یو این آئی
سرینگر// وادی کشمیر نہ صرف اپنے منفرد حسن و جمال بلکہ صدیوں پرانی دستکاریوں کے لیے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ انہی قدیم دستکاریوں میں سے ’تلہ سوزی‘ہے یہ ایک ایسا فن جس نے کشمیری پہچان کو عالمی سطح پر جِلا بخشی۔ کبھی یہ صنعت ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ تھی لیکن مشینی دور اور بدلتے رجحانات نے اس کو کمزور کر دیا ہے ۔ شہر خاص سرینگر کے معروف تلہ ساز معراج الدین بٹ گزشتہ ساٹھ برسوں سے اس فن سے جڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تلہ سوزی ایک ایسا قدیم ہنر ہے جس کی روایت صدیوں پر محیط ہے ۔ ان کے بقول’’یہ صرف شہر خاص تک محدود نہیں تھا بلکہ دیہی علاقوں کے لوگ بھی اس ہنر میں ماہر ہوا کرتے تھے ۔ آج بھی لوگ تلہ سوزی کو ترجیح دیتے ہیں، مگر مشین کی آمد نے ہاتھ کے فن کو پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘ ۔معراج الدین کے مطابق، ہاتھ سے ایک پھرن پر تلہ سوزی مکمل کرنے میں دو سے ایک ماہ کا وقت لگتا ہے ، جبکہ مشین یہی کام ایک گھنٹے میں کر دیتی ہے ۔ یہی فرق اصل کاریگروں کو مایوسی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ کشمیری معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کو تلہ سوزی سے بنے کپڑے دینا ایک قدیم روایت ہے ۔ معراج الدین کہتے ہیں’’آج بھی ہر دلہن کے جہیز میں تلہ سوزی کے کپڑے شامل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ یہ روایت ہماری تہذیب کی گہرائیوں سے جڑی ہوئی ہے اور لوگ اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں‘‘۔اگرچہ پرانے کاریگر اب بھی دلجمعی سے اس ہنر سے وابستہ ہیں، مگر نئی نسل اس کی طرف مائل نہیں ہو رہی۔ معراج الدین کے مطابق’’نوجوان نہ یہ کام سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ مزدوری کم ملنے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ دوسرے کاروبار سے جڑ رہے ہیں‘‘۔انہوں نے واضح کیا کہ ایک تلہ سوز صبح سے رات تک محنت کرنے کے باوجود صرف تین سے چار سو روپے کما پاتا ہے ، جو موجودہ حالات میں نہایت ناکافی ہے ۔ مشینوں نے جہاں کام آسان کیا ہے ، وہیں ہاتھ کے فن کو شدید نقصان بھی پہنچایا ۔ معراج الدین کا کہنا ہے کہ مشین کے ذریعے بنائے گئے کپڑوں کو بھی سیاحوں اور گاہکوں کو ہاتھ کی تلہ سوزی قرار دے کر بیچا جاتا ہے۔ انہوں نے مایوسی کے لہجے میں کہا’’ہم نے رجسٹریشن بھی کروائی، مگر آج تک کسی قسم کی رعایت یا مدد نہیں ملی۔ حکومت اور ہینڈی کرافٹ محکمہ کو چاہیے کہ مشینوں پر پابندی عائد کرے تاکہ ہاتھ سے تلہ سوزی کرنے والے کسمپرسی کی زندگی سے نکل سکیں‘‘۔تلہ سوزی صرف ایک ہنر نہیں بلکہ کشمیری تہذیب و ثقافت کی علامت ہے ۔ شال، پھرن، اور روایتی لباسوں پر تلہ کاری نہ صرف مقامی لوگوں کی شان بڑھاتی ہے بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کو کشش میں مبتلا کر دیتی ہے ۔