کشمیر ۔۔۔ مذاکراتی حل لازم وملزوم

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read

 حکمِ اذاں

 ۴۷ ء میں برطانوی سامراج سے آزادی کے ساتھ ہی جہاں دو قومی نظرئیے کے تحت ہندوستان اور پاکستان دو آزادو خودمختار ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرے، وہیں برصغیر کی تاریخ میں ناسور نما قضیہ یعنی مسئلہ کشمیر بھی اقوام متحدہ کے ٹیبل پر نمودار ہوا۔ دو مکاروعیار سامراجیت کے فرستادوں لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے جان بوجھ کر بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کے نام سے ایک درد سر اور درِجگر پیدا کیا اور ایک خونی لکیر کشمیر کے سینے پرکھینچ کر آر پار کو فتنہ وفساد ، دشمنی اور دغابازی کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا جس کا خمیازہ ستر سال بعد بھی آج کشمیری عوام بھگت رہے ہیں ۔ بٹوارے کے قواعد و ضوابط اور اصولوںکے مطابق کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر ایک مکروہ سازش کے تحت کشمیر کو اہل ِکشمیر کی مرضی کے خلاف ہندوستان کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ انگریزوں نے جاتے جاتے ہندوؤں کے ساتھ مل کر پاکستان کوناتواں و منتشرکرنے کے لئے اور ہندوستان کو کنگال بنا نے کے لئے اس مسئلے کی وساطت سے برصغیر میں اسلحہ کی دوڑ شروع کرائی اور دفاعی اخرجات کے نام پر دونوں قوموں کو لوٹنے کا حسین بہانہ بنایا ۔ ویسے بھی نفرتوں اور شکوک وشبہات کے بیج بونے کے لئے ۴۷ء میں قدرتی وسائل کے بٹوارے میں انگریزاور ہندوؤں نے ساز باز کر کے پاکستان کے ساتھ کافی ناانصافیاں کیںکیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی عقیدے پر رکھی گئی تھی جس کے ہندو اورعیسائی ازل سے ہی دشمن رہے۔ اُن پُر آشوب ایام میں ہندوستان کے کونے کونے سے مسلمانوں کے زخمی ، بیمار اور لٹے پٹے مہاجرین کے بڑے بڑے قافلے پاپیادہ روز پاکستان پہنچ رہے تھے۔ لاہور ایکسپریس میں لاکھوں مسلمان مہاجر پاکستان ہجرت کے لئے چڑھتے اور جونہی یہ مشرقی پنجاب پہنچتے تو جنوبی ہندو اور سکھ بلوائی ان پر جان لیوا حملے کرتے  جن میں زیادہ تر نہتے مسلمان شہید ہو جاتے تھے۔ یوں پاکستان لاکھوں بھوکے ننگے زخمیوں، لٹے پٹے قافلوں اور بے خانماں کنبوں کا ایک وسیع ترین پناہ گزیں کیمپ بن کر رہا۔ ہر طرف زخمیوں کے کراہنے کی آہ وبکا۔۔۔ شہداء کے وارثین کے نالے اور فریادیں۔۔۔ یتیموںیسیروں کی چیخ وپکار۔۔۔ اپنوں سے بچھڑہوؤں کا واویلا۔۔۔ غرض چہار سُو محشر کا سا سماں بندھا تھا۔ اس مشکل وقت میں بھی اُمیدوں اور آرزؤں کا ایک مضبوط مینار اپنی جگہ مستحکم کھڑا تھا۔ طوفان کے لاکھوں تھپیڑے بھی اس کے عزم و ہمت کو متزلزل نہ کر سکے۔۔۔ یہ مینار تھا نحیف و لاغر مگر عزم و ایمان کا پیکر و مجسم قائد اعظم علی محمد جناح ۔ قائدبے تحاشہ مشکلات سے دوچار اپنی مملکت اور قوم کوآخر تک یہ مژدہ سناتے رہے کہ ہم نے جو پاکستان لاکھوں شہداء کے عوض حاصل کیا ہے وہ زندہ ہے اوروپائندہ رہے گا۔ 
کانگریس اور انگریز نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کبھی ایک حقیقت بنے مگر یہ مسلمانوں کی لامثال ایثار وقربانیوں کا ہی ثمر ہ تھا کہ مملکت خداداد معرض وجود میں آیا اور وقت کا کوئی طوفان ، زمانے کی کوئی بلا ئے ناگہانی اور دشمنوں کی مسلسل ریشہ دوانیاں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔البتہ انگریزوں اور ہندوتووادیوں نے کشمیر مسئلے کی شکل میں اس مملکت کے لئے مسائل کے انبا رلا کھڑے کئے ہیں ۔ اُس وقت قضیہ زمین بر سرزمین کے مصداق قائد اعظم نے نامساعدت میں گھر کر بھی مسئلہ کشمیر کو ایک ہی بار حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ا نہوں پاک فوج کے کمانڈر جنرل گریسی کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا جو جنرل نے چپ چاپ ٹال دیا۔ قائد کی طبیعت ناساز تھی، اس لئے کشمیر کے فوجی حل پر زیادہ اصرار ممکن نہ ہوامگر قبائلی گوریلاؤں نے کشمیر کو مسلح جدوجہد سے مہاراجی جبر وتسلط سے آزاد کر انے کی ٹھان لی ، وہ سری نگر کے قریب پہنچ بھی گئے۔  نوبت یہ پہنچی کہ حالات کے کڑے تیور دیکھ کر مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر سے بھاگ گیا اور شیخ عبداللہ کو اقتداری لالچ کے ذریعے شیشے میں اُتارکرہندوستان کے ساتھ ریاست کا مشروط الحاق کر کے تاریخ کا سب سے بڑا ظلم وتشدد اہل کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر کے ساتھ کیا،وہ دن اور یہ دن ہند پاک تنازعاتاورا ختلافات جاری ہیں جب کہ1947 سے کشمیری قوم ناکردہ گناہوں کی سزا پارہی ہے ۔ ہندو پاک جنگ کو رُکواکر اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور ریاستی عوام کی مرضی جاننے کیلئے رائے شماری کی قراردادیں منظور کیں مگر ابھی تک ا ن کا نفاذ تشنہ ٔ تعبیر ہے ۔آج تک ان قراردادوں کی روشنی میں کشمیری قوم ہندوستان کو اپنے وعدہ ٔ استصواب رائے کا وفا کر نے کی مانگ کر رہی ہے مگر ہندوستان جواب میں پوری عسکری قوت کے ساتھ نہتی کشمیری قوم کو دباتی کچلتی جارہی ہے۔ کشمیر کے غیور اور حریت پسند عوام حتیٰ کہ اب وادی بھرمیں معصوم اسکولی بچے اور معصوم بچیاں تک آزادی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے صف آراء ہوئی ہیں۔ نوے سے اب تک ایک لاکھ سے زائد چڑھتی جوانیاں کشمیرکاز کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر چکی ہیں۔ ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمتیں انتقاماً درندہ صفت وردی پوشوں نے تارتار کی ہیں،ا ن بہادروں نے کھربوں ڈالر مالیت کی املاک تباہ و برباد کر دی ہیں ، اَن گنت کشمیری زخموں سے چور ہیں، سینکڑوں معصوم نوجوان اور دوشیزاؤں کی آنکھیںبے نور کی گئی ہیں، ہزاروں نوجوان جیلوں اورا نٹروگیشن مراکز میں سڑ رہے ہیں۔۔۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کشمیرحل کی مانگ ہر گزرتے د کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ کیا نئی دلی کو اس منحوس دن کا انتظار جب کشمیر کا نحوست آمیز قضیہ سلجھانے کے لئے برصغیر میںا یک تباہ کن نیوکلیائی جنگ چھڑ جائے کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی کا وہ المیہ بھی ہیچ لگے جسے امریکہ نے جنگ عظیم دوئم میں وجود بخش کر دو جاپانی شاد وآباد شہروں کو پلک جھپکتے ہی تباہیوں کے گہرے کھڈ میں دھکیل دیا اور آج پون صدی گزرنے کے باجود وہاں اٹم بم کے تابکاری اثرات شہریوں کو موذی امراض میں مبتلا کئے جاتے ہیںاور زمینوں کو سبزے سے ناآشنا کررہے ہیں ۔  
         یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج سے قریباً تین دہائیوں سے کشمیر میں جمہوریت کا دیو استبداد انسانیت کو اپنے بھاری بھرکم پیروں تلے کچلتا جا رہا ہے۔ ہر روز کشمیر کو خاک و خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ کہیں آگ و آہن اور کہیں قتل و غارت خاکی وردی کا معمول اور مشغلہ بن چکا ہے۔ انسانی حقو ق کی پامالیاں عروج پر ہیں ۔ لوگوں کو بِن موت مارا جارہاہے ، انہیں حقِ خود ارادیت کی آواز بلند کرنے پر ایسی ایسی عقوبتوں کا نشانہ بنایا جارہاہے کہ میرا قلم اس کی تصویر کشی کر نے سے معذور ہے۔ یہ ظلم وجبر دلی کی پالیسی کا حرف اول بھی ہے اور حرف ِ آخر بھی ۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت ہند کشمیر کو برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ نہیں مانتی بلکہ اسے کشمیری عوام کی ’’بلا جواز شورش وبغاوت‘‘ سمجھ کر اسے ا من و قانون کے دائرے میں ٹریٹ کرتی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ کشمیر میں حالات سدھر نے کی بجائے روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ دلی کو اپنے فوجی طاقت کے نشے میں یہ تک نہیں دکھائی دے رہاہے کہ کشمیر کا حل مسلسل ٹالنے سے اسے سائچن سے سری نگر تک کتنا مالی خسارہ اور جانی نقصان برداشت کر نا پڑ رہا ہے۔ افسوس توا س بات کا بھی ہے کہ نام نہاد مہذب دنیا کے نام امن پسند اور سلامتی کے ٹھیکیدار یہ سب کچھ اپنے سر کی آنکھوں سے ہوتا ہوادیکھ رہے ہیں پھر بھی محض پیٹ پوجا میں چپ چاپ بیٹھے ٹھنڈے پیٹوں کشمیریوں پر ہو رہے نا قابل بیان مظالم ومصائب پر دلی کی سرزنش یا فہمائش نہیں کر تے۔ اقوامِ متحدہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں امن و آشتی بنائے رکھنے کے لئے وجود میں آیا تھا، یہ ادارہ بھی کشمیر ہو یا فلسطین ا، ان دو کنفلکٹ زونوں کے حوالے سے ہرسنی کی اَن سنی اور ہر دیکھی کی اَن دیکھی کر کے منصبی فرائض بھول بیٹھا ہے ،جب کہ کشمیری قوم حق خود ارادیت کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ عسکریت سے لے کر پتھر یت تک نوجوان سیاسی آزادی کے لئے مردانہ وار سینہ سپر ہیں۔ حق یہ ہے کہ نہ سنگھ پریوار کی رایشہ دوانیاں اور نہ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کی دھمکی ان کا جذبہ سردکر سکی۔اس لئے تمام حالات وکوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر اور برتر بات یہی ہے کہ دلی کی حکومت کشمیر حل کے لئے بغیر کسی پس وپیش کے متعلقہ دوفریقوں سے مذاکرات کے لئے سامنے آنے کی سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرے تاکہ برصغیر امن وآشتی کا گہوارہ بن کر قوموں کی برادری میںا یک روشن مثال بن سکے ۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیاء میں امن واستحکام نام کی چیز ہمیشہ عنقا رہے گی ۔

 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *