نومبر کے آخری عشرے میں ریاست میں ایک انوکھا سیاسی ڈرامہ کھیلا گیا۔ ایک جانب حکومت سازی کے دو متوازی دعویدار سامنے آئے ،دوسری جانب اسمبلی بہ عجلت تحلیل کی گئی۔ ظاہر ہے یہ ڈرامائی مناطر دیکھ کر لوگ بھونچکا رہ گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کے سیاسی منظر نامے پر الل ٹپ حیرت انگیز تبدیلیوں کا وقوع پذیر ہو نا نہ اچھنبے کی بات ہے نہ کوئی نئی بات۔ یہاں سیاست کے بنتے بگڑتے چہرے اور سیاست کاروں کے عروج وزوال کا سماں چشم ِفلک ایک زمانے سے یا س و حسرت سے دیکھتی آرہی ہے۔یہ نرالی کہانی کب کیا کروٹ لے، ا ُس بارے میں پیش بینی کر نا اَدلتے بدلتے موسمی حالات کی مانند بہت مشکل ہوتا ہے۔ خود سیاسی پنڈت بھی نہیں جانتے سیاست کے اُفق پر کب کیا چھا جائے،کب کس کے ستارے بلند ہوں ، کب کس کے نصیبے ڈوب جائیں ۔ ان حوالوں سے ماہرین کی رائے زنیاں اور تجزیے زیادہ ترظن و تخمین سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ بالفاظ دیگر یہ طرز سیاست اپنی حد سے نہ آگے بڑھ سکتی اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتی ہے۔اس کی کھینچا تانی تو خوب کی بھی جا ئے لیکن ا س کا محور بدل جائے، اس کا گمان ورطۂ خیال میں بھی نہیں لایا جاسکتا۔ان تلخ حقیقتوں کا تماشہ دنیا نے حکومت سازی کے تعلق سے رنگ بدلتے پارٹی لیڈروں کی حالیہ اُچھل کود اور نئے گورنر ستیہ پال ملک کے ہاتھوں اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں دیکھا۔ ریاست کی ہند نواز سیاسی پارٹیوں کی جانب سے حکومت سازی کی اس ناکام کو شش نے ریاست میں جاری سیاسی غیر یقینیت کو پیچیدہ تر کردیا ۔ ا س میںدورائے نہیں کہ ہماری سیاسی تاریخ اس بات کا واشگاف الفاظ میں ا علان کرتی ہے کہ بالعموم ریاستی حکومت کا قیام عوامی منڈیٹ پر نہیں ہوتا بلکہ کسی درپردہ قوت کی مرضی سے حکومتیں قائم بھی ہوتی ہیں اور پھر اُنہیں چلتا بھی کیا جاتا ہے۔ اسی ٹریک ریکارڈ کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے ریاستی حکومت بنانے کے لئے کچھ عرصہ سے درپردہ سیاسی جوڑ توڑ اور دَل بدلی مہم جاری تھی۔اسی بیچ رونما شدہ حالات سے اس بات کا خوب اشارہ ملا کہ اندرہی اندر کای کھچڑی پک رہی تھی جوبہرنوع فلاپ شو ثابت ہوئی۔
پچھلی سات دہائیوں کے دوران جموں و کشمیر میں الیکشنوں کی تاریخ کا جب محققانہ جائزہ لیا جائے تو دو ناقابل تردید حقائق سامنے آجاتے ہیں : اول یہ کہ یا تو پورا الیکشن عمل پہلے سے ہی طے شدہ منصوبہ کے مطا بق روبہ عمل لایا جاتا ، دوم یہ کہ با لفرض انتخابی عمل غیر جانب داری سے انجام دیابھی گیا لیکن اس کے بعد حکومت سازی سے لے کر حکومتی کام کاج تک ہر مرحلے پرعوامی منڈیٹ اور احساسات کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ یوں ثابت ہوا کہ رائے دہندگان بے وقوف بنائے جاتے ہیں ، جب کہ جمہوری ادارے سیاسی مداریوںکے ابروئے چشم کے اشاروں پر کام کر تے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی اسمبلی کی توہین ہو یا منتخبہ نمائندوں کے ہاتھوںضوابط و قواعد اور جمہوری قدروں کو ذلت و رسوائی کا قصہ ، سنتالیس سے لے کر تاایں دم قانون ساز اسمبلی کو ہمیشہ غیبی طاقتیں اپنے مفاد میں ربر مہر کی طرح استعمال کر تی رہی ہیں۔ کبھی یہ کام خفیہ قوتوں کے ذریعہ سے انجام دیا جاتا ہے اور کبھی جمہور پسندوںا ور جمہوریت کو اکسیرسُعال ماننے والوں کے ذریعے سے یہی غیر جمہوری کام ببانگ دہل انجام دیا جاتاہے ۔ یہ سلسلہ آج بھی شد ومدسے جاری وساری ہے، ہاں کبھی منضبط اصول و قوانین کوروند تے ہوئے اورکبھی عوامی منڈیٹ پر صریحاًشب خون مار تے ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسمبلی میں پاس شدہ بازآبادکاری بل سے لے کر اٹونومی قراراداد تک اسمبلی کے ایوان نے سیاسی اہمیت کی جو چیزیں general willکے طور منظور کیں،اُن کی مٹی پلید کرنا مر کز کا شیوہ اور شعار بنا رہا۔ یہ صاف گوئی نہ کسی ادارے کی تنقیص ہے ا ور نہ کسی کردار کی تحقیر بلکہ یہ آئین وقانون سے وہ گستاخانہ تجاوزات کی کہانی ہے جو زندہ و جاوید ثبوتوں سے عبارت ہے ۔ان نا قابل انکار حقائق کے بے شمار عینی گواہ آج بھی ہمارے درمیان بقیدحیات ہیں بلکہ کشمیر کا قریہ قریہ اور بستی بستی ان حقیقتوں کی تصدیق کرسکتی ہے ۔ جموں و کشمیر کے بارے میںدلی کی یہی ایک روایتی پالیسی متواتر رہی ہے اوراس پر آج بھی شد ومد سے عمل درآمد جاری ہے اور اس کی مثالیں ہمارے سامنے دن رات بنتی ہیں ۔زیاد ور کیوں جایئے، گزشتہ کئی ہفتوں کے اخباری فائلیں ہی دیکھیں ، شہر سرینگر کا میئر کون ہوگا؟ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے قبل ہی گورنر صاحب اس کا اعلان فرمادیتے ہیں اور پھر من و عن ایسا ہی ہو کر رہتا ہے۔ اگر فیصلہ پہلے ہی طے شدہ تھاپھر یہ بلدیاتی انتخابی مشق کیوںانجام دی گئی؟ اسی طرح گورنر ملک کا یہ بیان کہ ان پر دلی جانب سے سجاد لون کو چیف منسٹر بنانے کا دباؤ تھا ، یعنی دلی کی مرضی سے ہی ریاست کے حکمران،حزب ِاقتدار کی ہیت ترکیبی ، حزبِ اختلاف، آزاد ممبران اوردیگر چیزوں کا ساراپلاٹ متعین ہوتا ہے ۔ اس پلاٹ سے سرتابی اقتدار نواز ٹولے کے بس کا روگ نہیں ہوتا ۔ ممکن ہے اس سیاسی چیستاں پر عام خام حیرانگی کے عالم میں چناں اور چنیں کی بحث میں اُلجھ جائیں مگر وہ اہل بصیرت جو ریاست کی سیاسی تاریخ کے مدوجزراور میڈ ان دلی جمہوری سرکس سے آشنا اور رمز شناس ہیں، ان کے لئے نہ اسمبلی کی حالیہ تحلیل کوئی حیرانگی کی بات ہے، نہ ا س پر حیرت ہے کہ ۴۷ء میں پہلے شیخ عبداللہ کی کار پردازان ِ دلی کی جانب سے ناظم اعلیٰ کی تقرری کرنا ، پھر پانچ سال تک وزیراعظم بنانا، پھر کرسی سے معزول کر کے بائیس سال تک تخت ِحکومت پر بخشی ، صادق، میرقاسم کو بالتریب بٹھانا ، آگے ایکارڈ کا سلسلہ چلاکر سیاسی شطرنج کے پیادوں کو مختلف کردار عطا کر نا ،کس چیز کی داستان سرائی کرتاہے ۔
