پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی کتاب بعنوان’’ کشمیر کی ـتحریک آزادی ۔۔۔ خواب،عذاب و سراب ‘‘کشمیر کاز کے شروعاتی برسوں کے بارے میں ایک مفصل کتاب ہے۔کتاب کے عنوان پہ نظر پڑتے ہی دل پہ گرانباری کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور جگر سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ جو کاروانِ آزادی 1931ء میں اپنی منزل کی جانب رواں ہوا تھا وہ ابھی تک منزل سے کوسوں دور اُس خواب کی تعبیر کی تلاش میں سرگردان ہے جو آزادی کے متوالوں نے دیکھا تھا۔وادی کشمیر کے لوگ ایک عذاب سے دوسرے عذاب میں بدستور مبتلا ہو رہے ہیں اور قافلۂ آزادی کے کئی ایسے پڑاؤ بھی آئے جہاں یہ احساس ہونے لگا کہ منزل قریب ہے لیکن یہ خیال سراب ثابت ہوا۔بنابریں کتاب کا عنوان تحریک آزادی کے قدم بہ قدم سے مطابقت رکھتا ہے ۔ کچھ ناقدین کی رائے میں آزادی کا خواب چاہے عذاب در عذاب میں مبتلا رہے سراب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو عوام الناس کی دیرینہ امنگوں اور قلبی آرزؤں سے تعلق رکھتی ہے۔پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی قلمی کاوش کی اہمیت و افادیت اس حقیقت سے عیاں ہے کہ یہ اخبارات اور سوشل میڈیاپہ بحث و مباحثے کا موضو ع بنی ہوئی ہے۔
یہ کتاب بے حد دلچسپی کا باعث اس وجہ سے ہے کہ جو کچھ اس میں درج ہے وہ کہیں کہیں راقم نے پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی زبانی خود بھی سن لیا ہے۔ 1960ء کے دَہے کے دوراں جب طالب علمی کا دور چل رہا تھا لال چوک سری نگر وادی کا سیاسی مرکز مانا جاتا تھا۔یہاں اورین اورجہلم ویلی ہوٹل وغیرہ میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے طالب علموں ، سیاسی کارکنوں ،صحافیوں کامجمع لگا رہتا ۔یہیں ایک خاص ’’ڈائمنڈ موٹر سروسز‘‘ پر محاز رائے شماری سے وابستہ خاص الخاص حضرات تشریف فرما رہتے۔ ’’ڈائمنڈ موٹر سروسز‘‘ کے مالک اُس زمانے میں حاجی محمد سبحان تھے جن کا شمار محاذ کے برگذیدہ کارکنوں میں ہوتا تھا۔پیر محمد افضل مخدومی صاحب اکثر بعد دوپہر یہاں حاجی صاحب کے پاس آتے جاتے تھے۔اُن کے علاوہ یہاں بسنت باغ کے بٹ برادران غلام محمد بٹ صاحب اور علی محمد بٹ صاحب کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔حاجی صاحب اور پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی مانند بٹ برادران بھی محاذ سے وابستہ تھے۔ یہ سب حضرات شیخ محمد عبداللہ کے قریبی ساتھیوں میں مانے جاتے تھے اور اسی مناسبت سے سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔حاجی محمد سبحان چونکہ ہمارے قریبی رشتہ دار تھے ، اس تعلق سے راقم ان حضرات کی صحبت سے فیض یاب ہو تا رہتا۔ پیر محمد افضل مخدومی صاحب اکثر تحریک حریت کے بارے میں گفتگو ئیںکیا کرتے ،اس بنا پر اُن کی زیر مطالعہ تصنیف میں جو کچھ مندرج ہے، اُس میں سے کم وبیش طالب علمی کے زمانے میںواقف رہا۔ شمیم احمد شمیم کے ہفتہ وار’ ’آئینہ‘‘ میں اس سلسلہ مضامین کے اقتباسات شائع ہوتے ، اُنہیں بھی ذوق و شوق سے پڑھ کر راقم پیر محمد افضل مخدومی کی ذہانت،فطانت اور ظرافت کا قائل ہوا ۔ موصوف کی بے پناہ یاداشت پر مبنی رشحاتِ قلم کو تحریک حریت کے ضمن میں فال نیک مان کر یہ ناچیزموصوف کی بیش قیمت یاداشتوں کو کشمیر کی عصری تاریخ کے لئے انمول معلومات کا خزانہ سمجھتا ہوں ۔ ان یاداشتوں کو کتابی شکل دیناضروری تھا ۔ زمانہ ٔ طالب علمی کے دوست اور پیر صاحب مرحوم کے فرزند ارجمند جاوید نے یاداشتوں کی کتاب بندی میں جو جانفشانی کی، وہ قابل تعریف ہے۔جاوید صاحب نے کئی ملاقاتوں میں عندیہ دیا تھا کہ وہ اس تحریری کاوش میں مشغول ہیں ۔راقم الحروف کے علاوہ کئی خیر خواہوں اور دوستوں نے بھی انہیں تلقین کی تھی کہ پیر صاحب کی یاداشتوں کی کتابی شکل تحریک آزادیٔ کشمیر کے ابتدائی مرحلوں کی رُو داد ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز کا کام دے سکتی ہے۔ انجام کار جس گوہر نایاب کی شائقین وک تلاش تھی وہ آج کتابی صورت دستیاب ہے۔
یہ ایک ٹھوس سچ ہے 1931ء میں جو تحریک شروع ہوئی اُس کی تفصیل کئی کتابوں میں موجود ہے لیکن ان میں تذکرے ایک تو تاریخی شکل میں موجود ہے جن سے چیدہ چیدہ تاریخی واقعات منعکس ہوتے ہیں، ثانیاً ان میں تحریک کی صرف صف ِاول کا ذکر ملتا ہے، ثالثاََ ان میں تحریک کی کلیات کے بارے میں بحثیں درج ہیں لیکن جزیات یااُن افراد کا ذکر جنہوں نے تحریک کی آبیاری میں نمایاں خدمات انجام دیں بجز پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی زیر مطالعہ تصنیف کہیں نہیں دیکھی جا سکتیں۔عینی شاہد کی حیثیت سے اُنہوں نے جو13؍جولائی کے وہ واقعات بیان کئے ہیں جوکسی روایتی تواریخ میں دستیاب نہیں ۔کہیں کہیں تو گمان ہوتا ہے کہ یہ روایتی تاریخ نویسی سے گذر کر ایک ایسی حزنیہ داستان ہے جو ایک طرف انسانی درندگی و شقاوت قلبی منظر عام پرلاتی ہے، دوسری طرف مظلوموں کی بے بسی کی تمثیل کو بے نقاب کرتی ہے۔اس میں ایک طرف شخصی حکومت کے وہ کارندے ہیں جو ظلم وجبر کے پرستار ہیں، دوسری جانب وہ بے مثال برداشت،صبر و تحمل اور شخصی راج سے نجات حاصل کرنے کا خواب رکھنے والے ہیں جو اپنی جاں عزیز کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی کوئی پس وپیش نہیں کر تے۔ اُس تاریخ ساز دن کو کشمیر کی خفتہ روح بیدا رہوئی ۔ اسی تاریخی پس منظر میں ڈوگرہ شاہی کی طرف سے وہ مظالم ڈھائے گئے ہیں جن سے کشمیر میں روحِ انسانیت درد کسک کے عالم میں چیخ اٹھی۔ پیر محمد افضل نے اس قومی آہ وبکا کی جو منظر کشی کی ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
شیخ محمد عبداللہ کی رہبری میں جو قیادت اُن دنوںاُبھری اُس کی صف اول کا تعارف دینے کے علاوہ پیر محمد افضل مخدومی نے اس دوسری صف ثانوی کا بھی ذکر کیا ہے جو کسی تاریخ کا حصہ نہیں بنے لیکن جن کا تحریک میں کلیدی رول رہا ہے۔راقم نے اپنے نانا مرحوم خواجہ غلام محمد نجار سے جو بابو غلام محمد کے نام سے ڈاک خانے میں ملازمت میں تا دمِ وفات معروف رہے اور جنہوں نے سرینگر کے کئی پوسٹ آفسوں میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے کام کیا ، ان سے تحریک کے لئے کام کرنے کے بارے میں سنتا رہتا ۔ اُنہوں نے ڈاک و تار کے شعبے میں اپنی نوکری کو خطرے میں ڈالتے ہوئے در پردہ تحریک کی کافی مدد کی، مثلاً پنجاب کے ممنوعہ شدہ پرچوں کو تحریک کے زعما ء تک پہنچانے کا کام اور رسل و رسائل سے وابستہ دوسرے امور جو تحریک کے پنپنے کے کام آ سکیں، ان کے ذمہ تھے ۔ہفتہ وار’’ آئینہ‘‘ میں اس ضمن میں پیر صاحب نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے نانا مرحوم اور کچھ دیگر پوسٹ ماسٹروں کی خدمات کا بھی ذکر کیا ہے، اس عدم واقفیت کے ساتھ کہ ان میں سے کون زندہ ہے اور کون جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔نانا مرحوم اُن دنوں بقید حیات تھے ۔