بلال فرقانی
سرینگر//سیاحتی شعبے سے جڑے ہزاروں افراد 22اپریل کے پہلگام واقعہ اور ما بعد سرحدی کشیدہ صورتحال کے باعث شدید معاشی بحران میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ گلمرگ، سونہ مرگ، پہلگام،کوکر ناگ،ڈکسم،اہرہ بل، یوسمرگ،مغل باغات اور دودھ پتھری تقریباًسنسان پڑے ہیں، جہاں سیاحوں کی غیر موجودگی سے نہ صرف سرگرمیاں ٹھپ ہیں بلکہ ان سے روزگار حاصل کرنے والے ہزاروں محنت کش بھی شدید مالی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ یہ صورتحال صرف ہوٹلوں یا بڑی ٹریول ایجنسیوں تک محدود نہیں بلکہ گھوڑے چلانے والے مرکبان، سلیج مزدور، ٹورسٹ گائیڈز، فوٹوگرافر، ہیلپر، پھیری والے اورسنو ماٹر بائیک چلانے والے جیسے چھوٹے طبقے کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔؎مرکبانوں کا کہنا ہے کہ وہ سال کے چند مخصوص مہینوں میں ہی کام کر پاتے ہیں اور انہی مہینوں میں پورے سال کے اخراجات پورے کرتے ہیں، لیکن اس سال سیاحوں کی غیر موجودگی نے ان کی زندگی کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ گلمرگ، سونہ مرگ اور پہلگام میں رجسٹرڈ مرکبانوں کی تعداد7 ہزار کے قریب ہے، جب کہ غیر رجسٹرڈ مرکبان تین ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ مرکبان روزانہ 1500 سے 2000 روپے تک کماتے تھے لیکن اب وہ بغیر کسی کمائی کے روزگار کے لئے پریشان ہیں۔ مرکبانوں کے نمائندے طارق احمد کا کہنا ہے کہ سال میں صرف چار مہینے کیلئے ہی سیاحوں کا کام ہوتا ہے اور وہ انہی چند مہینوں میںضروریات زندگی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔گلمرگ میں 1700،سونہ مرگ میں 1500اور پہلگام میں 1900مرکبان ہیں۔ سونہ مرگ اور گلمرگ میں تقریباً 1500 سلیج چلانے والے ہیں جو برف پر سلیج چلا کر روزانہ 700 سے 1000 روپے تک کماتے تھے، لیکن اب ان کا ذریعہ معاش ختم ہو چکا ہے۔ محمد افضل نامی سلیج والا بتاتے ہیں کہ 22 اپریل سے اب تک انہیں ہزاروں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔سونہ مرگ میں سلیج چلانے والوں کی تعداد 1200اور گلمرگ میں 300ہے۔ وادی کے ہزاروں ٹورسٹ گائیڈز بھی بے روزگار ہو چکے ہیں، جو پہلے سیاحوں کو وادی کے مشہور مقامات کی سیر کرواتے تھے اور روزانہ دو ہزار روپے تک کماتے تھے۔ مشتاق احمد نائیک، جو سونہ مرگ میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی آمدنی ختم ہو گئی ہے بلکہ ان کی شناخت بھی خطرے میں ہے۔سونہ مرگ میں ٹوریسٹ گائیدوں کی تعداد350اور گلمرگ میں 600ہے۔سیاحتی شعبے سے جڑے چھوٹے کاروباری اور مزدور طبقہ جیسے فوٹوگرافر، ہیلپرز، پورٹر، سنو بائیک مالکان اور شال فروش بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گلرمگ میں ہیلپر اور پورٹر 700اور سونہ مرگ میں 200ہیں۔یہ طبقے معاشی طور پر کمزور اور بغیر کسی سماجی تحفظ کے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس بحران کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد نہیںکرے گی تو وہ فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔متاثرین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صرف وقتی امدادی پیکیج نہ دے بلکہ ایسے مستقل اور پائیدار اقدامات کرے جو ان کی زندگیوں کو سہارا دے سکے۔ انہیں چاہیے کہ ایک جامع منصوبہ بنائیں، جس میں بیروزگاری الاؤنس، سیزنل انشورنس اور ہنگامی فنڈ کا انتظام ہو، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