آیئے ا س کی ایک تازہ عملی مثال بھی دیکھیں،2014ء کو اسمبلی الیکشن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) 28؍سیٹیوں پر کامیابی حاصل کر کے78 رُکنی اسمبلی میں سب بڑی پارٹی بن کر اُبھری ۔ پی ڈی پی نے دوران الیکشن گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں سے ووٹ اس مدعے پر مانگے کہ اگر وہ جموں و کشمیر کے حدود اربعہ میں ہندوتوانواز پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے قدم روکنا چاہتے ہیں، تو اُنہیں چاہئے کہ وہ پی ڈی پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ لوگ اس stunt کے جھانسے میں آگئے اورانتخابات میں اسے اپنے قریبی مد مقابل نیشنل کانفرنس پر فوقیت دی، لیکن جب حکومت سازی کا فیصلہ کن وقت آن پہنچا تو
پی ڈی پی نے اُسی پارٹی کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کرکے ریاستی حکومت قائم کرلی جسے یہ جموں کشمیر میں روکنے اور عوامی سطح پر مسترد کر نے کے قسمیں وعدے کر رہی تھی۔یوں بھاجپا ریاست میں سیدھے طور پی ڈی پی کے سہارے ہی ایوانِ حکومت تک پہنچ گئی۔بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کی اس غیرمتوقع مفاہمت اور حیران کن گٹھ جوڑ کے جواز میں پی ڈی پی نے سیاسی افلاطون بن کر خوب تاویلات سے یہ تاثر دیا کہ بھاجپا ریاست کو لعل جواہرات سے سجائے گی ، خاص کر سیلابِ ستمبر کے پس منظر میں کشمیر کے طول وعرض میں جو وسیع پیمانے پر ناقابل تلافی تباہی مچ گئی تھی ،اُسے مودی سرکار اب سونے چاندی سے بدل دے گی مگر یہ سب سیاسی نعرہ بازی تھی کیونکہ زمینی سطح پر کچھ ہو اہی نہیں سوائے ہزاروں کروڑ امدادی اعدادوشمار کے گورکھ دھندوںکے۔ پی ڈی پی نے قطبین کا یہ ملن ایجنڈا آف الائنس کے سنہرے خواب سے جوڑ کر افسپا کی واپسی، پاکستان اور حریت سے مر کز کی بات چیت، ریاست کے خصوصی درجہ کا تحفظ جیسی چکنی چپٹی باتیں درج کی تھیں مگر یہ صرف لفظوں کا پلندہ تھا اور عمل ان لفظوں کے بالکل برعکس ہو ا۔ ناقدین کی نظر میں یہ گٹھ جوڑ بھاجپا کے سامنے پی ڈی پی کی یک طرفہ پسپائی کی کہانی اور محض حکومتی منصبوں کی بندر بانٹ تھی ، جب کہ مخلوط حکومت بھا جپا کی چاہتوں اور ایجنڈے کی ہوبہو عکاس بنی رہی ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پی ڈی پی کی کامل فرمان برداری کے باوجود بی جے پی نے رواں سال کے جون مہینے میں اپنے متعین سیاسی اہداف، مقاصد اور نظریات کے پیش نظر محبوبہ مفتی کی حکومت سے اپنا سپورٹ الل ٹپ واپس لے لیا۔ بظاہربی جے پی کے پاس حمایت واپس لینے کی کوئی خاص وجہ اور وزنی دلیل نہیں تھی لیکن اپنی حمایت کا ہاتھ واپس کھینچ کر پی ڈی پی کو اس نے سر راہ بے سہارا چھوڑ دیا۔ حالانکہ خود پی ڈی پی کو مخلوط حکومت سے الگ ہونے کے بہت سارے زریں مواقع دستیاب ہوئے تھے کہ اگر سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لے کر یہ حکومت سے دستبردار ہوتی تو پارٹی کی متاثرہ عوامی ساکھ بھی بحال ہوتی، پارٹی کے سپورٹر کے اعتماد کو مزید ٹھیس نہ پہنچتی ، پی ڈی پی کاووٹ بنک اتنا غیر محفوظ نہ ہوتا کہ اسلام آباد کی پارلیمانی نشست پر تصدق مفتی کی ممکنہ انتخابی شکست سے بچنے کے لئے میدان سے فرار لینا پڑتا ۔ بہرحال پارٹی نے کمزور اور بے اعتبار کرسی کے ساتھ چمٹ کر رہنے کوترجیح دے کر اپنے مستقبل سے کھلواڑ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنی مدت کار کے دوران پی ڈی پی حکومت کو اپنے ہر فیصلے اوراقدام پر صفائیاں دینے کے ساتھ ساتھ حکومت میں شامل اپنی حلیف پارٹی بھاجپا کے تئیں وفاداری کے ثبوت بار بار پیش کرنے پڑتے، تب بھی یہ حکومت میں شریک کار بھارتیہ جنتا پارٹی کا اعتماد جیتنے میں کامیاب نہ رہی۔ حکومت سے محروم ہوکر اب یہ پارٹی اندرونی سرپھٹول اور رسہ کشی سے دوچار ہے ۔ ا س کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پارٹی سے روٹھے سابق وزیرخزانہ حسیب درابو نے تنظیم کی کسی مرکزی کمیٹی کی رُکنیت تک قبولنے سے علانیہ انکار کیا، جب کہ حال ہی پارٹی کے ناراض ممبر پارلیمنٹ مظفر بیگ نے پارٹی تک کو چھوڑنے کا اشارہ دینے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور تھرڈ فرنٹ میں شمولیت کا عندیہ دیا۔ بہر کیف پی ڈی پی کے کندھے پر بی جے پی کو ریاست کے سیاسی منظر نامہ پرچھا جانے اور پیش قدمیاں کرنے سے جہاں مین اسٹریم کہلانے والی سیاسی پارٹیوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے ،وہیں اُن کے سیاسی وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ اسی بے چینی اور خطرے نے انہیں ریاست میں بھاجپا کو درکنار کر نے کے لئے حکومت سازی پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی مجبوری پیدا کردی لیکن بی جے پی نے ان کے ا شتراک ِ عمل کی کوشش کو عملی جامہ پہننے کا موقع ہی نہ دیا۔ محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حمایت کے ساتھ حکومت بنانے کے ضمن میں گورنر کے نام خط راج بھون بھیج دیا مگرآفس کی فیکس مشین کو بھی یہ قابل قبول نہ ہو سکا ،چہ جائیکہ گورنر کے پاس یہ خط پہنچتا کہ وہ مفتی کو حکومت بنانے کی دعوت پر غور وفکر کرتے۔ اسی وقت سجاد لوں میدان میںا پنا دعویٰ لے کر اترے ۔ گورنر کو اپنا کام کر نے کا بہانہ مل گیا اور انہوں نے بلا تاخیر اسمبلی کوہی تحلیل کر ڈالا۔ یوں
پی ڈی پی ، این سی ، کانگریس کی حکومت بنانے کی کوشش سبوتاژ کرکے رکھ دی گئی۔ گورنر ملک نے اسمبلی کی تحلیل کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ اسمبلی ممبران کی دَل بدلی کی شکایتیں انہیں موصول ہورہی تھیں، نیزیہ پارٹیاں نظریاتی طور منقسم تھیں ، اس لئے کوئی مستحکم حکومت نہ دے پاتیں ۔ قبل ا زیں جموں تادہلی بھاجپا لیڈروں نے پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس پر الزام لگایا کہ ان کاایک دوسرے کا ساتھ دے کر حکومت بنانے کی کوشش ’’پاکستانی ہدایات‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ اس طرز کلام سے بھاجپا قیادت نے دونوں ہند نواز علاقائی پارٹیوں کو بزبان ِقال اپنی اوقات بتا دیں۔ انہیں پیغام ملا دیا کہ آپ کتنا بھی ہماری وفاداری کا ثبوت پیش کریں، کشمیر کے ارضی حقائق سے آنکھیںپھیریں، اصولوں کو تہ تیغ کر یں، اقدار کو پامال کریں، اعتبار کو فروخت کریں، اپنے لوگوں کوسبز باغ دکھاکر اغیار کے ہاتھ انہیں نیلام کریں ، چاہے جوکچھ بھی کریں لیکن تمہیں دہلی کا بھروسہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل کانفرنس شیخ عبداللہ کی سیاسی زندگی سے سبق حاصل کرے اور پی ڈی پی مفتی سعید سے۔ یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ عوام پی ڈی پی اوراین سی دونو ں کو بھارت کی نمائند ہ سمجھیں، مر کز انہیں پاکستان کے ایماء پر کام کرنے والی پارٹیاں ہونے کے فتوے دے۔ انہیں یہ طعنہ کسی اور نے نہیں بلکہ بھاجپا کے نیشنل جنرل سیکرٹری رام مادھو نے دیا، جب ان دونوں پارٹیوں کو پاکستانی ڈکٹیشن پر ایک دوسرے کے قریب آنے کا اپنا’’انکشاف ‘‘ میڈیا کی وساطت سے کیا ۔ اس الزام کو سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ثابت کر نے کی مانگ کی تو رام مادھو نے اپنا بیان واپس لیا۔
بلاشبہ حکومت سازی کے لئے ان کا ایک دوسرے کی حمایت کرنے کا فیصلہ کسی سیاسی عقیدے یا فلاسفی کے تناظر میں نہ ہوا تھا بلکہ یہ ان کے لئے ایک سیاسی ضرورت اور وقت کی مجبوری تھی ۔ ایسا کرکے یہ جماعتیں اپنے سیاسی وجود کو بچانے کی کوشش کررہی تھیں۔ وقتاًفوقتاًیہ سارے سیاسی ڈرامے یہاں مین اسٹریم کہلائی والی پارٹیوں کے لئے چشم کشا ہیں جن کا ہربار کشمیریوں کے احساسات اور اُمنگوںکی ترجمانی کے بجائے ان کااپنا منشور ، اصول، نعرہ حصولِ اقتدار کے ساتھ ہی دم توڑتا ہے۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک کڑوی تاریخی حقیقت ہے ۔اسمبلی تحلیل کرنے کے حالیہ واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مرکزی حکومت ریاست میں اپنی حاشیہ بردار حکومت کے قیام کے حق میں ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ کسی بھی آئینی و قانونی قاعدے کی پابند ی سے گریز کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دلی کی مرضی کے بغیریہاں کوئی بھی پارٹی آزادانہ فیصلہ لینے کی مجاز نہیں ہوسکتی ، ہر چند کہ اس کا فیصلہ آئین و قانون اور اصول و ضوابط کے عین مطابق ہو ؟ اس کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہوگا۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے ا س کے مرکز یہاں عوام کی مرضی کا احترام کرے اور یہاں جمہوریت کو پنپنے دے، اس کی ساری دلچسپی اسی بات پر مر کوز ہے کہ دلی کو ہروقت یہاں تازہ دم و تابع فرمان گھوڑے اور نئے پیادے ملیں جن سے یہ عوام کی نہیں بلکہ اپنی خدمت عاریتاً کرسی کے عوض لے سکے۔
ؕ