یہ ایک خون کھول دینے والی کشمیر کہانی ہے جس کا ورق ورق ہم سب روز رنج وغم اور دکھ وافسوس کے ساتھ تحریر ہوتا ہو ادیکھ رہے ہیں ۔ اس کہانی کے تمام کردار بشمول اس کے جنم داتا شیخ محمد عبداللہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ ایک طرف شر وفساد کے تراشیدہ ظالم کردار ہیں اور دوسری طرف مزاحمت اور بے تحاشہ قربا نیاں دینے والے مظلوم کردار ہیں۔ یہ دو متضاد کردار گزشتہ دنوں ہم نے شوپیان اور کنگن میں اپنا اپنا پارٹ ادا کر تے پھر سے دیکھے۔ ہم ان کرداروںکونوے کی دہائی سے مسلسل جابجا متحرک دیکھتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر متواترجل رہاہے ، کشمیری بلا ناغہ جھلس رہے ہیں ، مسلح جھڑپیںاور فرضی معر کے ہورہے ہیں ، عسکریت پسند اور سوئلین افراد جان بحق ہورہے ہیں ، بستیاں مسمار ہورہی ہیں، نوجوان قبروں میں ابدی نیند سو رہے ہیں ، ماں اپنے لخت جگر سے بچھڑنے کا ماتم منارہی ہے ، باپ اپنی آنکھ کی پتلی کو شہر خموشاں میں دفن کر رہا ہے، لوگ ماتم منارہے ہیں ، کاوربار ِ زندگی ٹھپ ہورہا ہے، مجروح جذبات لئے نوعمر لڑکے( بسااوقات لڑکیاں بھی ) سڑکوں پر مظاہرے کرنے نکل رہے ہیں ، از سر نو گولیاںچل رہی ہیں ، پیلٹ کی بارشیں ہورہی ہیں ، زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، ہڑتالیں ہورہی ہیں، تعلیمی ادارے مقفل ہورہے ہیں ، بازار ویران و سنسان پڑرہے ہیں ، انٹر نیٹ اور مواصلاتی نظام پر بریک لگ رہی ہے ، حکومت عوامی دباؤ کے نتیجے میں انکوائری بٹھارہی ہے ، سی آرپی ایف ، راشٹریہ رائفلزاور پولیس نئی جھڑپوں کی پلاننگ میں لگ رہی ہیں ، حریت واویلا کر رہی ہے اور دلی کے سیاسی گماشتے بیان بازیوں سے اپنا حمام گرمارہے ہیں ۔ یہی دیکھتے دیکھتے زمانے کی بوڑھی آنکھیں جنت نظیر کشمیر کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھتی جا رہی ہیں ۔ واضح رہے آج شوپیان ، پلوامہ ، ترال اور کولگام میں جو خون آشام کہانی بنی ہے ، اُس کا اعادہ کل کپوارہ ، بارہمولہ، بانڈی پورہ ، سوپور سے لے کر لائین آف کنٹرول یا جنگ بندی لائین کے آر پار ہوسکتاہے ۔ اٹھائیس سال سے یہی کچھ دیکھااور سہا جارہاہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے پچاس سال یہ کشمیر کہانی مزید خون خرابے اور فتنہ وفساد کے عنوان سے محولہ بالا کرداروں کے ہاتھوں لکھی جائے۔ قابل غور ہے کہ اس کشمیر کہانی میں کہیں بھی کوئی کلیدی کردار عدل وانصاف کو نہیں دیا گیا ہے بلکہ سنگ دلی ، آدم خوری اور طاقت کے اندھا دُھند اور وحشیانہ استعمال کو ہی مین رول دیا گیا ہے ، جب کہ امن وقانون کی لگام جبر وتشدد اور جارحیت کے فیل بدمست کے ہاتھ میں یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ تم باھری بھرکم جانور ہو، تم آزاد ہو کہ نہتوں کا خون نچوڑدو ، کمزوروں کو روند ڈالو، حق مانگنے والوں کی زبانیں کھینچ لو، بے زوروں کی عصمتیں نوچ ڈالو ،لوگوں کے گھر بار توڑ پھوڑ کے رکھ دو۔ اس فیل بدمست کو افسپا کی شراب پلا کر مدہوش کیا گیا ہے تاکہ کشمیر کاز کا ایڈوانس مارچ روک دیا جائے اور کشمیر کہانی عقل وفہم اور سیاسی شعور وتدبر سے عاری طاقت کی زبان بولنے والوں کی منشاء کے مطابق اگلی صدی تک یونہی ترتیب پائے ۔ شوپیان اور کنگن نے اسی حقیقت کو ہم پر دوبارہ آشکارا کیا ہے ۔