گردشِ دوراں
معراج زرگر
کشمیر کی وادیوں میں پیدا ہونے والا سیب صرف ایک ذائقے یا فلمی گانوں کے لئے ریفرینس کا نام نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں پیداوار بھرپور ہونے کے باوجود کسانوں کی حالت زار باعثِ تشویش ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی، موسمی بے اعتدالی، بیوپاریوں کی اجارہ داری اور قدرتی آفات نے فصل کی قیمت اور دستیابی کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہاں کے میوہ جات خصوصاً سیب دنیا بھر میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ کشمیر میں بیس سے بائیس میٹرک ٹن سیب کی سالانہ پیداوار ہوتی ہےجو اندازاً پورے ملک کا ستر فیصد بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار بظاہر خوش آئند ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پیداوار کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے یا کسانوں کو اس کی مناسب قیمت نہیں مل پاتی۔ نتیجہ یہ کہ وہ محنت کش زمیندار اور باغ مالکان، جو سارا سال جانفشانی سے یہ نعمت پیدا کرتے ہیں، مالی بحران اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔
ہر سال وادی میں لاکھوں میٹرک ٹن سیب پیدا ہوتے ہیں مگر ان میں سے ایک خاطر خواہ حصہ دوسرے درجے اور تیسرے درجے کا رہ جاتا ہے یا راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ سڑکیں خراب ہوں تو پھل وقت پر منڈی تک نہیں پہنچتا، بیوپاریوں کی مارکیٹنگ اور کنٹرولنگ سے کاشتکار کم دام پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور موسمی جھٹکے سالانہ پیداوارکا ایک اچھا خاصا حصہ چٹ کرجاتے ہیں۔ نتیجے کے طور کسان کو اس مزدورانہ محنت کا مناسب معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
سیب کی صنعت کو درپیش مسائل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ وادی کی خستہ حال سڑکیں اور ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ہے۔ اکثر سیب وقت پر منڈی تک نہیں پہنچ پاتے، نتیجتاً ان کی معیاریت متاثر ہو جاتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ بیوپاریوں اور درمیانہ داروں کی اجارہ داری ہے، جو کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان سے سستے داموں سیب خریدتے ہیں اور بڑے شہروں میں کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچتے ہیں۔ مزید یہ کہ موسمی بے اعتدالیوں نے بھی زمینداروں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ بارشیں، ژالہ باری اور کبھی کبھی خشک سالی نے لاکھوں ٹن پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ اس کے باوجود کسان کے پاس کوئی مؤثر متبادل یا تحفظ کا ذریعہ موجود نہیں ہے۔
یورپی ملکوں میں ایپل ویلیو چین پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ جیسے جدت، گریڈنگ، پیک ہاؤسز اور برآمدات کے لیے مربوط کوالٹی کنٹرول شامل ہیں۔ یورپ کے بڑے سیب پیدا کرنے والے ملکی سطح پرایک شاندار معیار قائم کر کے بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت برقرار رکھتے ہیں۔ اس طرح یورپ ہمیں یہ ماڈل دکھاتا ہے کہ معیاری پیداوار ، مضبوط پیکنگ و برانڈنگ سے قیمتیں کس قدر بہتر بن سکتی ہیں۔
اسی طرح امریکہ، خاص کر واشنگٹن میں کولڈ چین، بڑے ا سٹوریج، پیکنگ ہاؤسز اور موثر لاجسٹک کنکشن نے فصل کو سال بھر مارکیٹ میں فراہم کرنے کے قابل بنایا ہے۔ وہاں کوآپریٹو اور پرائیویٹ سیکٹر کے بڑے سٹوریج کمپلیکس فصل کو محفوظ رکھتے ہیں اور برآمد کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ایران بھی بڑے پیمانے پر سیب پیدا کرتا ہے اور کانسنٹریٹ/ایکسپورٹ میں فعال ہے۔ وہاں صنعتی پروسیسنگ اور ایکسپورٹ کانسنٹریٹ مارکیٹ کا مضبوط نیٹ ورک ہے، جس سے ریجنل برآمدات کو فروغ ملا ہے۔ ایران کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب پروسیسنگ انڈسٹری مضبوط ہو تو خام مارکیٹ دباؤ کم ہوتا ہے۔
