کشمیر ۔۔۔کربناک صورت حال کے بھنور میں

Kashmir Uzma News Desk
15 Min Read
جل رہا ہے آگ میں جنگل کوئی
دیکھتا ہے  دور سے  بادل کوئی
جنت ارضی کہلانے والا ملک ِ کشمیر ایک طویل عرصے سے انگاروں پر لوٹ رہا ہے ،یہاں کے لوگ آہ و بکا کئے جارہے ہیں اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے بعض باضمیر اور حق گو اشخاص بھی وقتاً فوقتاً اس کرب زا صورت حال پر متفکر ہوکر افسوس کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر مجموعی طور پر ساری دنیا گوںنگوں اور بہروں کی طرح بڑی خموشی سے اس خاک و خون کا نظارہ کئے جارہے ہیں ۔البرٹ آئینسٹائن نے شاید ایسے ہی خفتہ ضمیروں اورمصلحت پسندوں کے وطیرہ پر کہا تھا کہ :’’یہ دنیا لوگوں کی وجہ سے پُر خطر نہیں ہے جو گناہوں اور جرائم کے مرتکب ہیں بلکہ اُن دوسروں کی بے عملی کی وجہ سے ہے جو یہ سب دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرتے۔‘‘
معین احسن جذبیؔ ایسے خود غرض لوگوں اور قوموں کے لئے بجا طور پر کچھ اس طرح کی منظوم دعا کرتے ہیں    ؎
اے  موج ِ بلا  اُن کو بھی ذر ا  دوچار تھپیڑے ہلکے سے 
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفان کا نظارہ کرتے ہیں
عملی طور پر اگر کشمیر کی انتہائی خراب صورت حال کو بدلنے کے لئے اقوام عالم خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتی ہیں تو پھر قدرت ہی مجبوراً مداخلت کرکے پُر خلوص دعائوں کی اجابت کرکے حالات سدھار سکتی ہے کیونکہ بقولِ شاعر    ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے 
ظلم کی بات ہی کیا  ظلم کی اوقات ہی کیا 
ظلم بس ظلم ہے آغاز  سے  انجام تلک
ظلم پھرظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
ایسا ہونا بہر صورت قانون قدرت ہے اور خدا پرستوں کی دانست و مشاہدے میں ہی نہیں، ملحدوں کو بھی اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے ۔میرے استاد ِ محترم پروفیسر وحید اختر نے اس حوالے سے یہ خوبصورت شعر کہا ہے   ؎
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں 
نم  ہوئی ہے  تو اُسی خاک  سے  لشکر نکلا 
آج کل ہم عملاً وادیٔ کشمیر کے اطراف و اکناف میں وہی خون آلود مٹی سے ابھرنے والے لشکر ہی تو دیکھ رہے ہیں۔اگر گذشتہ برسوں میں کشمیر ی قوم کی طرف کماحقہ توجہ دی گئی ہوتی اور اگر انسانیت کا احترام کرتے ہوئے مسائل اور مطالبات کو پورا کیا گیا ہوتا تو آج یہ خون کے آنسو رُلانے والی صورت حال دیکھنے کو نہ ملتی ۔ بہر حال تب نہیں تو اب سہی اگر متعلقین و ذمہ دارانِ معاملات یعنی ہندوستان اور پاکستان اپنی غلط کاریوں کا محاسبہ کرلیں اور کشمیری قوم کو بھی عزت اور آزادی کے ساتھ زندہ رہنے میں تعاون کریں تو دونوں واقعی احترام کے لائق سمجھے جاسکتے ہیں ورنہ اُن کے جمہوریت کی علمبرداری ،اخلاقیات کی پاسداری وغیرہ کے دعوے محض کھوکھلے نعرے ہی تو کہلایں گے ۔ہم لوگ بہ حیثیت ِ کشمیری مستقبل کو لے کر متفکر تو ضرور ہیں مگر نااُمید اور مایوس بھی نہیں کیونکہ بقول فیض احمد فیض    ؎
