ریاست کی سیکورٹی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے اور جہاں سرحدوں پر کشیدگی میں پچھلے کچھ ماہ سے مسلسل اضافہ ہواہے وہیں اندرون ریاست بھی یکے بعد دیگرے ایسی کارروائیاں ہوئی ہیں جن سے ایک بار پھر ذی ہوش افراد کے اذہان میں یہ سوال پیدا ہونے لگاہے کہ آخر اس قتل و غارت گری کا خاتمہ کب اور کیسے ممکن ہوگا۔جموں کے سنجواں علاقے میں قائم فوج کے کیمپ پر فدائین حملے اور سرحدوں پر پائی جارہی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ مرکزی و ریاستی سرکار کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ریاست کے سیکورٹی حالات میں بہتری واقع نہیں ہوئی اور حالات بتدریج کشیدگی کی اور بڑھتے جارہے ہیں ۔ ریاست میں ایسے فدائین حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں لیکن موجودہ صورتحال کافی تشویشناک بنی ہوئی ہے اور یہ حملہ ایسے وقت میںہواہے جب سرحدوں پر ہندوپاک افواج کے درمیان جنگ کا سماں ہے اور ا ٓئے روز شہری اور فوجی ہلاکتیں پیش آرہی ہیں ۔ سنجواں فدائین حملے میں لگ بھگ دس ہلاکتیں ہوئیں اور کئی لوگ زخمی ہوئے جبکہ گزشتہ روز ہی راجوری سیکٹر میں ایک خاتون گولہ باری اور فائرنگ کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئی ۔ اس سے قبل پچھلے ہفتے ہی راجوری سیکٹر میں ایک آرمی افسر سمیت چار اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی اور اسی طرح سے مینڈھر سیکٹر میں بھی ایک بزرگ خاتون مارٹر گولے کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئی ۔ اگر حالات کا بغور جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتاہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہلاکتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ایسے واقعات پر دونوں ممالک کی فوجی و سیاسی قیادت کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ماضی میں جب بھی ریاست کو ایسے حالات کا سامنا کرناپڑااور دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی تواس کو بالآخر بات چیت کے ذریعہ ہی کم کیاگیا اور اس بار بھی اس کشیدہ ماحول سے باہر نکلنے کیلئے واحد راستہ بات چیت کا ہی ہے ۔جنگ و جدل کے ماحول سے کچھ حاصل نہیںہوگا اور نہ ہی ماضی میں اس سے کچھ ملا ۔اس کشیدگی کا براہ راست اثر نہ نئی دہلی اور نہ ہی اسلام آباد کے صدر مقامات پر پڑتا ہے اور اگر اس کا خمیازہ اُٹھانا پڑتا ہے تو سرحدکے دونوں طرف بسنے والے عوام کواور جب سرسے پانی اوپر چلا جاتا ہے تو جنگ جدل کی نوبت آتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اب تک تین باضابطہ جنگوں اور مختصر مدتی تصادم آرائیوں کے نتیجہ میں جانی اور معیشی تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔اگر تصفیہ طلب مسائل خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی سے بات چیت کی جائے تو اسکی آڑ میں پیش آنے والے ایسے واقعات رونما ہونے کی نوبت نہیں آئے گی اور ساتھ ہی کشیدگی کا خاتمہ بھی ہوجائے گا تاہم ابھی تک دونوں ہی ممالک اس کیلئے تیار نہیں اور ہردو فریق عالمی سطح پر ایک دوسرے کو زچ کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب عالمی سطح پر سیکورٹی یا ملٹری اقدامات سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ بنتے دیکھے جارہے ہیں اوربات چیت کے ذریعہ مسائل حل کرنے کی سوچ کو ہر جگہ اور ہر سطح پر پذیرائی مل رہی ہے ۔بدقسمتی سے ریاست میں بھی ایک ایسے مسئلے، جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اقدامات سے ہی ہوسکتاہے، کی وجہ سے مسلح تصادم آرائیاں ہو رہی ہیں۔عالمی سطح پر رونما ہورہے حالات سے سبق لیتے ہوئے دونوں ممالک کی قیادت کو بات چیت کا راستہ اختیا رکرناچاہئے اور اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ سرحدوں پر امن قائم رہے اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو سنجیدگی سے حل کیاجائے تاکہ باربار ایسے حالات کا سامنا نہ کرناپڑے اور نہ ہی فوجی اور شہری ہلاکتیں ہوں ۔