ہماری اپنی پڑوسی ریاست ہماچل پردیش میں سیب انڈسٹری نے حالیہ برسوں میں کولڈ چین، پیک ہاؤس ریاست میں ایکٹیو پروکیورمنٹ اور پروسیسنگ پلانٹس کے وسیع نیٹ ورک فعال کیے ہیں، جس سے قیمتیں مستحکم رکھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے ایم ایس پی لاگو کرکے سیب پیدا کرنے والے کسانوں کے لئے ایک راحت کا سامان بھی کیا ہے۔
چونکہ کشمیر میں اس سال سیبوں کا موسم آتے ہی خراب موسمی حالات کی وجہ سے سیب انڈسٹری ایک بہت بڑے نقصان کی زد میں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مستقبل کے لئے کسان اور حکومت ایک سنجیدہ لائحہ عمل ترتیب دیں۔ سب سے موثر اقدام ہر تحصیل یا بلاک سطح پر کولڈ اسٹوریج مرکز کا قیام ہے، تاکہ کسان اپنے پھل کو موسمی دباؤ سے بچا کر مناسب منڈیابی کے لیے رکھ سکیں اور مناسب وقت پر اچھی ریٹ میں اپنی فصل کو بیچ سکیں۔ نجی سطح پر چھوٹا کولڈ اسٹوریج (تقریباً 500 میٹرک ٹن) عام طور پر چند کروڑ روپے میں لگایا جا سکتا ہے۔ بڑے مراکز کی لاگت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے سنٹرز کسانوں کو فوری بیچنے کے دباؤ سے نکال دیں گے اور بیچنے کے لیے بہتر وقت دستیاب ہوگا۔ اس میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری اور حکومتی سبسڈی کے ذریعے سے کولڈ اسٹوریج مراکز قائم کئے جاسکتے ہیں۔
دوسرا اہم اقدام بی گریڈ اور سی گریڈ سیب کو جوس، کانسنٹریٹ، جام، سرکہ اور دیگرمصنوعات بناکر منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ ہر ضلع میں یا سب ضلع یا سب ڈویژن میں بیس سے پچاس ٹن یومیہ کے درمیانے یونٹس اور چند بڑے پلانٹس اگر قائم ہوں تو لاکھوں ٹن گرا ہوا سیب، دوسرے اور تیسرے درجے کا سیب ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ اگر حکومت اس شعبے میں سبسڈی یا نرم قرض فراہم کرے تو یہ یونٹس نہ صرف کسانوں کو براہِ راست فائدہ دیں گے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کریں گے۔
کسانوں کے مفاد کے لیے ایک بہتر راستہ یہ بھی ہے کہ ہارٹیکلچرپلاننگ اور مارکیٹنگ محکمے کو مضبوط کر کے ریاست براہِ راست سیب کی ایک معقول مقدارباغ مالکان سے خریدے۔ اس سے کسان کو طئے شدہ محفوظ ریٹ ملے گا اور درمیانہ داروں کی اجارہ داری محدود ہوگی۔ اسی طرح سیب کی فصل کا انشورنس لازمی قرار دیا جائے تا کہ کسی بھی ناگہانی آفت میں کسان کو معاوضہ مل سکے۔ قیمتوں کا شفاف تعین اور خریداری کا آزاد میکانزم کسانوں کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔
اسی طرح موسمی آفات نے کسان کو بار بار نقصان پہنچایا ہے۔ ایک ژالہ باری یا شدید بارش کئی ماہ کی محنت ضائع کر دیتی ہے۔ ایسے میں کسان کے پاس کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ سیب کی فصل کو بھی دیگر فصلوں کی طرح انشورنس اسکیموں کے دائرے میں لایا جائے۔ اگر ایسا ہو تو کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں کسان کو مناسب معاوضہ مل سکتا ہے اور اس کی ہمت ٹوٹنے سے بچ سکتی ہے۔
کشمیر کے باغات کی حفاظت صرف زرعی پالیسی کا معاملہ نہیں۔ یہ معاشی انصاف، سماجی استحکام اور علاقے کی ثقافتی بقاء کا مسئلہ ہے۔ یورپ، امریکہ، ایران اور دیگر کامیاب ممالک کی کامیابیوں سے سبق لے کر اگر ہم فوری اور مربوط اقدامات کریں تو کشمیری سیب دوبارہ پوری قوت کے ساتھ ملکی اورعالمی منڈی میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ یہاں کے ذمہ دار سیاسی اور حکومتی افراد کو بھی چاہیے کہ جب کسان بے بسی کی کیفیت میں ہوں تو سیاسی جماعتوں کو موقع پرجا کر اخلاقی اور عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ بیانات سے زیادہ عملی پالیسی اور زمینی اقدامات قابلِ قدر ہیں۔ پوائنٹ اسکورنگ سے بہتر ہے کہ متحد ہوکر ایک شاندار پالیسی کی تشکیل دے کر کسانوں کو بروقت امداد، انشورنس کلیم کی آسانی اور سبسڈی اور قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ تاکہ کولڈ اسٹوریج مراکز، جوس اور دیگر مصنوعات بنانے کی انڈسٹری، بہتر سڑک اور ریل رابطہ قائم کیا جاکر ریاست کی معیشت کو بہتر بنایا جاسکے۔
[email protected]