Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کفن افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: October 19, 2024 10:59 pm
Mir Ajaz
Share
13 Min Read
SHARE

پرویز مانوس

علی الصبح لوگ نماز فجر ادا کرکے مسجد سے باہر نکلے تو سامنے کامنظر دیکھ کر ٹھٹک گئے۔ دکان کے تھڑے پر ایک اجنبی شخص کی لاش پڑی تھی، اُس کا سر بُری طرح زخمی ہوا تھا اور جسم ٹھنڈ سے پوری طرح اکڑ چکا تھا۔ اُس کے اردگرد ہلکی سی ٹھنڈ اور خاموشی نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ نمازیوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی، پولیس نے آ کر لاش کا جائزہ لے کر پنچ نامہ تیار کیا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال بھیج دیا اور پھر تمام لوگ اپنے اپنے اپنے گھروں کی جانب میں چلے گئے۔
تاج الدین ایک دور دراز گاؤں کا رہنے والا تھا ،گاؤں والے اُسے پیار سے تاجو چچا کہتے تھے، پچھلے تیس سال سے اسی گاؤں میں ایک دکان چلاتا تھا جس میں روزمرہ کی ضروریات کی ہر چیز دستیاب تھی، اب کچھ سالوں سے نامساعد حالات کے مدِ نظر اُس نے دکان پر کفن بیچنا بھی شروع کردیا تھا کیونکہ شہر یہاں سے کافی دُور تھا اس لئے گاؤں والے اُسی سے کفن خریدنا غنیمت سمجھتے تھے _ وہ کسی کو ادھار صرف اسی شرط پر دیتا تھا کہ ادھار کی رقم اگرمہینے کی پہلی تاریخ کو نہ چکائی گئی تو دو ٹکا سود ساتھ دینا پڑتا _،،دراصل یہ دکان پہلے اُس کا باپ سراج الدین چلاتا تھا جو کہ اُس کے انتقال کے بعد تاج الدین کی ذمہ داری بن گئی۔ اُس کی زندگی کی کہانی بڑی دلچسپ تھی، وہ دن رات محنت کرتا تھا، پیسہ جمع کرتا تھا اور اپنی کنجوسی کی وجہ سے گاؤں بھر میں مشہور تھا “چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے “لوگ اس کے بارے میں کہتے تھے کہ تاجو کا دل پتھر کا ہے اور وہ کسی بھی کام میں اپنا فائدہ پہلے دیکھتا ہے۔
ایک روز دوپہر کے وقت اسکول کے کچھ بچے ایک جگہ جمع ہوئے تھے، ماسٹر شریف صاحب وہاں سے گزرے تو اُن کی نظر بچوں کی بھیڑ پر پڑی، وہ تیز تیز قدموں چلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے، انہوں نے دیکھا کہ ایک سائیکل سوار ڈھلوان زمین پر گرا پڑا ہے، انہوں بچوں کی مدد سے اُسے سیدھا کیا تو یہ دیکھ کر اُن کے منہ سے نکلا،،،،، غفار……..؟؟؟ ، عبدلغفار ایک بنجارہ تھا جو یو پی کا رہنے والا تھا اور ہر سال گرمیوں میں یہاں آکر زنانہ سامان فروخت کرتا تھا۔ ماسٹر صاحب نے کچھ لوگوں کو اکٹھا کرکے اُسے مسجد کے صحن میں پہنچایا _،،
گاؤں کے چند سرکردہ اشخاص نے یہ فیصلہ کیا کہ تاجو کے پاس کفن موجود ہوتے ہیں ، تو اسی سے رابطہ کریں، وہ سب اس کے پاس گئے اور اس سے کفن کی درخواست کی۔
انہوں نے کہا، “تاجو چچا …..! ، غفار ایک لاوارث شخص ہے، اس کا یہاں کوئی نہیں ہے اگر ہم اس کے وارثوں کا انتظار کریں گے تو شدت کی گرمی سے لاش سڑھ جائے گی اور اس سے سرانڈ آئے گی، اس لئے ہم اسے جلد سے جلد دفن کرنا چاہتے ہیں ۔
تو کرو نا، میں نے کب منع کیا _تاجو نے عینک کے پیچھے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ہم اس کے لیے کفن لینا چاہتے ہیں۔” اگر تم کفن دے دو تو کام آسان ہوجائے گا۔
دیکھو بھئی….! میرے پاس ایک ہی کفن تھا جو پچھلے دنوں ستار بھائی کا جوان بیٹا کراس فائرنگ میں جاں بحق ہوا تھا، وہ اُسی کے لئے لے گئے، لہٰذا میں کچھ نہیں کرسکتا۔اتنے میں سُلطان جُو نے کہا،،
