یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نئی دلی کے پاس ایک لشکر جرار ہے جوحقوق البشر کے ازلی دشمن افسپا کے سہارے جموں کشمیر میں تعینات ہے ۔ گزشتہ اٹھائیس برس سے یہ فوج ایک ایسی جنگ میں مصروف ِ عمل ہے جس میںایک جانب کشمیرکاز کی بے سروسامانی ہے اور دوسری جانب حکمرانوں کی پتھر دلی ہے ۔ان دومتخالف قوتوں کے درمیان موزانہ ایک لحیم وشحیم ہاتھی اور نحیف و نزارچیونٹی جیسا معاملہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قدوقامت کے اعتبار سے سب سے بڑے جانورکوکبھی کبھی حشرات الارض میں سے سب سے چھوٹی مخلوق چیونٹی بھی بے بس بنادیتی ہے۔اس تناظر میں چیونٹی اورہاتھی کی مثل زبان زد عام ہے۔اس خطے کی سول اورفوجی تاریخ کا ناقابل تردید پہلو یہ بھی ہے کہ1947ء سے چلے آرہے سیاسی تنازعے میں کشمیری عوام فریق مخالف کا مقابلہ قوتِ بازوکے بل پر نہیں بلکہ اخلاقی سطح پر فائق ہے اور بس۔ اپنے تمام تر مستند تاریخی حقائق و سیاسی شواہدکی موجودگی میںیہ امرطے شدہ حقیقت ہے کہ کشمیرکاز اخلاقی سطح پرطاقت ور ہے اور نئی دلی عسکری سطح پر غالب ہے ۔تاریخ کے اوراق صاف گواہی دیتے ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے فوقیت رکھنے والی بے بس قومیں مادی اعتبار سے بھاری سلطنت والوں پر بھاری پڑتی ہیں ،جائزاورمبنی برانصاف جدوجہد اپنے ناقابل تسخیر اصولوں،حوصلوں ،ہمتوں اورجذبہ ٔ ایثار کی حامل چھوٹی قوموں نے طاقت کے بڑ ے بڑے گرانڈیلوں کو حق وصداقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا ۔ اس تاریخی مسلمہ پرخودبھارت کی تاریخ شاہدوعادل ہے کہ جس سامراجی طاقت کا سورج کبھی نہ ڈوبتا ،اُسی طاقت ورترین سلطنت برطانیہ کے سامنے اپنی حربی ومادی نا برابری کے باوجود ہند وستان آزاد ہوا ، جب کہ انگریز کی ماردھاڑ ، ریشہ دوانیاں اور مکاریاں اہل ہندکی تحریک آزادی کو کچل سکیں نہ آزادیٔ ہند کا سورج طلوع ہونے میں مخل ہوسکیں۔اسی فضا میں برطانوی سامراج کا سورج برصغیر میں یک بہ یک غروب ہو ا۔
برطانوی سامراج کوشکست فاش ہونے کے بعدکی ایک گہری سازش کے تحت جب تقسیم برصغیرکے طے شدہ فارمولے کے عدم اطلاق کے باعث جموں کشمیر ایک متنازعہ اورحل طلب مسئلہ اُبھرکرسامنے آیا تواقوام متحدہ سے لے کربھارت کی شروعاتی قیادت تک سب نے بیک زبان کشمیریوں کوانصاف دلانے کے وعدے کئے لیکن ستربرس گذرنے کے باوجودیہ وعدے وعید ایفاء نہ ہوسکے ۔کشمیری عوام انہی عالمی سطح پر کئے گئے وعدوں اورپھر وعدہ خلافیوں اور عہد شکنیوںکو یاددلاتے ہوئے دلی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حق خودارادیت اوراستصواب رائے کے وعدے کا ایفاء کر کے مسئلہ کشمیرکوپرامن طریقے سے حل کیاجائے۔ اسی ایک’’ قصور اورگناہ‘‘ کی پاداش میںکشمیری عوام پٹ رہے ہیں ، لُٹ رہے ہیں اور مٹ رہے ہیں ۔ا ور آج کی تاریخ میں بھارت کے سینا پتی جنرل راوت بھی بڑے سخت گیر لب ولہجہ میں فرما رہے ہیں کہ کشمیریوں کو آزادی نہیں ملنے والی ہے ۔