ہے  اپنی کشت ِویراںسر سبز  اس یقین سے 
آئیں گے اس طرف بھی اک روزابروباراں
اور انگریزی کے شاعر پی بی شیلی کے لفظوں میں ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’اگر زمستان آرہا ہے تو کیا ہے اس کے بعد تو موسم ِ بہار بھی آہی جائے گا ۔‘‘
کشمیری قوم جو 1947سے ہی نہیں بلکہ کئی صدیوں سے بدحالی ،افراتفری اور ظلم و استبداد کی شکار رہی ہے، کسی اپنی خطا کاری یا رضا و رغبت کی وجہ سے اس صورت حال سے دوچار نہیں ہے بلکہ اپنی شرافت،سادگی اور سچائی کے باعث اس کرب و بلا میں مبتلا ہے ۔جغرافیائی حالات کے ساتھ ساتھ پُر سکون فضائوں اور تہذیبی ورثے کے باعث یہ قوم بے حد صلح پسند ،پُر امن اور روحانی طرز حیات کی دلدادہ رہی ہے لیکن شرافت اور سادگی جب حد سے زیادہ بڑھ جائے تو وہ بُزدلی بھی کہلاتی ہے اور مصیبت کا باعث بھی۔بس یہی کچھ کشمیر اور کشمیریوں کی ابتلا ء و آزمائشوں کا سبب بھی رہا ہے ۔
ملک ِکشمیر جو 1586تک ایک خود مختار ،منفرد اور مخصوص طرزِ زندگی ،تہذیب و ثقافت اور لسانی و مذہبی روا داری کے لئے مشہور مملکت کی حیثیت سے مشہور تھا اور ذہین و با سلیقہ ہنر ندوں اور کاری گروں کی وجہ سے ایران ِ صغیر بھی کہلاتا تھا، محض عسکریت کی طرف فطری طور پر مائل نہ ہونے کی وجہ سے مغلیہ شہنشاہ اکبر کی حریص نظروں میں آگیا ،اُس نے شاطرانہ طریقے سے کشمیر کے حکمران یوسف شاہ چک کو معزول اور گرفتار بلکہ جلائے وطن بھی کردیا ۔مغلوں کے بعد افغانوں اور سکھوں کی طویل حکمرانی کے دوران کشمیری قوم کو محکومیت کی ذلت برداشت کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔جو بھی کوئی آواز اٹھاتا اُسے قتل کردیا جاتا ،قید خانوں میں ڈالا جاتا یا پھر جلاوطن کردیا جاتا ۔سلیقہ مند کاریگروں کی بنائی اشیاء خاص طور سے شال دوشالے ، قالین وغیرہ قلیل قیمتوں پر لے لئے جاتے ،کاشت کاروں سے جانوروں کی طرح زمینوں میں محنت کروائی جاتی اور گھر والوں کی کفالت کے لئے معقول معاوضہ یا فصلوں کا حصہ تک نہیں دیا جاتا تھا ۔اُن ادوار میں بھی لوگ ان ظالمانہ طور طریقوں کے خلاف نفرت کا جذبہ رکھتے تھے اور حتی المقدور ذرائع سے اپنے احساسات کا اظہار بھی کرتے تھے مثلاً لڈی شاہ،داستان گوئی اور سنجیدہ شعر گوئی کی صورت میں بھی یا فوک تھیٹر بانڈ پاتھر کی مدرسے ،ہمارے قابل فخر شاعر ملا طاہر غنی کاشمیری نے شالبافوں سے بزور بازوں محنت چھیننے کے تعلق سے اس طرح کے دل چیر اشعار کہے ہیں    ؎
ہم چُو سوزن دائم از پوشش گریز اینم 
جامہ بہر خلق  می دوزیم  و  عُریا نیم 
(ہم ایک سوئی کی طرح کپڑوں میں سے گزرتے رہتے ہیں یعنی لوگوں کے لئے اچھے اچھے ملبوسات تیار کرتے رہتے ہیںلیکن خود سوئی کی طرح ہی آخر میں برہنہ رہ جاتے ہیں)
