حسب روایت ہندوستان کے قومی میڈیا نے وادی کشمیر کو ایک مرتبہ پھر خون سے نہلائے جانے کا جشن منایا اور پورے ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کو بھی یہ تاثر دینے کی بھر پور کوشش کی گئی کہ ہندوستا ن کو مسلح بغاوت کا سامنا ہے ۔اگر نئی دلی صرف مسلح بغاوت کا رونا روتی تو شائد بات کچھ سمجھ میں آتی لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ نئی دلی اس کے بقول جموں کشمیر میں مسلم انتہا پسندی کا شکار ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ جموں کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک ۷۰ برس پرانے کشمیر مسئلہ کے حل کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ISISاور دیگر عالمی مسلح تحریکوں کے اہداف کو پورا کرنے کا حصہ ہے ۔ ایسا کرکے نئی دلی ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے ۔ جہاں وہ خود کو مظلوم قرار دے کر عالمی رائے عامہ کشمیریوں کے خلاف بھڑکا رہی ہے وہاں ایسی ہوا کھڑا کرکے نئی دلی نہ صرف کشمیر مسئلہ کے حل میں براہ راست رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ مسئلہ کے وجود سے ہی انکار کرنے کی شرمناک راہ پر نکل پڑی ہے ۔ رواں مزاحمتی تحریک میں ایسے بھی دن آئے کہ جب سخت گیر کہلائے جانے والے سید علی شاہ گیلانی جیسے لوگ کھلم کھلا کشمیر مسئلہ کو اسلامی مسئلہ مانتے تھے اور ہندوستان چلا چلا کر اس سے سیاسی مسئلہ مانتا تھا اور اب گیلانی صاحب سے لیکر سید صلاح الدین تک گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں کہ جموں کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن ہندوستان ایسا ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کیونکہ جموں کشمیر کے ستر برس پرانے تنازعہ کے بارے میں ہندوستانی موقف بے حد کمزور ہے کیونکہ جموں کشمیر کے تنازعہ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداروں کی اہمیت اور افادیت آج پہلے سے بھی زیادہ ہے ۔ نئی دلی کا منفی پروپگنڈہ وقتی طور سے اس کی سخت گیر پالیسیوں کو جواز بخش سکتا ہے لیکن انجام کار نئی دلی اپنے پھیلائے گئے جال میں بری طرح پھنس سکتی ہے ۔ دلی کے ارباب اقتدار کو سمجھنا ہوگا کہ اگر ISISکا ایجنڈا عالمی ہے تو ہندوستان اسکی نظروں سے اوجھل کیسے رہ سکتا ہے ۔ ہندوستانی سرکار کے اپنے ہی اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں خود ہندوستان کے بہت سارے مسلمان اس بین الاقوامی مسلح تحریک کا حصہ بنے ہیں لہذا جو کام ISISکو ہندوستان میں اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے کرنے کی ضرورت ہے اس کا ہوا کھڑا کرکے خود نئی دلی ISISکیلئے ساز گار ماحول کھڑا کر رہی ہے ۔ کشمیر کی بغاوت اپنی جگہ اگر خدا نخواستہ سچ مچ ہندوستان کے مسلمانوںکے ایک طبقے کی ہمدردیاں ISISکی طرف جاتی ہیں تو پوری ہندوستانی ریاست کیلئے اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ۔ کشمیریوں کو پاکستانی ایجنٹ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے لیکن ان لوگوں کو جنہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہندو فرقہ کے لوگوں کے شانہ بشانہ جد و جہد کی اور قربانیاں دیں کسی اور کا ایجنٹ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد خود پورے پاکستان کی آبادی کے آس پاس ہے لہذا کشمیر میں ISISکی موجودگی کا رونا رو کر ہندوستان کشمیریوں سے زیادہ اپنے لئے مشکلات کھڑا کر رہا ہے ۔ ہندوستان کا یہ منفی پروپگنڈہ کشمیر میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے اور خود کو سیکولر اور اعتدال پسند کہلانے والے کشمیری بھی ہندوستانی پروپگنڈہ اور کشمیریوں کے خلاف طاقت کے بے تحاشہ استعمال کے نتیجے میں محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں صرف مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے ۔ اس ذہنی کشمکش اور خوفناک مار دھاڑ کے درمیان کشمیر کی اکثریتی آبادی کے ذہنوں میں یہ بات آہستہ آہستہ جگہ کر رہی ہے کہ اگر سارے کشمیری ملکر بھی ہندوستان کا جھنڈا اٹھائیں تو بھی ہندوستان انہیں اپنا نے کیلئے تیار نہیں ہوگا ۔ ساتھ ہی جس طرح مزاحمتی سیاسی قیادت کی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے اور ان کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت کوگھٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا لازمی نتیجہ اس بات کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ عام کشمیری بھی یہ اخذ کر لے کہ جب ہندوستان گیلانی صاحب کی دور کی بات عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کی روش پر چل رہا ہو تو سیاسی جد و جہد کا کیا فائدہ ۔ وہ لوگ جو تحریک حریت کے نامزد سربراہ محمد اشرف صحرائی کے بیٹے کی طرف سے مبینہ طور سے عسکری صفوں میں شامل ہونے کو لیکر صحرائی صاحب سمیت مزاحمتی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ایسا کہہ کر انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ چند فحش غلطیوں کے با وجود جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت سے لیکر نچلی سطح تک کے کارکنوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو بیش بہا قربانیاں دیں ان کا کوئی شمار نہیں ۔ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ 1989ء میں عسکری تحریک کے آغاز کے وقت جماعت اسلامی بھی نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، پیپلز کانفرنس اور دیگر جماعتوں کی طرح مین اسٹریم جماعت تھی اور مسلم متحدہ محاذ کا حصہ تھیں لیکن مسلح جد و جہد کے بعد جماعت اسلامی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے بر عکس تحریک مزاحمت سے کافی حد تک وفا کی اور اس تنظیم کے صف اول کے کارکنان تحریک کے دوران کسی نہ کسی طرح کام آئے ۔ بدلتے حالات کے بیچ اگر جماعت اسلامی نے بھی اپنی حکمت عملی کہیں تبدیل کی تو ایسا کرنا ان کا بھر پور حق ہے اور اس کی بلا وجہ تنقید کا کوئی خریدار نہیں ۔ صحرائی صاحب پر تنقید کرنے والوں کو پہلے اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ نہ صرف صحرائی صاحب بلکہ ہر کشمیری اپنی اولاد کے سامنے لا جواب ہو چکا ہے کیونکہ انہیں سڑک ،پانی ، بجلی اور روزگار سے لیکر کشمیر مسئلہ کے حل تک سیاسی محاذ کی ناکامیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ عام نوجوان کے ذہن میں یہ بات آنا فطری ہے کہ اگر سید علی گیلانی کو نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں اور منتخب ممبران اسمبلیوں میں سے کسی بھی باضمیر کو سر اٹھا کے چلنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں تو پھر پُر امن مذاکرات اور سیاسی جد و جہد کی باتیں کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے ۔ ایسے میں اگر صحرائی صاحب کا بیٹا بھی اپنے باپ کے طریقہ کار سے اختلاف کرے تو اس میں صحرائی صاحب کا کیا قصور ؟ کیا دلی کے آرام دہ ٹی وی اسٹیڈیوز میں بیٹھے لوگ یہ بنیادی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیںکہ کوئی بھی باپ اپنے بیٹے کو زیر زمین سرگرمیوں میں شامل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اور نہ ہی کوئی ایسا باپ ہوگا جو اپنے بیٹے کے زندہ رہنے کے بجائے اس کے تابوت کو کندھا دینے کی تمنا کرے گا لیکن ایسا کسی بھی کشمیری کے بس میں نہیں ہے کیونکہ نئی دلی کے غرور ، گھمنڈ اور اس کی عادم خوری کی بڑھتی ہوئی عادت نے قاضی گنڈ سے لیکر سیماری (کرناہ) تک جسطرح کشمیریوں کے خون کو پانی سے بھی سستا کر دیا ہے اس ماحول میں کوئی کسی کی کیوں سنے ۔ گذشتہ اتوار کی خونی شام کے مناظر شائد ہی کبھی کشمیریوں کے ذہنوں اور آنکھوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں اور جو لوگ جنوبی کشمیر میں ایک ہی دن میں ایک درجن سے زیادہ عسکریت پسندوں کو جانبحق کرنے کا جشن مناتے تھکتے نہیں ہیں انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ خونی اتوار جموں کشمیر میں ہندوستانی مفادات کے تابوت میں ایک اور کیل لگانے کا کام کر گئی ۔ طاقت سے نہ آج تک کسی قوم کو دور کی بات کسی فرد کو دبانے کا خیال کرنے والے بھی احمقوں سے بد تر ہیں ۔ کشمیریوں کو ہندوستانی میڈیا ، سیاستدانوں ، فوجی جرنیلوں ، پالیسی سازوں اور عام سپاہیوں کی طرف سے پڑنے والی ہر گالی انجام کار بکھرے ہوئے کشمیریوں کو اجتماعی سوچ اختیار کرنے پر آہستہ آہستہ مجبور کر رہی ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ جہاں عام کشمیری کشمیر مسئلہ کے حوالے سے صرف ایک مظلوم قوم کا فرد ہے ، وہاں مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں اور اتحاد اب بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور قوم کو فرسودہ اور بے معنٰی بحث و مباحثوں میں اُلجھا کر نئی دلی کا کام آسان کر رہی ہیں ۔