ٹیٹوال // ریاست کومنقسم کرنے والے دریائے کشن گنگا( نیلم ) واقع ٹیٹوال پر آج سے دو برس قبل منقسم خاندانوں کا ملن ہوتا تھا لیکن یہ ملن بھی آر پار کی حکومتوں کو برداشت نہ ہوا اور پچھلے دو برسوں سے اس ملن پر روک لگانے کیلئے نہ صرف دریائے کے کناروں پر اضافی فوجی نفری تعینات کی گئی بلکہ کچھ علاقوںمیں خاردار تار بھی نصب کر دی گئی ہے ۔سال2005میں جب ریاست جموں وکشمیر کے پانچ مقامات سے راہداری پوائنٹ کھولے گئے تو ٹیٹوال کو بھی اس کراسنگ پوائنٹ کا درجہ دیا گیا ۔ کرناہ ، کیرن ، مژھل ، کپوارہ ، ہندوارہ سے لوگ اپنے بچھڑوں کو ملنے وہاں پہنچتے رہے،جبکہ اس پار نیلم ،لیپا اور مظفرآباد سے بھی بڑی تعداد میں منقسم کنبے اپنوں کو ملنے کیلئے آتے رہے۔سال2005میں جب کراسنگ پوائنٹ کھلا تو ہفتے میں ایک بار یہاں سے آرپار کراسنگ ہوتی رہی۔ یہ کراسنگ کا دن منقسم کنبوں کیلئے عید کی چاند کی طرح ہوتا تھا ۔اس دن دریائے کشن گنگا کے دونوں کناروں پر وہ لوگ بھی آپس میں ملتے تھے جنہیں آر پار کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔یوں اس کراسنگ پوائنٹ کے مقام پر منقسم خاندانوں کا میلا لگا رہتا تھا۔ دریائے نیلم کے کناروں پربچھڑے خاندانوںکے لوگ جمع ہوکر چلا چلا کر اپنے عزیزوں کی خیر و عافیت دریافت کرتے تھے ۔خط وکتابت کا سلسلہ بھی چلتا تھا ،دریا کے آر پار تحوائف وغیرہ بھی پھینکے جاتے تھے اور یہ سلسلہ 2015تک چلتا رہا لیکن پچھلے دو برسوں سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ٹیٹوال میں سال 2005 میںکراسنگ پوائنٹ کھلا تو ہندوپاک حکومتوں نے دریائے کشن گنگا پر ایک پل تعمیرکیا جس کا آدھا حصہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے بنوایا اور آدھا حصہ یہاں کی حکومت نے تعمیر کیا ۔لیکن اب کشن گنگا کے آر پار خار دار تار نصب کر کے فوجی جمائو کو بھی بڑھا دیا گیاہے تاکہ کوئی بھی دریا پر آ نہ سکے ۔ایک عمر رسیدہ ماں شرینہ بیگم، جس کا بیٹا 1990کی دہائی میں سرحد پار چلا گیا ہے،وہ کراسنگ کے روز وہاں جاتی تھی لیکن پچھلے دو برسوں سے وہ بھی اپنے بیٹے کے دور کے ملن کیلئے بے چین ہے اور مرنے سے قبل اُس کا دیداد کرنا چاہتی ہے ۔