یکم جون سوپور میں ایک خون ریز معرکہ آرائی میں دو جنگجو اعجاز احمد میر ساکن براٹھ کلاں سوپور اس کے اس کا ساتھی بشارت احمد شیخ ساکن بومئی سوپور ابدی نیند سلا دئے گئے۔ ۳؍جون کو جموں شاہراہ پر قاضی گنڈ کے قریب فوجی کانوائے پر اچانک حملے کے دوران دو فوجی مارے گئے ۔ ۵؍جون کو سمبل بانڈی پورہ میں ایک فدائن حملے کے دوران چار جنگجو مارے گئے ۔۶؍جون کو غنہ پورہ شوپیان میں مظاہرین اور فورسز کے درمیان ایک جھڑپ میں ایک مقامی ۱۶؍ سالہ نوجوان عادل فاروق ماگرے جان بحق ہو گیا۔ ۱۶؍جون کو آرونی میں مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں ۱۴؍ سالہ معصوم سمیت دو نوجوان جان بحق ہو گئے۔ اسی دوران اچھہ بل اسلام آبادمیں پولیس گاڑی پر دھاوا بول کر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں ایس ایچ او سمیت ۶؍پولیس اہلکار جن میں فیروز احمد ڈار ایس ایچ او، کانسٹیبل شبیر احمد، کانسٹیبل تصویر احمد، کانسٹیبل شیراز احمد، ایس پی اومحمد آصف ، ایس پی او سبزار احمد شامل ہیں ، کی جانیں چلی گئیں ۔ ۲۱؍جون کو سوپور میں ایک معرکہ آرائی کے دوران دو جنگجو گلزار احمد لون عرف ابراہیم اور باسط احمد میر عرف طاہر اابدی نیند سوگئے ۔ ۲۲؍جون کو کاکہ پورہ میں فوج کے ساتھ جھڑپ کے دوران تین جنگجو جان بحق ہو گئے۔ ۲۳؍ جون کو جامع مسجد سرینگر کے باہر ایک ڈی ایس پی پولیس محمد ایوب پنڈت کو مشکوک حالات میں موت کے گھاٹ اُتارا دیا گیا۔ ۲۴؍جون کو پانتہ چھوک میں سی آر پی ایف گاڑی پر حملہ کر کے ایک فورسز اہلکار کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس کے علاوہ وہ جانیں جو سرحدی علاقوں میں چلی جاتی ہیں جن میں جنگجو وفوجی اہلکار شامل ہیں، کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ مزید پوری وادی میں ان واقعات کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں پر طاقت کا استعمال کر کے زخمی کر دیا گیا جن میں کئی درجنوں نوجوان ایسے زخمی ہوئے ہیں کہ ابھی تک یا تو ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں یا گھر وں میں معذوری جیسی صورت حال کی زندگی جی رہے ہیں۔ گزشتہ شش ماہی دورانیہ کی سرسری اور جزوی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیر کی جنگ میں عام لوگوں کے علاوہ کئی فوجی اور پولیس اہل کار بھی ہمیشہ کے لئے آنکھیں موندھ گئے ہیں۔ انسانیت کے ناطے دیکھیں تو ہر باضمیر انسان کی آنکھ مقتل ہائے کشمیر کی مصروفیت پرخون پر خون کے آنسو بہا تا نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ برابر 1989ء سے جاری ہے تاہم حالیہ چھ ماہ کے دوران جو آئے روز قتل وغارت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ،اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت قطعی طور نہیں چاہتی ہے کہ کشمیر حل ڈھونڈ کر برصغیر میں امن امان بحال ہو۔ اگرچہ بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے بار بار اس بات کا اعادہ ہوتا رہا کہ کشمیر وادی میں حالات عنقریب سدھرجائیں گے لیکن اصل صورت حال اس سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ہر دو روز بعد کئی کئی نوجوان مارے جا رہے ہیں، گویا یہ ایک ایسا مستقل سلسلہ چل پڑا ہے جس میں ہر طرف نقصان ہی نقصان نظر آرہا ہے۔ صحیح تر الفاظ میں کہئے تو انسان ہی مر ر ہے ہیں ، چاہے وہ عسکریت پسند ہوں یا عام شہری، چاہے وہ فوجی ہو یا پولیس اہلکار۔ قابل غور امر یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ بھاجپا حکومت اور ریاستی حکومت انسانی خون کی اس ارزانی پر ایک ہی پیج پر دکھائی دے رہی ہیں، تاہم خون آشام حالات ایک ایسے لاوے کو اندرہی اندر پکا رہے ہیں کہ جو کبھی بھی اس قدر دھماکہ خیزی اختیار کر ے کہ نہ صرف بھارت اور پاکستان کو بلکہ عالمی امن کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ وبربادی کا فرستادہ بن جائے۔ موجودہ بے قابو حالات میں اس خوف ناک لاوے کے منطقی نتائج تاڑ کر اصلاح احوال کی بجائے آر پار سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کر کے مارنے اور مرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگرچہ یہ دھمکیاں ابھی زبانوں تک ہی محدود ہیں لیکن جو غلط بات بار بار دہرائی جائے وہ کبھی نہ کبھی عملی صورت میںبھی بلا سوچے سمجھے آ ٹپکتی ہے اور یہ کوئی قیاسی بات نہیںبلکہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت بھی ہے ۔ تاریخ کا آئینہ ہمیں دکھاتاہے کہ کشمیر حل کو ٹالتے ہوئے کس طرح پاک بھارت تعلقات کبھی گرم ہوتے ہیں اور کبھی نرم ، ان دونوں ممالک کے درمیان جو آج تک جتنی جنگیں ہوئیں ، ان کی اصل وجوہ کیا بنیں؟ یہی آپسی خونین رقابتیں، ہٹ دھرمیاں، ہم ہستی اور عالمی چوہدریوں کی نفس پر ستانہ بدمعاشیاں۔
