ڈاکٹرعبدالوحید بٹ
ان دنوں کشمیر میں زرعی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ صبح ہوتے ہی کسان کھیتوں کا رخ کرتے ہیں اور سورج ڈھلنے تک پیڑ پودوں اور کھیت باغیچوں میں خوب محنت کرتے ہیں۔ یہ اسی محبت کا ثمر ہے کہ ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ چاہے سیب و اخروٹ کے پیڑ ہوں یا دھان اور سبزیوں کے کھیت، تمام اجناس اور فصل یہاں کے محنت کش زراعت پیشہ لوگوں کے خون پسینے سے لہلہاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زراعت کو کشمیر کی معیشت میں ریڈ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کم و بیش ستر فیصد لوگ اسی شعبے سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ موجودہ پُر وقار حالت تک پہنچنے میں یہاں کے زراعت کو ہزاروں سال لگے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو
کشمیر کے زراعت کا ماضی شاندار واقعات سے مزین ہے۔ ہر زمانے میں یہاں کے زراعت میں نئے فصلوں کا اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ برزہامہ کے گیہوں کے آثار سے لے کر نوآبادیاتی زمانے میں آلو کی آمد تک یہاں کے فصلوں کا سفر کم و بیش تین ہزار سال پر محیط ہے۔ کشمیر میں اُگاے جانے والی پیداوار کی طویل فہرست کے پیچھے گوناگوں عوامل کا عمل دخل رہا ہے۔ جن میں سیاسی، مذہبی، تجارتی، طبی اور دیگر عوامل نمایاں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے باشندوں کا اپنے زمینی وسائل کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا تجسس بھی رہا ہے اور خوراکی خودانحصاری کو یقینی بنانے کا جذبہ بھی کارفرما رہا ہے ۔
بہت سارے اجناس جنہیں کشمیر میں کاشت کیا جاتا ہے ان میں سے ایک مکئی ہے جس کی فصل ان دنوں ہر علاقے میں چار سو لہلہاتی ہے۔ مکئی سے کون واقف نہیں ہے اور اس کو کون پسند نہیں کرتا۔ یہ ایک ہر دل عزیز پیداوار ہے۔ اس فصل کا نام سنتے ہی ذہن میں طرح طرح کے حسین واقعات یاد آتے ہیں۔ اس فصل کے موسم کا ہر ایک بے صبری سے انتظار کرتا ہے۔ دراصل یہ فصل ہی ایسا ہے۔ مفید اورکارآمد، دکھنے میں دلربا اور کھانے میں لذیذ اورشیریں۔ اسی خاصیت اور خوبی کی وجہ سے اس کو کشمیر میں سترہویں صدی کے آس پاس متعارف کیا گیا۔ متعارف ہونے کے قلیل عرصے بعد یہ دیکھتے ہی دیکھتے چاول کی بعد دوسری مقبول فصل بنا۔ اس نے کشمیر کے زرعی منظر کو خوشنما بنادیا اور دہی معیشت میں روزگار کے نئے امکانات پیدا کیے۔ اول اول اس کو ایک معاون فصل کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اس سے ایسی زمین پر کاشت کیا جاتا تھا جہاں آبیاری کی دقت رہتی تھی اور چاول کی کاشت ناممکن ہوتی تھی۔ یا جب بارشیں نہیں ہوتی اور آبپاشی مخدوش لگتی تھی تو کسان اس کی کاشت کرتے تھے۔
مکئی نئی دنیا کی فصلوں میں سے ایک فصل ہے جس سے وسطی اور جنوبی امریکہ سے نوآباد کاروں، مہم بازوں، مذہبی مبلغوں اور تاجروں نے ایشیاء، افریقہ، یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں پہنچایا ۔ اس طرح دنیا کے دیگر حصوں کی طرح کشمیر میں بھی یہ اناج مذکورہ عوامل سے متعارف ہوا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کے پھیلاؤ اور نام میں مذہبی عوامل کا زیادہ اہم عمل دخل رہا ہے۔ اس کے پھیلاؤ میں حجاج نے اہم کام کیا۔ حرمین کی زیارت کے دوران وہ اس سے مکہ سے اپنے ساتھ لائے۔ چونکہ انہوں نے اس کو مکہ میں پہلی دفعہ دیکھا تو وہ اس کو مکئی کہنے لگے۔ اس طرح اس کا نام مکہ پر مکئی ہوا۔ یہ محض اس فصل کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ اور بھی بہت فصلیں ہیں جن کے بیچ حجاج اپنے ساتھ لائے اور انہیں اپنے علاقوں میں متعارف کیا۔ مذہبی عوامل نے زرعی معلومات کو پھیلانے اور فروغ دینے میں ہمیشہ ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ مختلف اجناس اور غلوں کو کشمیر میں متعارف کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جائے اور خوراکی خودانحصاری کو یقینی بنایا جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مکئی جیسے پیداواری فصل نے کافی حد تک یہاں کی غذائی صورتحال کو مستحکم کیا۔ غلے کی پیداوار میں گرانقدر اضافہ ہوا اور مال مویشی کی تعداد بھی بڑی۔ مکئی ایک نقدی فصل بنا جس کی خرید وفروخت سے پیسے کی گردش دیہاتی ماحول میں دیکھنے میں آئی۔ منافعے کی ان خصوصیات سے حوصلہ پاکر کاشت کاروں نے گاوں دیہات میں اس کی کاشت اپنے کھیتوں میں کرنی شروع کی۔ کشمیر میں چند علاقے اس غلے کی کاشت کے خاص مرکز بنے۔ سوناواری اور ولر کے اطراف میں واقع دیہات میں اس کی خوب کاشت ہوتی رہی ۔ کنڈی علاقوں میں بھی یہ بہت مقبول رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی کاشت تمام زراعت پیشہ افراد کرتے ہیں۔ اگرچہ انکے پاس محض سبزی اگانے کی قلیل زمین ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اس کے بیج بوتے ہیں تاکہ نئی فصل کا مزہ لے سکے۔
انسانی استعمال کے علاوہ مکئی کو مویشیوں کے چارہ کے طور بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ اس کو بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے ۔ مکی کے دانے بھیڑ، بکری ، مرغی اور کبوتر کو کھلایا جاتا ہے ۔ اس کی گھاس موسم سرما میں گاے اور بیل کا عام اور پسندیدہ چارہ ہے۔ مکئی سے بننے والی روٹی اور ستو سے نون چاے کا الگ ہی ذائقہ بنتا ہے۔ ستو خاص کر موسم سرما میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو عمررسیدہ افراد مخصوص طور سے پسند کرتے ہیں۔ چکی سے ستو تیار کرنا عورتوں کا خاص کام مانا جاتا تھا۔ قحط سالی کے زمانے میں مکئی کو چاول کے متبادل کے طور بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس سے بننے والے کھانے کو واٹ کہتے تھے۔ ہمارے سماج میں موجودہ دورمیں بھی ایسے افراد ملیں گے جنہوں نے چند دہائیاں قبل قحط سالی کے دنوں میں واٹ کا استعمال کیا ہے۔
دراصل مکئی جس چیز کی وجہ سے ہر ایک کو اپنی جانب راغب کرتی ہے وہ ہے اس کو آگ میں تاپ کر یا بھون کر گرم گرم حالت میں کھانا ہے ۔ چند سال قبل گھروں میں یہ روایتی چولہوں میں بھونی جاتی تھی ۔ صبح یا شام کو چولہے میں آگ جلتی تھی اور اس کے اندر مکی رکھی جاتی تھی۔ موزوں وقت کے بعد انہیں نکالا جاتا اور گھر کے افراد میں تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا۔ اگر اخروٹ کی گری بھی ساتھ ساتھ کھائی جاتی تو لطافت کا ایک الگ احساس ہوتا تھا ۔ انگاروں کے اندر چھلکے سمیت اگر بھونی جاتی تو وہ ایک تو نرم اور راکھ سے صاف ہوتی تھی اور ساتھ ہی ساتھ لذت میں بھی یکتا ہوتی تھی ۔ لیکن اس طرح مکئی تیار کرنے میں وقت لگتا تھا ۔ یہ جلدی تیار نہیں ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ مکئی کھانے کا ایک اور طریقہ بھی عام رہا ہے جو کم و بیش آج بھی کہیں کہیں کشمیر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مکئی کو ابلتے پانی میں رکھا جاتا ہے اور کچھ وقت کے بعد پانی سے نکال کر کھایا جاتا ہے ۔ کچھ علاقوں میں آگ میں بھون کر اس کو محفوظ کیا جاتا تھا اور سرما میں نکال کر گرم پانی میں ڈالا جاتا تھا تاکہ نرم ہوکر اس سے کھایا جا سکے۔ ایسی روایات اب ختم ہورہی ہے۔
سیب اور زعفران کے مانند مکئی اب ایک نقدی فصل ہے۔ اس کی مقبولیت کو مدنظر رکھ کر اس کی تجارت سے وابستہ افراد یہاں نایاب موسموں میں بھی اس کو ملک کی دوسری ریاستوں سے درآمد کرتے ہیں۔ ہر چوراہے پر لوگ اس کو آگ پر بھونتے اور بیچتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ جوں ہی گاڑی گزرتی ہے تو وہ دوڑے آتے ہیں اور مکئی پیش کرتے ہیں۔ شاہراہوں پر ایسی تجارتی سرگرمیوں سے مکئی کی کاشت کی کافی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مکئی تحفہ کے طور بھی استعمال میں لائی جاتی ہے۔ خاص کر جب گاوں دیہات سے کوئی شخص شہر میں آباد اپنے کسی دوست یا رشتہ دار کے پاس جاتا ہے تو وہ مکئی ساتھ لے کر جاتا ہے۔
اس اجناس کے بارے میں گاوں دیہات میں کچھ مشہور قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ ایسے ہی ایک قصہ میں یہ کہا گیا ہے کہ مکئی نے گھوڑ سوار کو نیچے اترنے پر مجبور کیا۔ اتنی اس فصل میں کشش ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں ایک ذات یا کرام بھی مکئی کے نام سے منسوب ہے جو بجائے خود اس فصل کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
(ڈاکٹرعبدالوحید بٹ گورنمنٹ ڈگری کالج خانصاحب میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
[email protected]