میں نے مناسب جانا کہ اس بارے میںپیر محمد افضل مخدومی صاحب کو آگا ہ کروں ۔ ایک دن میں نے ’’ڈائمنڈ مو ٹر سروسز‘‘ پر اُن کو آگاہ کیا بلکہ نانا جان کا سلام بھی پہنچایا۔یہ سن کے اُن کے چہرے پہ آئی بشاشت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ، مجھے لگاجیسے اُنہیں کوئی کھویا ہوا ساتھی مل گیا ہو۔زیر نظر تصنیف کے صفحہ 162؍پہ اُس کی تفصیلات موجود ہیں،جو حرف گویائی ہے کہ کتاب میں جو بھی منعکس ہوا، وہ پیر محمد افضل مخدومی کے صادق القول ہونے کی دلیل ہے۔
’’خواب،عذاب و سراب ‘‘478صفحات پر مشتمل ہے اور یہ تاریخی یادداشت 1931ء سے 1934ء تک کے حالات و واقعات قلمبند کرنے میں ایک ایسی دستاویز دور حاضر اور آئندہ نسلوں کے لئے چھوڑ گئی ہے جو تاریخ نویسوں ،تجزیہ نگاروںاور نقادوں کے لئے اہم ترین مواد فراہم کرتی ہے۔ اِن تین چار سالوں کو محیط تحریک کے پنپنے میں جو رہبری اور عوام الناس کا جو والہانہ رول رہا، اُس کی تفصیلات کا جو آئینہ تاریخی دستاویز کی صورت میں پیر محمد افضل مخدومی چھوڑ گئے ہیں، وہ بلا شبہ کشمیری قوم پہ اُن کا احسان ہے۔ ہماری تحریک حریت میں ایک واضح کمی یہ رہی ہے کہ صف اول نے اپنی یاداشیں رقم کرنے میں کوتاہی بلکہ اغماض سے کام لیا اوراگریاداشتیں رقم ہوئیں بھی مثلاً شیخ محمد عبداللہ کی ’’آتش چنار‘‘ ان میں تاریخی واقعات و حادثات کو پس پشت ڈالا گیا، ان کی کتاب میں بھی تفصیلات کی واضح کمی موجود ہے۔ممکن ہے کہ دامن بچانے کی کوشش میں ایسا کیا گیا ہو۔ایسے میں تحریک کے ابتدائی مراحل پہ ہر محاذ پہ موجود پیر محمد افضل مخدومی صاحب نے تحریک حریت کے خاکے میں جو رنگ بھرے ہیں ،اُس سے ایک تشنہ کام کمی پوری ہوگئی ہے جو ایک خوش آیند امر ہے ۔دیکھا جائے تو تحریک کے ابتدائی سالوں کی یاداشتوں میں13؍جولائی 1931ء قومی یاداشت پرمنقش ہے لیکن اس دلدوز واقعہ کے اردگرد کئی اور ایسے ہی دلدوز واقعات وقائع نگاروں نے فراموش کئے ہیں جن کے بل پر تحریک کے ابتدائی مراحل میں کشمیر کاز کی قندیل روشن رہی۔ ایسا ہی ایک واقعہ 23؍ستمبر 1931ء کو ملکھ ناگ اسلام آباد میں پیش آیا ،جہاں 20جیالوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ایسے ہی کئی ایک دلخراش واقعات نے تحریک کو ابتدائی برسوں میں وہ استحکام بخشا کہ آج کم و بیش آٹھ دَہیاں گذرنے کے بعد بھی تحریک گوناگوں مراحل سے گذرتے ہوئے ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہے۔ ان مراحل کی آئینہ داری میں جو رول ’’خواب،عذاب و سراب‘ ‘نے انجام دیا ،وہ سوبارقابل تحسین ہے۔ اس کتاب میںتحریک کے ایسے رہبروں کا بھی ذکر ملتاہے جنہوں نے ایک خاص مقام پہ جہاں تحریک کو اُن کی ضرورت تھی، اُس قومی نصب العین سے بے وفائی کی جس کاخواب دیکھ کر 13؍جولائی کے شہداء نے وطن کی مٹی کو اپنے پاک لہو سے لالہ زار کیا ؎
بنا کردند خوش رسمے بہ خاک و خون غلطیدند
خدا رحمت کند عاشقاں پاک طنیت را