بہر حال ظلم و استحصال تو تب بھی ہوتا رہا تھا لیکن پھر 1846میں جموں کے راجا گلاب سنگھ نے کمال کے شاطرانہ طریقے سے کشمیر کو قبضے میں لے لیا ۔لاہور دربار یعنی سکھ حکمرانوں کو انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف جنگی تاوان دینا طے ہوا تھا اور اسی تاوان کی صورت میں کشمیر دیا گیا اور انگریزوں نے جنس کی جگہ نقدی حاصل کرنے کے لئے کشمیر کو ہاتھوں ہا تھ گلاب سنگھ کو بیج دیا ۔دنیا کی تاریخ میںاس معاملے سے متعلق ’’بیع نامہ امرتسر ‘‘بدترین اور قابل مذمت دستاویز کہلایا جاتا ہے ۔اس واقعے کے بعد تو ڈوگرہ حکمرانوں نے شائستگی اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیریوں کو جانوروں کی طرح استعمال کیا ۔یہ تاریک ترین دور تھا جو 1947تک قائم رہا ۔
1947تک کا زمانہ تو بہر حال کشمیر میں ہی نہیں برصغیر ہندوپاک اور دیگر متعدد ایشائی ممالک وغیرہ میں بھی سامراجیت اور نو آبادیاتی نظام کی چکیوں میں پِسنے کا زمانہ تھا مگر ہماری قسمت دیکھئے کہ فرنگی سامراجیت کے خاتمے پر بھی جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوگئے ،جس کے نتیجے میں ملک ِکشمیر یا ایرانِ صغیر کے مقابلے میںبے حد پسماندہ راستوں نے بھی ترقی اور خوشحالی کی ڈگر پر چلنا شروع کیا تو جنت بے نظیر وادی ٔ کشمیر پھر سے ایک نئے تنازعے سے دوچار ہوگئی ۔سینکڑوں آزاد ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر کی شاہی ریاست کو بھی اصولاً یہ حق حاصل تھا کہ یہ اپنی مرضی سے حسبِ سابقہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق نہ کرکے آزاد مملکت کی صورت میں رہے اور اگر عوام کی مرضی سے ان دو بڑے نو زائد ہ جمہوری ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا چاہے تو کرجائے ۔ ریاست کے اُس وقت کے حکمران ہری سنگھ کی خواہش تھی وہ بدستور جموں و کشمیر کا مہاراجہ بنا رہے لیکن جمہوریت کی لہر اور مہاراجہ کے خلاف جاری عوامی احتجاج کے باعث ایسا مناسب اور ممکن نہ تھا ،اسی وجہ سے ہری سنگھ نے عوامی مطالبات کے برعکس آمرانہ طور پر ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا پسند کیا ۔اُن کے وزیر اعظم پنڈت رام چند کاک سمیت کشمیر کے لوگ اس آمرانہ اور عاجلانہ فیصلہ کے خلاف تھے ۔ہری سنگھ اور اُن کی مہارانی جی نے کشمیر کی وادی کو چھوڑ کر جموں کے خطے پر قابض رہنے کے منصوبے پر بھی سوچا اور اسی منصوبے کے تحت بیرونِ ریاست کے متعصب ہندو گروہوں سے مدد طلب کرکے مسلم کُشی کی قابل مذمت کوششیں کی گئیں۔بہرحال ریاست  میں اس وقت کے عوامی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے مہاراجہ سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر ایک نیم آزاد مملکت کا منصوبہ بنادیا۔ہندوستان کے قد آور قائدین پنڈت نہرو اور سردار ولبھ پٹیل وغیرہ تو ویسے بھی جائز و ناجائز کسی بھی طریقے سے ریاست کو ہندوستان میں ضم کرنے کے خواہاں تھے جب کہ پاکستان کے قائد محمد علی جناح مسلم آبادی کی اکثریت کو بنیاد بناکر ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے ۔