نئی دہلی //مرکزی سرکارنے کہا ہے کہ تشددکاراستہ ترک کرنے والوں کیلئے مذاکرات کادروازہ کھلا ہے۔مرکزی وزیرمملکت برائے امور داخلہ ہنس راج آہیر نے راجیہ سبھامیں مذاکرات کی مشروط پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ2016سے ابتک کشمیروادی میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث 12 ہزار 650علیحدگی پسند لیڈروں اورکارکنوں کوگرفتارکیاگیا ہے۔ ہنس راج نے سال رفتہ کے مقابلے میں امسال کشمیرکی صورتحال کوکافی بہترقراردیتے ہوئے تاہم کہا کہ مہلوک جنگجوئوں کی آخری رسومات میں سرگرم جنگجوئوں کی شرکت کوباعث تشویش ہے۔راجیہ سبھامیں اپوزیشن ارکان نے مرکزی حکومت کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسبات کی وضاحت طلب کی۔ ایوان میں موجود مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہنس راج گنگارام نے بتایا کہ کشمیر کی صورتحال سال گزشتہ کے مقابلے میں کافی بہتر ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت نے کشمیر سے متعلق مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ مرکزی حکومت صرف ان کشمیری لیڈروں کے ساتھ بات چیت کرے گی جو تشدد کا راستہ ترک کرنے کے ساتھ ساتھ آئین ہند کو تسلیم کرتے ہوں ۔ انہوں نے آئین ہند کے دائرے میں مکالمے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت نے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں بلکہ کھلا رکھا ہے اور اب یہ کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں پر منحصر ہے کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ نہیں ۔ انہوں نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو یہ جانکاری فراہم کی کہ سال 2016 سے کشمیر وادی میں مختلف غیر قانونی اور علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث 12 ہزار 650 علیحدگی پسند لیڈران اور امن مخالف عناصر کو مختلف قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے واقعات پر روک لگانے کیلئے حساس علاقوں میں امتناعی احکامات کے تحت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ہنس راج یہ جانکاری فراہم کی کہ کشمیر وادی میں گزشتہ برس مختلف نوعیت کے پر تشدد واقعات اور امن مخالف سرگرمیوں کے سلسلے میں 2897 کیس درج کئے گئے جبکہ امسال ابھی تک ایسے 583 کیس درج کئے گئے ہیں ۔ مرکزی وزیر مملکت برائے نے واضح کیا کہ کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں اور امن مخالف عناصر کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائیگی بلکہ ان کی حرکات و سکنات پر ہمہ وقت کڑی نظر رکھی جارہی ہے ۔ ہنس راج نے بدھ کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ بلا شبہ مارے گئے جنگجوئوں کی آخری رسومات میں سرگرم جنگجوئوں کی موجودگی باعث تشویش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنگجو مخالف کارروائیوں کے دوران جب کوئی مقامی جنگجو مارا جاتا ہے تو اس کی آخری رسومات میں سرگرم جنگجو شامل ہوجاتے ہیں جو کہ ایک باعث تشویش معاملہ ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جنگجوئوں کی سبھی سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے مختلف نوعیت کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ہنس راج نے ایوان کو گزشتہ 7 برسوں کے دوران کشمیر وادی میں مختلف نوعیت کے پر تشدد واقعات کے دوران ہوئی اموات اور ہلاکتوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ 2011 سے امسال ماہ جولائی کی 9 تاریخ تک جموںوکشمیر میں 1142 افراد تشدد کے واقعات کے دوران مارے گئے ، جن میں 702 جنگجو ، 307 سیکورٹی اہلکار اور 133 عام شہری بھی شامل ہیں ۔