تاجو بھائی …..! اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟
ہاں ہاں ضرور کرو،میں نے کب آپ کا حلقوم پکڑ رکھا ہے، تاجو نے کھاتے کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا۔
تاجو بھائی…! پچھلے سال آپ نے حاجی طفیل سے ایک کفن منگوایا تھا۔
تو؟؟؟تاجو نے پھر ایک بار عینک کے پیچھے سے دیکھتے ہوئے کہا لیکن اب کی بار اُس کے ماتھے پر بل پڑ چکے تھے _۔
کچھ نہیں بس میں یہ کہنا چاہتا ہوں اگر آپ وہی کفن دے دیتے تو ہم غفار کی تدفین کردیتے۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے، ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو، وہ میں نے اپنے لئے منگوایا ہے، کسی لاوارث کو کیسے دے دوں، تاجو نے غُصے میں کہا۔
تاجو بھائی اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔
اجر مجھے ایسے بھی دے گا _،
میں کسی بھی قیمت پر یہ کفن ایک لاورث کو نہیں دونگا، جاؤ شہر سے منگواؤ۔
تاج الدین کا جواب سُن کر گاؤں کے لوگ حیران رہ گئے، انہیں یقین نہیں آیا کہ تاجو اس قدر سنگ دل ہو سکتا ہے۔
گاؤں کے امام صاحب، جو ایک نرم دل اور شفیق انسان تھے، آگے بڑھے اور تاجو سے مخاطب ہوئے، “تاجو بھائی تحمل سے کام لو، ذرا سوچو! اگر اس کی جگہ تم ہوتے، تو کیا تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا؟۔
تاجو نے بے نیازی سے جواب دیا، میرا ایسا حال کیوں ہوگا “میرے چار چار بیٹے ہیں، میں نے تو اپنے لیے مکہ سے کفن منگوایا ہے _ اور اپنے بیٹوں کو وصیت بھی کر رکھی ہے کہ مجھےاسی کفن میں دفن کیا جائے _۔
اتنے میں اُس کا بڑا بیٹا صادق وہاں پہنچاتو بھیڑ دیکھ کر لوگوں سے مخاطب ہوا،
کیا بات ہے آپ سب ہماری دکان کے آگے جمع کیوں ہیں؟
بیٹا…! اس گاؤں میں جو غفار بنجارہ تھا، آج صبح وہ اچانک انتقال کرگیا، اب اُس کے لئے کفن خریدنا تھا،تاجو کی منت سماجت کررہے تھے کہ کفن دے دے لیکن یہ انکار کر رہا ہے۔
صادق نے آگے بڑھ کر باپ سے کہا” ابا جی آپ روز کفن بیچتے ہیں ایک بار ُمفت میں دے دیا تو آپ کو ثواب ہی حاصل ہوگا‘‘۔
بیٹا اسی دکان کی کمائی سے تجھے پڑھایا لکھایا ہے ،یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے کہ مُفت میں کفن بانٹتا پھروں اور وہ بھی اپنے لئے منگوایا ہوا _۔
تُو ان جمیلوں نہ پڑ، چل گھر جا _۔ باپ کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اُسے بہت غُصہ آیا لیکن مجبوراً زہر کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
اس کے بعد گاؤں والوں کو تو کچھ کہنا سُننا بیکار لگا،وہ چُپ چاپ وہاں سے رخصت ہوگئے۔
حالانکہ اُس کے بیٹےصادق نے باپ کو سمجھانے کی کافی کوشش کی کہ آپ ان کو یہ کفن دے دیجئے ہم مکہ سے پھر منگوا لیں گے لیکن اُس نے کسی کی ایک نہ مانی۔ _مجبوراً امام صاحب کو کفن لانے کے لئے ایک شخص کو شہر بھیجنا پڑا ۔
تاج الدین کی بیوی بھی اس بات پر اُس سے بہت خفا تھی لیکن زبان کھولنے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ تیس برس سے اپنے مجازی خُدا کو جانتی تھی اور اُس کا مزاج وہ اچھی طرح پہچانتی تھی، وہ جس بات پر اڑ جاتا تو اڑ جاتا _۔
گھر میں بیٹوں نے باری باری اُسے سمجھایا کہ کفن تو کفن ہوتا ہے وہ چاہے مکہ کا ہو یا مقامی، آپ اُن لوگوں کو کفن دے دیجئے کسی لاوارث کی تدفین ہوجائے گی،
لیکن اُس کی گھڑی کا کانٹا تو جیسے نا پر اٹک گیا تھا۔،،
تاجو کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی وہ اپنے کاروبار میں مگن تھا، اس کے بیٹے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور گاؤں میں اس کی کنجوسی کی باتیں سرگوشیوں میں بدلتی رہیں۔
اُس کے کافی سارے زمین کے مقدمے شہر کی عدالت میں زیر سماعت تھے۔
ایک دن تاجو کو کسی مقدمے کے سلسلے میں شہر جانا پڑا، جہاں اُسے جج کے سامنے ذاتی طور پیش ہونا تھا۔ _اُس نے سوچا ایک پنتھ دوکاج ہوجائیں گے، تاریخ بھی بھگت آؤں گا اور بیچنے کے لئے کفن بھی خرید لاؤں گا ۔
عدالت میں اُس کے کیس کی باری کافی تاخیر سے آئی۔ _عدالت سے فارغ ہوکر وہ کپڑے کے بیوپاری کے پاس چلا گیا اور کفن کے لئے دوچارتھان بُک کروا کر اُسے رقم ادا کی اور پھر بس اڑے کی طرف چلدیا۔ دُکان سے اُترتے وقت وہ کسی سے ٹکرا گیا توسامنے والے نے معذرت طلب کی۔ _وہ بس اڑے میں پہنچا تو آخری گاڑی نکل چُکی تھی، سومو والے سے بات کی تو اُس نے جو رقم مانگی وہ تاجو جیسے کنجوس شخص کے لئے دینا نا ممکن تھا، دفعتاً اُس نے ویسکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو حیران رہ گیا، جلدی اُس کی آنکھوں کے سامنے دکان سے اُترتے وقت ٹکرانے والے کا چہرہ گھوم گیا، جو اُس کا جیب کاٹ چکا تھا۔
تھوڑی دیر رُکنے کے بعد اُس نے سوچا رات کسی مسافر خانہ میں گزار کر صُبح گھر کو نکل جاؤں گا ۔
شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا کائنات کو اپنی آغوش میں لے رہا تھا، وہ بس اڈے سے باہر نکل کر شہر کے معروف مسافر خانہ کی جانب بڑھ گیا _۔ سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت اتنی زیادہ تھی کہ اُس کے لئے سڑک پار کرنا کافی دشوار تھا، اُس نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا، آخر کسی بھلے مانس نے زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کرائی تو وہ آگے کی جانب چلدیا، گاڑیوں کی تیز ہیڈ لائٹس اُس کی آنکھوں پر پڑ رہیں تھیں جس سے اُسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا _۔
وہ ایک سنگل سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک تیز رفتار کار نے اُسے زور کی ٹکر ماری جس سے وہ دیوار سے ٹکرا گیا، اُس نے آگے پیچھے دیکھا دُور دُور تک کوئی بندہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، وہ کراہ رہا تھا لیکن اُس کی یہ آواز گاڑیوں کے شور میں دب کر رہ جاتی۔ وہ اپنا آپ گھٹنوں کے بل گھسیٹے ہوئے دکان کے ایک تھڈے تک پہنچا اور پھر اُسے کچھ معلوم نہیں _۔
دوپہر کے وقت مقامی پولیس اسٹیشن نے اسپتال سے لاش حاصل کرکے میونسپلٹی کو یہ کہہ کر سونپ دی کہ اس کے جیبوں سے کوئی شناختی علامت نہ ملا۔ نہ کوئی کاغذ، نہ کوئی کارڈ، نہ کوئی پتہ اس لئے اسے لاوارث قرار دیا جاتا ہے ،اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے لاوارث قبرستان میں دفن کردیں۔
پھر میونسپلٹی کے عملہ نے سرکاری کفن پہنا کر لاش کی تجہیز و تدفین کا انتظام کیا اور اس اجنبی کو دفن کر دیا۔،،

���
آزاد بستی نٹی پورہ ویسٹ
موبائل نمبر؛9419463487

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ جوش و خروش سے منائی گئی
برصغیر
جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہ دئے جانے پر دکھ ہے، حکومت کو عوام پر بھروسہ کرنا چاہئے:وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
تازہ ترین
جموں وکشمیر میں عید الالضحیٰ کی تقریب سعید مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی
تازہ ترین
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?