جس خوش رسمی کی بنیاد خاک و خون میں لت پت ماضی بعید کے ان شہیدوں نے ڈال کر خدا کی رحمت کے طلبگار ہوئے، اُس خوش رسمی کے ساتھ تحریک کے کئی ایسے مر حلے آئے جہاں ا سکی روح کے ساتھ بے وفائیاں ہوئیں،ا لبتہ تحریک کئی حصوں میں بٹ کر بھی چلتی رہی ۔ تحریک کی صف اول میں دراڑ کے سبب تحرک میں کمی بھی آئی جیسے مسلم کانفرنس میں دراڑ پڑی کیونکہ اس میں مفاد خصوصی رکھنے والے حضرات کا ہاتھ کارفرما تھا۔ایسے مقامات کے بارے میں کہ جہاں تحریک تذبذب وانتشار کا شکار ہوئی اور ایسے افراد کے بارے میں جو تحریک میں رخنہ اندازی کا سبب بنے ،پیر محمد افضل کا تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔یہ ایک مانی ہوئی تلخ حقیقت ہے کہ کئی رہبروں کے سمیت اُنہوں نے 1953ء کے واقعات کے تناظر میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ،البتہ بخشی غلام محمد کے بارے میں جو 1953ء میں رہبری کی صف اول میں رخنے اور خلفشار کا سبب بنے ،پیر محمد افضل مخدومی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود اس دور کی عکاسی کر تے ہوئے ایک حقیقی دانشور کی جھلک دکھاتے نظر آتے ہیں۔وہ جہاں بخشی غلام محمد کے سیاسی کردار کی کمزوریاں بیان کرتے ہیں، وہاں اُن کی تنظیمی خوبیوں کے بھی معترف ہیںاور تحریک کے ابتدائی سالوں میں اُن کی گوناگوں خدمات بیان کر نے میں اُنہوں نے کسی کسر بیانی سے کام نہ لیا۔ یہ مصنف کی اعلی ظرفی اور مور خانہ غیر جانب داری کی دلیل ہے۔ تحریک کے بارے میں جو حضرات جزیات کی خبر رکھتے ہیں اُنہیں سیاسی نظریات و تنظیمی معاملات میں پیر محمد افضل مخدومی صاحب کی ترجیحات کے بارے میں علم ہے۔ وہ چونکہ اہل علم و دانش تھے، لہٰذا نظریاتی طور پر مولانا محمد سید مسعودی کے قریب مانے جاتے تھے اور محاذ رائے شماری کی تنظیم پہ افضل بیگ پر حاوی تھے، البتہ محاذ کے زیادہ تر زعماء مولانا محمد سعید مسعودی کے معتقد تھے جن میں پیر محمد افضل مخدومی بھی شامل تھے ۔ مولانا کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ کشمیری زبان سے نابلد ہونے کے سبب اُنہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے، البتہ مولانا کے بارے میں مثبت نظریے کے باوجود وہ افضل بیگ کی زیرکی ا ور قانون دانی کے معترف ہیں ۔ 1953ء سے پہلے ایک ایسا بھی دور تھا جب شیخ عبداللہ وزارت میں بیگ صاحب وزیر مال تھے، تب پیر محمد افضل مخدومی، حاجی محمد سبحان سمیت بیگ صاحب سے قریب مانے جاتے تھے لیکن محاذ رائے شماری کے دوران جب بیگ صاحب نے دیرینہ ساتھیوں کو بھلا کر کچھ ایسے چہرے سامنے لائے جن کا تحریک کے ابتدائی دنوں میں تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا، تو پرانے ساتھیوں کی خفگی ایک قدرتی تاثر بنا رہا ۔ ذاتی تاثرات سے صرف نظر کر کے کہا جا سکتا ہے کہ مصنف میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سیاسی تنقید نگار میں ہونی چاہیں۔ تاریخ نویسی کا ایک اپنا اسلوب ہے ،اُس نظریے سے جانچا جائے تو پیر محمد افضل مخدومی کی تصنیف کو نصا بی تاریخ میں شمار نہیں کیا جا سکتا ،البتہ جو یاداشتیں وہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اُن کی اہمیت و افادیت کے بارے میں جتنا بھی تحریر کیا جائے، موضوع تشنہ طلب رہے گا۔ یہ تصنیف تحریک حریت کشمیر پر تحقیقی کام کرنے والے ریسرچ اسکالروں کیلئے انتہائی مفید ثابت ہو گی۔اُس کی اہمیت ا افادیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ مورخ ایک عینی شاہد ہونے کے علاوہ حالات و واقعات کا خود ایک کردار تھا۔جاوید مخدومی صاحب نے کتاب کی اشاعت میں گر چہ کافی جانفشانی کی ہے ،البتہ کتاب کا انگریزی ترجمہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔
Feedback:[email protected]