جموں وکشمیر کے لوگ اس ساری صورت حال سے بے خبر نہیں بلکہ اچھی طرح سے باخبر ہیں کہ کس طرح بار بار انہیں اپنے پیدائشی حق سے محروم کر کے کچلا دبایا جا رہا ہے۔ پچھلے تیس برسوں سے کس پیرائے میں کشمیری نسل کو اپنوں اور اغیار سے مٹانے کی سازشیں عملائی جارہی ہیں، اس سے پوری دنیا واقف ہے لیکن اس ساری صورت حال کو اچھی طرح دیکھنے کے باوجود بھی وہ لوگ اَن دیکھی کر رہے ہیں جنہوںنے نام نہاد امن وآشتی اور اتحاد واتفاق کی وہ جھنڈی اُٹھا رکھی ہے جس کے سائے تلے نہ کبھی مجلس ِاقوام کے دور میںامن وامان قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی موجودہ اقوام متحدہ کے زمانے میں اس کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ جسے کسی دور میں ایک عالم دین ومفکر نے ’’اقوام متفرقہ‘‘ کا لقب دیا تھا ،کی کشمیر وفلسطین، میانمار اور دیگر مسلم خطہ ہائے مخاصمت کے بارے میںخاموشی ہی بتاتی ہے کہ اس کے پر چم تلے کوئی مسلم مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے بلکہ یہ اندھی عالمی طاقتوں کی ایک ایسی لونڈی بن چکی ہے جس کا اٹھنا بیٹھا اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ بہر صورت ریاست جموں کشمیر کوزیر بحث چھ ماہ کے دوران جس صورت حال کا سامنا ہے ، اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت کے علاوہ عالمی طاقتوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے کشمیر میں رہنے والے لوگ ماریں جائیں یا موت سے بدتر زندگی گزاریں ،ہر حال میں ناحق کا ہی ساتھ دیا جائے گا۔ عملی صورت حال یہی ہے بلکہ ان چھ ماہ کے دوران جو درجنوں کی تعداد میں کشمیر میں مارے جاچکے ہیں،جن میں عام شہری، عسکریت سے وابستہ نوجوان ، مقامی پولیس اہلکار حتیٰ کہ فوجی بھی شامل ہیں، اس پر بجائے افسوس کے اور سوچ بچار کے اُلٹا بھارت کی مرکزی حکومت اور عالمی طاقتوں کی جانب سے مظلوموں کو دھمکیاں مل رہی ہیں، مقامی سطح کی مجبورانہ عسکری جدوجہد کو اب’’ گلوبل دہشت گردی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے، ریاستی سطح پر عام شہریوں کی قتل وغارت گری کو’’ امن دشمن عناصر کی کارستانیاں ‘‘کہہ کر حقیقتیںچھپانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مقامی پولیس سے وابستہ اہل کاروں کی افسوس ناک ہلاکتوں سے کشمیر میں خانہ جنگی برپا کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ فورسز کو مرکزی حکمرانوں کی طرف سے ’’دو ما ہی مہلت ‘‘سے وادی کشمیر میں جاری سیاسی مزاحمت کی کچل دیا جانا کشمیر مسئلہ کا کوئی حل ہے ہی نہیں ، یہ ایک ایسی زعفرانی سوچ ہے جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔حقیقت حال یہ ہے کہ جو کام پچھلے تیس سال کی خون آشامیوں سے نہیں ہو سکا ، وہ اب دو ماہی قتل وانہدام سے کہاں پایہ ٔ تکمیل تک پہنچ سکتا؟ اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ دونوں بھارت اور پاکستان کو کشمیر حل کو پہلی ترجیح دینا ہوگی اور اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے خلوص ، سیاسی عزم واستقامت ، امن پسندی ، نیک ہمسائیگی کے جذبے سے آگے آنا ضروری ہے۔ تب ہی یہ ممکن ہے کہ اس اہم عالمی مسئلہ کا کوئی متفقہ ، دیرپا اور کوئی قابل قبول حل نکالا جاسکے، ورنہ دھمکیاں یا دوسرے جارحانہ طریقے اختیار کرنے سے نہ ہی یہ مسئلہ آج تک دب سکا ہے اور نہ ہی دب سکے گا بلکہ جتنا اس مسئلہ کو دبانے کی کوششیں کی گئیں اُتنا ہی یہ مسئلہ اپنا وجود انسانی لہو، تباہیوں اور بربادیوں کی قیمت پرمنواتا رہا ہے۔
email: [email protected]