شیخ عبداللہ چکی کے دو پاٹوں میں پھنس کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ انتظامی امور کی خود مختاری کو اپنے پاس رکھتے ہوئے دفاع ،خارجی امور اور مواصلات کے تین شعبوں میں ہندوستان اور پاکستان کی حاکمیت قبول کی جائے۔پنڈت نہرو اور گورنر جنرل مونٹ بیٹن کی ملی بھگت نے اس قابل قبول تصفیہ کو رفتہ رفتہ بدل دیا اور پوری کی پوری ریاست کو بھارت ماتا کی جھولی میں ڈالنے کے اقدامات اٹھانا شروع کئے جو کشمیری عوام کو دھوکہ دہی کی وجہ سے تسلیم نہ تھا اور پاکستان بھی اسی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ گذشتہ ستر برسوں سے برسر پیکار ہے ۔کشمیری عوام بلا کسی اشتعال اور اقدام کے عتاب کا شکار ہوتے رہے ہیں ،دو طاقتور ہمسایوں کی آپسی رقابت اور مخاصمت کے کرب ناک اثرات ہم کشمیریوں کو بلا وجہ بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔صدیوں کی کمر توڑ محکومیت کے بعد طلوع ِآزادی اور امن و امان کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی توقع تھی وہ پھر خواب ہوکر رہ گئے ۔بقول ِ شاہد صدیقی   ؎
رات کے گذرتے ہی اور ایک رات آئی 
ہم  یہ سمجھے تھے کہ دن  نکلنے والا ہے 
اب1947کے بعد کشمیر کے لوگ اپنی صدیوں کی محکومیت اور ہندوستان و پاکستان کی باہمی رسہ کشی سے اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ روایتی صلح پسندی ،صوفیانہ طرز حیات اور شرافت و رواداری کی خُو کو بھی بدلنا جائز ٹھہراتے ہیں ۔اس قوم کی زبوں حالی کو دیکھ کر کبھی منشی محمد دین فوق نے ایک نظم میں لکھا تھا    ؎
چین لینے ہی نہیں دیتی کبھی کشمیر میں
قہر آلودہ  نگاہِ  پاسبان ِ کاشمیر 
ظلم تو آئین ہے اور لب کُشائی جرم ہے 
بہر خاموشی بنی گویا زبان ِکاشمیر 
ہے ازل سے ہی یہاں ترکِ تشدد پر عمل 
کب اٹھیں گے  یا الٰہی  خفتہ گاںِ کاشمیر 
موصوف نے گویا کشمیریوں کو حد سے متجاوز شرافت ،ترکِ تشدد اور بے زبانی وغیرہ کی وجہ سے ’’خفتہ گانِ کاشمیر ‘‘کا طعنہ بھی دے دیا تھا ۔اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ہم اُن سے کہہ پاتے کہ لو یہ ’’قوم نجیب اور یہ خفتہ گانِ کاشمیر ‘‘ بھی آخرش ’’ظلم و استبداد زمینی ‘‘ سہتے سہتے نہ صرف لب کشائی کرنے لگے ہیں بلکہ اب کسی موسم میں بھارت کی مسلح افواج کے سامنے کشمیری نوجوان اسلحہ لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی زن و مرد اور پیرو جوان بلکہ معصوم بچے اور بچیاں بھی سکولوں کی وردیاں پہنے ہوئے اور پیٹھ پر کتابوں کے بستے لئے ہوئے وردی پوش کارندوں پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں ،البتہ دل ہی دل میں ہر باضمیر کشمیری رب کریم سے یہ دعا بھی ضرور مانگا کرتا ہے    ؎
طویل ہو زندگی ہماری کہ مختصر ہو 
عرض تو یہ ہے کہ جس قدر بھی ہو معتبر ہو 
رابطہ9419027593
 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *