستقبل سے وابستہ کیا ہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ مسلمان کی عظمت اسلام کی عظمت سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ اپنی سحرانگیزشاعری سے دینی جذبات کو اس طرح ابھارتے ہیں کہ مسلمان اپنی خوداری ؛ شوکت و قوت ؛ ہمدردی و غم گساری کے جذبات میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کی جھلک پیش کرتا ہے باغیرت ؛ باوقار انسانیت کی فلاح کا علمبردار مرد مسلماں اقبال کی شاعری میں ایک آئیڈیل مسلمان ہے۔ علامہ اقبالؒ کے اشعار میں صرف فصاحت و بلاغت اردو زبان و ادب کی حلاوت و لذت کی نزاکت ہی خصوصیت کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ علم و حکمت ؛ نصیحت و موعظت ؛ دنیا کی بے وفائی و بے ثباتی ؛ علم و فضل کی برتری ؛ دین داری و خدا ترسی ؛ ایمان و یقین ؛ تلاوت قرآن ؛ عرفان خودی ؛ آہ سحرگاہی ؛ مثنوی معنوی اور حقائق زندگی کی تصویر کشی جیسی خصوصیات علامہ اقبالؒ کے اشعار میں جس قدر پائی جاتی ہیں سچ یہ ہے کہ اردو زبان کے پورے سرمائے میں اس خوب صورتی کے ساتھ اور اتنے بافیض طریقے پر کہیں اور نظر نہیں آتیں۔ غرضیکہ علامہ اقبالؒ شعراء کی صف کی پُر بہار شخصیت ہیں جن کی شاعری ساحری اور تخیل کہکشاں ہے۔ مستقبل قریب تک بچوں کی معصوم زبانوں سے لے کر بوڑھوں کے کانپتے ہونٹوں تک ؛ جس کے زمزمے اہلِ اسلام کو گرمانے اور دلوں کو برمانے والا یہ کلام علامہ کی شاعرانہ فتوحات کا پرچم ہے۔ ان کی زبان جب نعت النبیﷺ کے لیے کھلی تو جاننے والوں نے جانا کہ عشق رسولﷺ کا اک چمنستان کھل گیا اور ایسا کیوں نہ ہو ان کا اسلوبِ بیاں ندرت مآب؛ ان کے افکار گنجینہ اسرار ؛ ان کی نکتہ آفرینی گوہر آبدار ؛ ان کے اشعار ان کی شاعرانہ عظمت کی گواہ شاعری کے باب میں معاصرین میں سب سے منفرد الگ اور بالکل جدا ؛ لیکن اس اردو بیزاری کے دور میں نئی نسل کے لیے کلامِ اقبال کا سمجھنا دشوار سا لگنے لگا جس پر اہلِ فن کو فکر لاحق ہوئی اور اس حوالہ سے شعراء مشاعروں کے ذریعے اور ادبا قلم کے ذریعے بقاء کے تئیں ذمہ داریاں نھبا رہے ہیں انہی خوش نصیبانِ ازل کے کہکشانی سلسلہ کی ایک کڑی مولانا الطاف حسین صاحب بھی ہیں بلاشبہ جن کی یہ کاوش اپنے موضوع پر ایک وقیع علمی تحفہ ہے۔ جس کی تنقیح ؛ ترتیب اور طباعت کا فریضہ آں موصوف نے انجام دے کر اہل علم کے لیے استفادہ کا سر و سامان کیا ہے۔ موصوف نے خاص خیال رکھا ہے کہ یہ ہر اعتبار سے معیاری اور منفرد ہو تاکہ جہانِ علم و ادب کی آئینہ داری میں دستاویزی حیثیت کا حامل قرار دیا جا سکے۔ “حرف آغاز” صحیح معنی میں موصوف کی علمی و ادبی رفعت کا اشاریہ ہے۔ حرف آغاز میں موصوف نے قارئین سے درخواست کی ہے کہ “وہ اس خالص علمی کاوش کی قدر کریں اور حتی المقدور اس سے استفادہ کرکے اپنے قلوب و اذہان کو ایمانی حرارت اور زبان و قلم کو ادبی چاشنی سے معمور کریں اور اس کی روشنی میں تہذیبِ مغرب کو سمجھنے اور تہذیبوں کے ٹکراؤ اور معرکہ آرائی کے اس دور میں تہذیب مغرب کے اندھے فتنے سے اپنے اور امت مسلمہ کے ایمان کو بچانے کی کوشش کریں۔” یہ الفاظ اس بات کی بھی شہادت دیتے ہیں کہ موصوف ماہر نفسیات بھی ہیں اور ادبی اخلاقی و تہذیبی امور کے نکتہ داں اور اکتسابِ نتائج کے حوالے سے نکتہ سنج بھی۔ کتاب میں درج علامہ اقبال کے اشعار کی آں موصوف کے قلم سے تشریحات کو پڑھ کر میرا ماننا ہے کہ حقائقِ زندگی و مقاصدِ حیات کا ایک صحیح نقشہ صفحہ ذہن پر ابھرتا ہے۔ بڑے ہی نصیبہ ور ہیں وہ لوگ جو علامہ اقبال کے دیوان کے شائقین میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے اشعار میں موجود علم و حکمت کے موتیوں سے اپنے دامن کو مالا مال و نہال کرتے ہیں۔ بڑی زیادتی ہوتی اگر یہ دستاویز شائع ہونے سے رہ جاتی۔ ہم آں موصوف کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اہل ذوق کو فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ بلاشبہ ایسے مردانِ کار تاریخ کے کسی نازک موڑ پر اللّٰہ کا خاص عطیہ ہوتے ہیں۔ بربنائے تذکرہ بات میں بات آگئی میں مبتدی طلبہ کا استاذ ہوں لکھنے پڑھنے کے مشغلے کی بدولت مکالمت و مخاطبت کا میرا مزاج نہیں اور مکاتبت و مراسلت میری جولان گاہ ہے اس کے باوجود شعر و شاعری سے میری دلچسپی بہت کم رہی تاہم علامہ اقبال کو پڑھنے کا شوق مدت سے دل میں تھا لیکن اقبال کے اشعار کو سمجھنے کی کماحقہ صلاحیت میرے اندر نہیں تھی جس وجہ سے پریشان رہتا تھا۔ مولانا الطاف حسین صاحب کی اس کاوش سے میری پریشانی کا بھی ازالہ ہوگیا۔ موصوف جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ کے شعبہ تحفیظ القرآن میں میرے درجہ میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ان کا ذوقِ علم اور شوقِ قلم قابل تعریف تھا۔ عربی کی تعلیم کے لیے ان کا جذبہ و شوق معروف دانش گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر اکل کوا لے گیا۔ جہاں انہوں نے تعلیم میں بے پناہ محنت کی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی رہی کہ اکل کوا سے ہر سال سالانہ تعطیلات کے موقع پر جب گھر آتے تو ضیاءالعلوم کا سالانہ جلسہ جو شب براءت کے موقع پر ہوتا آرہا ہے میں ضرور شریک ہوتے اور عاجز سے ملاقات کرنے کا معمول رہا۔ جس میں شاید ہی کبھی ناغہ ہوا ہو دوسری بات یہ کہ آپ نے دارالعلوم دیوبند سے بھی کسب فیض کیا آپ کے قیام دارالعلوم دیوبند کے دوران میرا سفر حج پر جانا ہوا سفر حج سے واپسی پر سفرنامہ حج بنام ۔ ,,کشمیر کے کہساروں سے مہبط وحی تک,, عاجز نے ترتیب دیا جس کے لیے تقریظ کا مسئلہ درپیش تھا تو میرے اصرار پر انہوں نے تقریظ لکھی اور توقع سے بھی بڑھ کر لکھی۔ جس پر مجھے قلبی خوشی ہوئی دراصل میرا مزاج اول روز سے یہی رہا کہ ہمارے طلبہ علمی میدان میں کمال کو پہنچیں ؛ خوب ترقی کریں اور آگے بڑھیں اور دوسروں کے لیے مثال بنیں اور مولانا الطاف صاحب اس سلسلہ کی اہم کڑی ثابت ہوئے۔ انہوں نے تدریس کے ساتھ تصنیفی میدان میں بھی قابل تعریف کام کیا جو دوسروں کو بھی روشنی فراہم کرتا ہے۔ آپ کے کام کے اعتراف میں استاذ شاعر مولانا ریاض احمد میر ضیائی صاحب نے بجا لکھا کہ ” دنیائے علم و فن کے متعدد مصنفین و مؤلفین اردو زبان کی اس کم نصیبی پر شکوہ سنجی کرنے کے حقدار ہیں کہ ہماری ادبی تاریخ میں ان اہل قلم کو ان کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ جنہوں نے اپنے علم و تحقیق اور سنجیدہ و شستہ طرز تحریر کے ذریعے اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں سے ہم چشمی کے لائق بنایا۔ اس کے خزانہ عامرہ کو فکر و فن اور بیان و انشاء کے قیمتی لعل و گہر سے آشنا کیا۔ عزیزالقدر والمرتبت مولانا الطاف حسین اشاعتی جو ایک بہترین عالم و فاضل ؛ قابلِ قدر مصنف و مؤلف اور قلیل مدت میں اپنے انشاء و حسنِ ادب کے باعث علمی طبقے میں اپنا نام پیدا کرچکے ہیں موصوف کے اشہبِ قلم سے وجود پانے والی نرالی اور جاندار کتاب ,,کلام اقبال سے ایک انتخاب,, زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم و ادب سے داد تحسین حاصل کر رہی ہے۔ محرومئ قسمت کی بات ہوگی اگر اساتذہ و طلبہ عزیز اس گراں قدر علمی خزانے کو اپنے ذہن و فکر کی دنیا میں جگہ نہ دیں مذکورہ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کلام اقبال پر انتہائی شستہ تبصرہ کیا گیا ہے۔ منتخب اشعار کو کتاب کی زینت بنا کر ان کی مختصر اور جامع تشریح کی گئی ہے۔ جسے بلاغت کی اصطلاح میں ایجاز کا اعجاز کہا جاتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ موصوف جامعہ کے ابنائے قدیم میں سے ہیں۔ یہ نسبت ہم سب کے لیے لائق صد افتخار اور موجبِ فرحت و انبساط بھی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مؤلف موصوف کی اس ادبی کاوش کو بھی ہم اپنی بے اعتنائی اور عدمِ التفات کی بھینٹ چڑھا دیں جیساکہ ماضی میں اہل علم و ادب کے ساتھ ہوتا آیا ہے”۔ کتاب کے مندرجات اس طرح ہیں۔ کل صفحات 496 ۔ ص : 11 تا 22 مقدمہ اور تقاریظ وغیرہ ص : 23 تا 199 : منتخب نظمیں۔ ص : 100 تا 267 منتخب غزلیں۔ ص 268 تا 289 منتخب رباعیات و قطعات : ص 290 تا 348 متفرقات اور ص 349 تا 494 منتخب طویل نظمیں اور آخر میں “علامہ اقبالؒ کی نادرشخصیت اور حد اعتدال” سے معنون مؤلف کے قلم سے قیمتی تحریر شامل ہے۔ مشمولات کی تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک دلآویز دستاویز ہے مؤلف محترم اچھا فکری و تعمیری ذوق رکھتے ہیں اشعار کی تشریحات میں جو اسلوب اپنایا ہے اس سے مؤلف کے جذبِ دروں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے دینی جذبہ رکھنے والوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب کو پڑھ کر اپنے دل کی انگیٹھی کو گرمائیں گے اور امت کے لیے کچھ کر گزرنے کا شوق و جذبہ پیدا کریں گے۔ موصوف کی محنت شاقہ کی بدولت یہ ایک قیمتی علمی اور ادبی سرمایہ سامنے آیا ہے۔ تشریح کی زبان نہایت سلیس اور شستہ ہے ؛ جو مولانا الطاف صاحب کے ذوق و آگہی کا ثبوت ہے ؛ بطور تمثیل دو اشعار اور ان کی تشریح یہاں ذکر کی جاتی ہے۔
یہ علم ؛ یہ حکمت ؛ یہ تدبر ؛ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ؛ دیتے ہیں تعلیمِ مساوا ت
لغات : تدبر : سوچ بچار ۔ لہو : خون ۔ مساوات : برابری
تشریح :یورپ کارائج کردہ ہر نظام تباہ کن ہے وہ تعلیم ؛ تہذیب ؛ حقوق اور عوامی حکومت کا جو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ؛ بظاہر اسے مساوات اوربرابری کانام دیتے ہیں؛ لیکن عملی طور پر ان سب کے پیچھے ان کے مسموم استعماری منصوبے ہیں ؛ جن سے وہ لوگوں کا خون چوستے ہیں۔ بعینٖہ یہی صورت حال یورپ کے نقش قدم پر چلنے والے دنیا بھر کے نظام تعلیم اور نظام حکومت وغیرہ کی ہے۔
خونِ رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد
تشریح ۔ حافظ شیرازی کی خمریہ شاعری ہو یا کمال الدین بہزاد کی اعلی مصوری جو فنون لطیفہ کی بہترین شاہکار ہیں. ہر دو اس لیے وجود پذیر ہوسکیں کہ ان کے معماروں کی رگوں میں جوش و جذبہ اور فن و ہنر کی دھن کا گرم خون دوڑتا تھا۔ (الطاف)
اہل مدارس کے لیے یہ کتاب ایک اچھا تحفہ ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے طباعت اعلی معیار کی ہے اور عمدہ کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔ ظاہر و باطن دونوں حیثیتوں سے دلکش ہے۔ الحاصل! ,,کلام اقبال سے ایک انتخاب” ادبی انداز کی تخلیقات میں اپنے علمی اور ادبی معیار وقار کے لحاظ سے بلاشبہ ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ جس کی علمی حلقوں میں خوب پزیرائی ہونی چاہیے یہ اس مجموعہ کا حق بھی ہے اور اس کے علمی و ادبی محاسن کو خراج تحسین بھی فاضل مؤلف اس عظیم خدمت کے تعلق سے مبارکبادی کے مستحق ہیں۔
دعا ہے اللّٰہ تعالٰی ان کی علمی صلاحیتوں اور قلمی توانائیوں میں اضافہ فرمائے۔ اہل علم سے میری سفارش ہے کہ اس دستاویز کو اپنی عالمانہ التفات سے نوازیں اور دینی و عصری دانش گاہوں اور کتب خانوں اور لائبریریوں تک اس کی رسائی کو ترغیب و تحریک کے ذریعہ ممکن بنائیں ؛ فاضل مؤلف کو اللّٰہ پاک نظر بد و نظر خود سے محفوظ رکھے اقبال مذید ارفع ہو،شان انشائی مزید پروان چڑھے،فکری تصلب،دینی تشخص وسعت نظر سے ہم رشتہ رہے اور قارئین کے لیے ذوق مطالعہ کی تمنا۔
کتاب کی قیمت 250روپے اور رابطہ نمبر 6006039478
(تبصرہ نگار خادم التدریس ، جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ جموں و کشمیرہیں)