مہذب دنیا اور تہذیب یافتہ معاشروںمیں انسانی حقوق کا احترام انسانی زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور نا قابل مصالحت اصولوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔قوموں کی اخلاقیات کا اندازہ ان کے انسانی حقوق کی تئیں پاسداری اور احترام سے لگا یا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے آج کی دنیا میں ریاستیں اور حکومتیں اخلاقیات نا م کی ہر چیز سے خو د کو مستثنیٰ سمجھتی ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب کسی ریاست کو سیاسی ، ما لی اور فوجی قوت و با لادستی حا صل ہو تو اخلاقی قدریں اس میںنا پید ہو کر رہ جاتی ہیں۔ جموں وکشمیر کے عوام گزشتہ سات دہائیوں سے اخلاقیات سے عاری جارحانہ ومعاندانہ سیاست کاری اور اس کے بطن سے پھوٹنے والی اذیت ناک بیماریوں کا سامنا ہے۔ اس ضمن میںانسانی حقوق کی زبو ں حالی اور ا ستبدادی پالسیوں کا عمل دخل قابل فہم امر ہے۔ اسی اَن کہنی اور اَن سنی داستان کا پہلی بار نوٹس لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے 14؍جون 2018ء کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں جمو ں کشمیر کے عوام کو انسانی حقوق کی محرومیوں کوریکارڈ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور تشویش ناک صورتحال پر یہ رپورٹ پچھلے ستر سال میں اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے۔ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر سلامتی کو نسل کی پاس کردہ کئی قراردادوں کے بعد عالمی ادارے کی طرف سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ سے مترشح ہوتا ہے کہ ریاستی کے اکثریتی عوام کو انڈین سٹیٹ کی طرف سے حق خوداردیت کے مطالبہ کے جواب میں نا قابل بیان مظا لم کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور بھارت یہاںکے لوگوں کو دبانے کے لئے کسی بھی ا خلاقی بندش اور انسانی حق کا پاس ولحاظ نہیں کر رہا ۔ پچھلے ستر سالوں میں با لعموم اور گزشتہ تیس سال سے با لخصوص کشمیری عوام جس دردوکرب سے گزر رہے ہیں اس کی موجودگی میں یہاں انسانی حقوق نا م کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔ مذکورہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی پاما لیوں اور ریاستی جارحیت کی رُوداد صراحت کی ساتھ درج ہے۔ یہ رپورٹ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی زبوں حا لی کا زمینی سطح پر حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے بعد تیار کی گئی ۔ واضح رہے عالمی ادارے نے کئی بار بھارت اور پاکستان کو جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کے حالات کا عینی مشاہدہ کر نے کے لئے کشمیر آنے کی اجازت طلب کی لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے اس درخواست کو ہمیشہ سختی کے ساتھ مسترد کریا ، جب کہ پاکستان کو یہ اجازت دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا ۔ زیر بحث رپورٹ کی نما یاں بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کوجموں و کشمیرکے عوام کو بین الا قوامی قانون کے مطابق حق خودارادیت کے استعمال کاموقع فراہم کر نے کی قطعی سفارش کی گئی ہے۔ ا س سے پہلے بھی انڈین سو ل سوسائٹی اور حقوق انسانی کی کئی معتبر تنظیموں کی طرف سے بار ہاجمو ں وکشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر رپورٹیں شائع ہوئیں مگر دلی نے ہمیشہ انہیں نظر اندازکیا ۔ اس لئے یواین کی کشمیر رپورٹ کو ہند کی وزارت خارجہ نے یکسر مستر د کر دیا جب کہ آرمی چیف جنرل بپن راوت نے فوج کو ہیومن رائٹس کا پاسدار جتلانے میں اپنی تمام قوت گویائی صرف کر کے یہ تاثر دیا کہ وردی پوش کشمیر میں عام آدمی کے لئے محافظ وہمدرد ہیں ۔
اصولی طور پر انسانی اقدار پر یقین رکھنے والا ہر ذی حس، مہذب اور باشعور فرد ، قوم یا ملک کے لئے یقینی طو ر دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی فرد بشر ، قوم یا ملک پر ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قابل قبول نہیں ہوسکتیںلیکن جموں و کشمیر میں ہند نواز سیاسی پارٹیوں کا اس پر چپ سادھ لینا ان کے دوہرے معیار کا آئینہ دار ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اقتدارنواز سیاسی پارٹیاں یہاں پر ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شراکت دار ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ رشوت ِ اقتدارکے عوض یہ شاہ سے بڑھ کر وفادار بننے سے بھی کوئی اعراض نہیں کر تیں اور فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواز پیش کرنے میں کوئی کسر با قی نہیں چھوڑتیں۔ ا، انسانی حقوق کی پاما لیوں پر ضمیر کی آواز بلند کر نا تو دورہا، ان کے پاس اتنی سی اخلاقی جرأت باقی نہیں ہوتی کہ اپنے حامیوںکی حق تلفی پر کوئی معمولی لب کشائی کرسکیں ۔ خیر عالمی ادارے کی مذکورہ رپورٹ پر یہاں کے مزاحمتی حلقوں نے بہت سراہنا کی اور متاثرہ عوام اسے بد یر ہیس ہی مگر یواین کی مرہم کاری قرار دے ر ہے ہیں۔
اپنی نوعیت کی یہ پہلی عالمی رپورٹ 49صفحات پر مشتمل ہے جس میں فورسز اور ہتھیار بند گروہوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اجمالی خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ایسی کو ئی نئی بات سامنے نہیں لائی گئی جس سے یہاں کے عوام ، حکومت ، سرکاری ادارے اور فورسز اور ایجنسیاں با خبر نہ ہوں۔ البتہ مذکورہ رپورٹ سے کشمیر میں بڑے پیما نے پر جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرنے والے حقوق انسانی کی تنظیموں،سو ل سوسائٹی علی الخصوص یہاں کے مظلوم عوام کی ان شکایات کی تائید و توثیق ہو جاتی ہے کہ جموں کشمیر میںقانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں، یہاں افسپا کے زیرسایہ جنگل راج قائم ہے۔ اس اندھیر نگری کا ایک روپ یہ ہے کہ سرکاری فورسز مختلف النوع نوعیت کی ناقابل گمان اور شرمناک بشری حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ،نہتے لو گوں پر طاقت کا بے تحاشا استعمال، گرفتاریاں ، توڑ پھوڑ ، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل وخون، حراستی قتل، ٹارچر، پیلٹ گنوں کا استعمال ، کمسن بچوں اور بزرگوں کی بے تحاشہ گرفتاریاں، تعذ یبی کارروائیاں، جنسی زیادتیاں، بے نام قبریں، اجتماعی عصمت دریاں ، آزادی اظہار رائے پر قدغنیں، حقوق انسانی کی تنظیموں اور میڈیا پر بندشیں، مذہبی و دینی فرائض کی ادائیگی پر پابندیاں، پی ایس اے اور افسپا جیسے کالے قوانین کا اندھا دھند نفاذ، تعزیہ پرسیوں پر پا بندیاں،پُرامن عوامی احتجاجوں کی ممانعت ، آگ زنیاں ، جبر و زیادتیوں میں ملوث فورسز اہلکاروں کی قانونی پشت پنا ہی ، انصاف کی فراہمی سے کوار انکار وغیرہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ مزید برآں اس ظلم وزیادتی کے خاتمے کے لئے سیاسی پہل کاری کی سفارش ان الفاظ میں کی گئی ہے : "The political dimension of the dispute between India and Pakistan have long been cenetr stage but this is not a conflict frozen in time. It is a conflict that has robbed millions of their basic human rights and continues to this day to inflict untold suffering."(یعنی ایک طویل عرصہ سے بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر ایک اہم اور مرکزی سیاسی تنازعہ بنا ہواہے لیکن یہ ایسا تنازعہ نہیں ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ غیر متعلق ہوا ہو۔ یہ اس نوعیت کا تنازعہ ہے جو مسلسل جموں کشمیر کے لوگوں کے بنیادی حقوق سے محروم ہونے کا باعث بنا ہواہے۔ جموں و کشمیر کے عوام اپنے مطا لبہ حق خو دارادیت سے دستبرادر نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی اس قوم نے بھارتی فوجی و سیاسی طاقت کے سامنے سرینڈر کیا ہے۔ بالفاظ دیگر کئی دہائیاںگزر جانے کے باوجود اس مسئلہ کی نوعیت اور ہیئت کسی بھی طورمتاثر نہیں ہوسکی ہے اور کشمیری ی عوام مسلسل اس حل طلب مسئلہ کی تصفیہ کے لئے محو جدو جہد ہیں ۔ فی الاصل یہ تنازعہ گزرتے وقت کے ساتھ شدت اختیار کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں خطہ ٔ مخاصمت خطہ جموں وکشمیر کے عوام کی زندگی مصیبت زدہ بن چکی ہے)۔
دوسرے لفظوں میںخطہ کے عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرنے کو درد کا درماں بتایا گیا ہے ، باوجودیکہ بھارت اپنے فوجی قوت اور سیاسی داؤ پیچ سے جموں وکشمیر کے عوام کی جینون سیاسی اُمنگوں کو دبوچنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مذکورہ رپورٹ کی ابتداء میں کشمیر تنا زعہ کا تاریخی منظر پیش کیا گیا ہے اور ان حا لات کو بیان کیا گیا ہے جن کے بیچ اس مسئلہ نے جنم لیااور پھر اسے اقوام متحدہ میں لئے جانے کاتاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں 13؍ ذ یلی عناوینجیسے فراہمی انصاف کی عدم اجازت اور فورسز کا سزا سے حاصل استثناء، فوجی عدالتوں اور ٹرائبیونل کا انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہونا، انتظامی گرفتاریاں، طاقت کا بے تحاشا استعمال، 2018میں قتل عام کا ارتکاب، پیلٹ گنوں کا استعمال، غیر قانونی اور بے قاعدہ گرفتاریاں اور کم سن بچوں کی حراستیں، جسمانی تشدد،جبری گمشدگیاں ، صحت عامہ کی خلاف ورزیاں، آزادیٔ اظہار رائے اور مذہبی رسوم پر قدغنیں، حقوق انسانی کا رکنوں اور میڈیا ورکروں پر رکاوٹیں، حصول تعلیم کی خلاف ورزیاں ، جنسی زیادتیاں اور عسکری گروہوں کی زیادتیوں پر تکنیکی انداز سے حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ با لخصوص2016ء میں حزب کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہو نے کے بعد برپا عوامی احتجاج کے دوران ہلاکتوں ، شہری آبادیوں پر کرفیو اور بندشوں اور پُر امن عوامی اجتماعوں پر راست پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال سے بر پا قہر سامانی کو با ضابطہ طور حوالہ جات و سرکاری اعدادو شمار کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ کنن پوشہ پورہ اجتماعی عصمت دری واقع میںمتاثرین کو انصاف فراہم کر نے میں حکومت اور قانونی اداروں کی عد م توجہی کی رُوداد بھی سامنے لائی گئی اور فورسز کو حاصل بے لگام اختیارات اور قانونی پشت پناہی کی ڈھال کی صورت میں استثنیٰ دیا جا رہا ہے، اس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔ اس د ستاویز میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے کا لے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق کی بے تحاشا خلاف ورزیوں اور انتظامی اور حکومتی سطح پر بے رحم اور ظالمانہ طرز عمل اور برتاؤ کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ا یک اور باب میں’’آزادکشمیر‘‘ کے حوالے سے انسانی حقوق اور دیگر آئینی ، قانونی اور مالی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر بھی چھیڑا گیا ہے ۔CPECکی تعمیر کے نتیجے میں متاثرہ علاقہ کی آبادی کے وسائل اور مواقع روزگار اثرانداز ہونے کا مسئلہ بھی اُٹھایا گیا ہے اور متاثرین کی با زآبادکاری کی مانگ کی گئی ہے۔ لو گوں کے آزادی اظہار رائے پر پابندیوں پر پاکستان کو بھی صفائی کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے ۔
رپورٹ کے آخر پر سفارشات کے باب میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے بھارت اور پاکستان دونوں کو اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کے سلسلہ میں ایک بین الاقوامی انکوائری کمیشن کے قیام میں تعاون دیں اور اس کمیشن کو اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی اجازت دیں۔ رپورٹ میں بھارت سے تاکید کی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں بین الاقوامی انسانی حقوق قانون کی اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے۔ پی ایس اے اور افسپا جیسے کالے اور خوف ناک قوانین کو فوراً سے پیشتر کالعدم کرکے انسانی حقوق کی خلاف وزیوں میں ملوث فورسز اہلکاروں کو سو ل عدالتوں میں کیس درج کرکے انصاف کی فراہمی کی راہ کو ہموار کرے۔نیز شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کر کے اصل حقائق کو سامنے لائیں ۔ جیلوں میں بند پڑے قیدیوں اور انتظامی حراست میں لئے گئے لو گوں کے کیسوں کوعدالت میں لے کر ان کی شنوائی ی جائے تاکہ فرضی اور بے بنیاد الزاموں کی پاداش میں گرفتار لوگوں کو انصاف فراہم ہو ۔ اسی طرح پاکستان سے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فی الفور روک لگائے ، لوگوں کے آئینی اور قانونی حقوق بحال کرے ، کنٹرول لائن پر جاری گو لہ باری اور فائرنگ کو فوراًبند کیا جائے تاکہ انسانی جا ن و مال کے زیاں کو روکا جاسکے۔ رپورٹ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو حل کر نے کے لئے دونوں ممالک مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔ خاص کرواشگاف الفاظ میں اس بات کو اجاگر گیا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل ہو نے تک انسانی حقوق کے احترام کو معطل نہیں رکھا جا سکتا ہے، اس لئے خطے میں انسانی حقوق کی بحالی میں کوئی بہانہ اور عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جاری رپورٹ کو کشمیرکے لوگوں کے لئے حو صلہ افزاء اور خوش آئند قرار دیا جاسکتاہے بشرطیکہ دلی اس میں درج سفارشات اور تقاضوں کو ٹھنڈدلی سے تسلیم کرے اور مسئلہ کشمیر کو ایک پُر امن، انصاف پسندانہ اور جمہوری حل کے ساتھ نتھی کر نے کی نیت کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کی میز سجائے۔ بہر طورزیر نظر رپورٹ کا اجراء یہاں کے لوگوں کی فریق مخالف پر اخلاقی برتری اور اپنی اصولی جد وجہد کی تائیدو تصدیق پر عالمی رائے عامہ کی مہر ثبت کر تی ہے ۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی عدل و انصاف کے اداروں سے اس بات کی امید کی جانی چاہیے کہ یہ جموں و کشمیر کے عوام کی حالت زار اور درپیش مصائب و مشکلات کا نو ٹس لے کر کشمیر حل میں اپنا کردار نبھائیں گے۔ اقوام متحدہ کے متنازعہ مسائل کی فہرست میں تنازعہ کشمیر آج بھی من وعن مو جود ہے ، اگر چہ بھارت کی طرف سے اس مسلمہ تنازعے کو بین الاقوامی تنازعات کی فہرست سے ہٹانے کی کئی بارنا کام کوششیں بھی کی جاچکی ہیں ۔ عالمی ادارے کی یہ منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس انسانی مسئلہ کو ترجیحی طور کشمیری لوگوں کی خواہشات کے مطا بق حل کر نے میں اپنا اثر رسوخ استعمال میں لائے تاکہ جموں وکشمیر کے عوام کو بھی راحت و سکون کی زندگی گزارنے کا حق حا صل ہو جائے اور آئندہ ایسی کوئی رپورٹ قلم بند ہونے کی نوبت ہی نہ آئے جس پر بہشت میں جہنم کی اصطلاح صادق آئے۔