کشمیر پر سلامتی کونسل کی پاس کردہ قرارداد 5جنوری1949ء اقوام متحدہ کے ہی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے آزادانہ ،منصفانہ اورپرامن حل ضمانت دیتی ہے۔ نیزجنرل صاحب کو جاننا چاہیے کہ جد ید بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرونے سری نگر میں کشمیری عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرکے سامنے یہ وعدہ دیا تھاکہ’’ ہم کشمیری عوام کے استصواب کاحق دلانے کے قانوناًپابندہیں‘‘۔اس لئے تاریخی پس منظرمیں اس بات پرنہایت ٹھنڈے دماغ سے سوچناہوگاکہ کیاکشمیری عوام بھارت سے آزادی کی بھیک مانگتے ہیںکہ جس پربھارتی آرمی چیف سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہہ دیں کہ’’کشمیریوں کو آزادی نہیںمل سکتی اور جو بھی آزادی کا مطالبہ کرے گا توانڈین آرمی اس کے خلاف جنگ کرے گی‘‘۔یہ بات طے ہے کہ اس طرح کی سخت گیریت سے اگر کشمیری مرعوب ہوئے ہوتے تو گزشتہ ستر برس کے طویل دورانیے میں ظلم وتشدد کی آندھیوں میں کشمیر کاز دفن ہو اہونا چاہیے تھا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج تک تمام arm-twistingآزمودہ حربوں کے باوجود کشمیر کی سیاسی جدو جہد اپنے اُتار چڑھاؤ کے مراحل طے کر نے کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ کشمیرکازکے گذشتہ اٹھائیس برس طویل وقائع کوبنظرغائردیکھنے والے بھارت کے سابق آرمی چیفس اورانٹیلی چیفس نے اپنی ریٹایرمنٹ کے بعدواشگاف الفاظ میں کہاکہ مسئلہ کشمیرکاکوئی فوجی حل نہیں۔ بھارت کے جنرل وی پی ملک اوراے ایس دُلت کے بیانات ریکارڈپرموجودہیںکہ جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعدکشمیرکے حوالے سے بیانات دیئے کہ کشمیرکاکوئی فوجی حل نہیںلیکن بعد کے حالات اس امرپرگواہ ہیں کہ ایسی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے ہی نہیں ہوئی جوبھارت کے سابق آرمی چیفس کے بیانات کوعملی جامہ پہناتے ہوئے نظرآتے بلکہ اس کے علیٰ الرغم طاقت آزمائی کی مشق میںسوگنااوربے تحاشااضافہ کرکے کشمیرکازکودبانے کی ناکام کوششیں تیزہوئیں۔بھارت کے ریٹائرڈجنرلوں کے کشمیرمسئلے کوغیرفوجی طریقے سے حل کرنے بیانات کے تناظرمیں جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے جاتے تو مثبت نتائج اور روشن امکانات کی فصل کاٹی گئی ہوتی اور اس سے نہ صرف برصغیر میں پائیدار امن وآشتی کی فضا پیدا ہو ئی ہوتی بلکہ کروڑوں لوگ غربت، بیماری اور جہالت کے خارزاروں سے نکل باہر آئے ہوتے اور برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگیاں خوش حالی کی بانہوں میں ہوتیں ۔اس میں دورائے نہیں کہ خطے کا سب سے اہم اور بڑا حل طلب مسئلہ جو تمام مسائل کی جڑ ہے ،وہ صرف مسئلہ کشمیر ہے۔خطے میں پائے جانے والے باقی تمام مسائل اسی ایک ناسور زدہ مسئلے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ایک بارکشمیرکامسئلہ دائمی بنیادوں پر انصاف کے ساتھ حل ہوجاتاہے تودیگرضمنی مسائل چٹکیوں میں حل ہوں گے لیکن اس کے لئے اولین شرط ہے کہ تعصب ،ضداورہٹ دھرمی کوترک کرکے خلوص نیت سے لیس ہوا جائے ۔یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے تمام مسائل حل آناًفاناً ہوسکتے ہیں۔
کشمیر جیسے حساس موضوع پر موجودہ بھارتی آرمی چیف کا بیان دلی کا مائنڈ سیٹ ظاہر کر راہے لیکن اس سے محض ایک برس قبل 25اپریل، 2017کوبھارت کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف وید پرکاش ملک جوکرگل وارکے دوران بھارتی فوج کے سربراہ تھے، نے کشمیر کے سیاسی حل کی پر زور وکالت کرتے ہوئے کہا:Kashmir Issue Should Be Solved Through Political Means۔ پونا میں سرحد کالج برائے آرٹس، کامرس اور سائنس سے خطاب کرتے ہوئے وید پرکاش ملک کاکہناتھاکہ کشمیر تنازعے کو سیاسی سطح پر حل کیا جانا لازمی ہے۔ مزید برآںان کاکہنا تھاکہ کشمیر مسئلے کے حل کا تمام تر بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈال کر توقع کی جارہی ہے کہ فوج اکیلے یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی،حالانکہ یہ ناممکن ہے، اوراس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا زیادہ ضروری ہے۔ قبل ازیں بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW)کے سابق چیف اے ایس دولت نے7ستمبر2016کوا پنے ایک تفصیلی انٹریومیں کہاکہ نئی دلی سرکار کے پاس مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں اور اسے ہر صورت اسلام آباد سے مذاکرات کرنا ہی پڑیں گے۔جرمنی کے نشریاتی ادارے ’’ڈی ڈبلیو ‘‘کو دئے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کشمیر کی صورت حال کو بہت ہی خراب طریقے سے نبردآزما ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہاں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اپنے انٹریومیںاے ایس دولت نے اعتراف کیا تھا کشمیر کی صورت حال 2008اور 2010سے بھی زیادہ بدتر ہے، کشمیری خاصے برہم ہیں اورانہوں نے برہان وانی کے جان بحق ہو نے کے ردعمل نے اس غم و غصہ کو باہر نکال دیاجب کہ مرکز سری نگر میں بے جا مداخلت نے کشمیری عوام کے غیض و غضب کو مزید بھڑکا دیا۔اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ کشمیر کی نوجوان نسل 1990کی دہائی میں ہونے والی صورت حال کے سائے میں پروان چڑھی ہے، نوجوانوں کو محسوس ہورہا ہے کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، دلی کی جانب سے سری نگر میں بے جا مداخلت نے کشمیری عوام کے غیض و غضب کو مزید بھڑکا دیا اور محبوبہ مفتی کو اندازہ ہی نہیں کہ اُسے کیا کرنا چاہیے، ایسی صورت حال میں حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ کشمیر کی صورت حال کو بدترین قرار دیتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ 1990میں جب مسلح جدوجہد عروج پر تھی تو اس وقت بھی حالات ایسے نہیں تھے۔ اے ایس دلت نے اس سوال پر کہ کیا حالیہ غیر مسلح جدوجہد میں اسے بھی خراب صورت حال ہے،دولت کا جواب ہاں میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ1990کے مقابلے میں اب صورت حال خراب تر ہے،کیونکہ اس میں عام نوجوان شریک ہیں اور وہ قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ کشمیرمیں نا امیدی کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ مرنے سے نہیں ڈرتے،طلباء توتھے ہی مشتعل، اب کشمیرکی طالبات بھی گلیوں پر آکربھارتی فوج پرپتھرمارتی ہیں ۔ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ اپنے ایک اورتازہ انٹریومیںاے ایس دولت کا مانناہے کہ کشمیر کا مستقبل اچھا دکھائی نہیں دے رہا، کشمیری خاندانوں میں بہت زیادہ بے یقینی ہے ،اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت کیوں پاکستان سے مذاکرات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔کشمیرمیں برہان وانی کے بعد حریت کے تمام دھڑے یکجا اور ایک ہیں ۔ بہر حال اگرچہ موجودہ آرمی چیف بھی پہلے ہی کہہ چکے ہیں :’’ کشمیرمسئلے کاکوئی فوجی حل نہیں‘‘لیکن دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ ہم کشمیریوں سے جنگ کرتے رہیں گے اورانہیں کسی بھی طورپرآزادنہیں چھوڑیں گے۔ اس سے صاف طور واضح ہوجاتاہے کہ یہ بیان ذہنی جھنجھلاہٹ کا شاخسانہ ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ دولت نے1980 کی دہائی میں سری نگر میں انٹیلی جنس بیورو کے اسپیشل ڈائریکٹر کی حیثیت سے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی نگرانی کی جب کہ1999سے 2000تک وہ ’’را‘‘کے چیف کی حیثیت سے کشمیرکے معاملات سے براہ راست وابستہ تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ 2001 سے 2004 تک بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشیر برائے امور کشمیررہے ۔ انہوںنے واجپائی کی کشمیرپالیسی پر ’’کشمیرواجپائی ایرز‘‘کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جس میں تحریک کشمیرپرٹھوس شواہدفراہم نہ کرتے ہوئے کئی قابل اعتراض باتیں بھی لکھیں ۔ یہاں ان سطور میںجنرل ملک کے بیان اوردولت کے انٹریوکاحوالہ اس لئے ضروری ہے تاکہ آرمی چیف کے تیز طرار بیان پر تجزیاتی نگاہ ڈالتے ہوئے یہ حقئق نظروں سے اوجھل نہ رہیں کہ کشمیر کے تعلق سے اول الذکر دواہم شخصیات کی راست گفتار ی کر کے حق شناسی کا ثبوت دے چکے ہیں مگر مرکز نے ان کو قبولا نہیں۔اس کے برعکس کشمیر کوشام اورشمالی وزیرستان بنادینے اورنہتے کشمیریوںسے جنگ جاری رکھنے کی باتیں بولی جارہی ہیں جو جلتی پر تیل کاکام کر تی ہیں۔ دنیا بھی مانتی ہے کہ مسئلہ کشمیرکاکوئی فوجی حل نہیںجب کہ یہ نہتے کشمیریوں پر جنگ مسلط کر نے ،ان کی گردنیں دن رات اُڑانے اور ظلم وجبر کی بھٹی گرمانے کاہی نتیجہ ہے کہ عمرانیات کا اسکالر ڈاکٹرمحمدرفیع جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ ،برسرروزگاراوراعلیٰ عہدے پرفائزسب کچھ تج تیاگ کربندوق تھام لیتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ وہ 36گھنٹوں تک ہی عسکریت کے فیلڈمیں رہ کرحیات ابدی پاتاہے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ کونسے اسباب و محرکات ہیں جن کے باعث ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور کشمیر یونیورسٹی پروفیسر اپنی زندگی کے تمام ارمان چھوڑ کر اُس خارزارمیں قدم رکھتاہے جس کا دیر سویر آخری منظر جنازے کی صورت میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ جس قدر کشمیرمیں جبرو قہر بڑھ جائے گا کشمیریوں کا جذبہ مزاحمت اسی قدر شدت اختیار کرتا جائے گا۔ کشمیریوںنے پچھلے تین عشروں کے دوران تمام تر تکالیف کے باوجوداپنے عزم راسخ کا راستہ اور قربانیوں کاسلسلہ بند نہ کیا اور یہی کچھ تحریک کشمیر کا اثاثہ وسرمایہ ہے ۔ لہٰذا زمینی حقائق سے آنکھیں چراکرنہتوںسے جنگ جاری رکھنے کی باتیں کر نا ممکن ہے کہ امن دشمن فسطائیوں کو بھلی لگیں مگر ان سے کوئی عقل ودانش کی راہ کشائی نہیں ہوسکتی ۔ اس نوع کے اعلانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دلی کشمیری عوام بالخصوص نوجوان طبقے کے جذبہ مزاحمت کو توڑنے کیلئے ظلم وتشدد کی ہر حد پار کرنے کامن بنا چکی ہے لیکن طاقت کی بنیادپر جموں کشمیر میں قبرستان کی سی خاموشی چاہنے والوں کو تاریخ عالم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تواریخ کاعمیق مطالعہ کرناچاہئے۔ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران برطانوی سامراج بھی ہندوستانیوںکوصفحہ ہستی سے مٹانے اورانہیں نیست ونابودکرنے کی باتیں کہہ کر ہندوستانی عوام کے جذبہ آزادی کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگرچشم فلک نے دیکھاکہ سب بے سودثابت ہوا،اورہندوستان برطانوی سامراجیت سے آزادہو کر رہ گیا۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ برطانیہ نے فوجی بل بوتے پر ہندوستان کو اپنی نوآبادی بنایا تھا اور یہاں 100 سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی ، ہزاروں ہندوستانیوں کو ہلاک کیا اور جلیاں والا باغ جیسے قتل عام بھی کئے مگر جب حالات کا پہیہ ہندوستانیوں نے قربانیوں اور سنجیدگی کے بل پر الٹا گھمایا تو برطانیہ آزادیٔ ہند کا پرچم نہر وجی کو سونپ کر برصغیر سے نو دوگیارہ ہو ۔ حالانکہ برطانوی فوج کے پاس نہتے ہندوستانوں کو کچلنے اور اس سرزمین پر جبری قبضہ قائم رکھنے کیلئے تمام حربی وسائل اور اسلحہ کے انبار موجود تھے لیکن اس کے باوجود انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑاکیونکہ عصرحاضر میں عوام الناس کا اپنا سیاسی مستقبل طے کرنے کا عزم اور اپنی تقدیر سازی کی خواہش کسی بھی فوجی طاقت سے زیادہ فولادی ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیرمیںمیں موت کے رقص کا جولامختتم سلسلہ جاری وساری ہے ،اُس نے جنت ارضی کو خون سے لالہ زار بنایاہے۔کشمیر کی تاریخ میں۷۵ء کے اکارڈ سے لے اخوان تک کے تمام فارمولے آزمائے گئے اور اس دوران ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کی جانیں بھی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھ گئیں، کھربوں روپے کامالی نقصان ہو ا، عصمتوں پر حملے ہوئے ،زندگی کا پہیہ مسلسل جام کیا گیا، انسانوں کی حالت جانوروں سے بھی بد تر کی گئی، کشمیری اپنی ہی سرزمین میںقید کئے گئے،انہیں خواب گاہوں میں سکون کی نیندسے محروم کیا گیا، ان کی تمناؤں کا گلشن اجاڑ دیا گیا مگر اس سب کے باوصف کشمیر کاز جنت ارضی کی زندہ وجاوید حقیقت ہے ۔ اس لئے سینا پتی کے دھمکی آمیز بیان سے ان کامرعوب ہونا اور کشمیرکازکے پرچم کوسرنگوں کر نے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ کشمیر کی تاریخ کی پیشانی پر مورخ کلہن نے جلی حروف سے یہ امر واقع رقم کیا ہے کہ اہل کشمیر کو بزورِ بازو کبھی زیر نہیں کیا جاسکتا۔ حق بات یہی ہے جب کشمیرظلم اورظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا تواسے رام کرنے کا ہر طرح کا بوداحربہ ناکام و نامراد رہا اور یہ خطہ مینو نظیر آلام و مصائب کا سامنا کرتے بزبان حال گنگناتا رہا ؎
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں