شوپیان کے علاقہ میں ایتوار کے روز پیش آئی ہلاکتوں کے طوفان سے یہ بات پھر ایک بار کُھل کر سامنے آئی ہے کہ کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں خون خرابے اور تباہ کاریوں کے نت نئے مظاہر ے سامنے آنے کے خدشات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور گزشتہ چند ماہ کے دوران اس خون خرابے میں اضافہ کی جو رفتار دیکھنے کو مل رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک اورخوف زدہ کرنے والی ہے۔ سیاسی جماعتیں خواہ وہ مین اسٹریم ہوں یا مزاحمتی، چند ایک کو چھوڑ کر کسی نہ کسی طور اس امر پر متفق ہیں کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ حالات کی غیر یقینت میں اضافہ ہو رہا ہے ، جو تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی تحریک دے رہا ہے۔ بھلے ہی دائیں بازو کی جماعتیں کشمیر کے حوالے سے مختلف بیانئے تشکیل دے کر مسئلے کے بنیادی محرکات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلئے ہاتھ پائو ں مارنے کی تگ و دو کرتے رہیں مگر اس سے یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہوسکتی کہ موجودہ خوان خرابے کو روکنے کےلئے ہمہ جہت مذاکرات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ اس کےلئے ساز گار ماحول تیار کرنے کی کلیدی ذمہ داری بھی انہی سیاسی حلقوں پر عائد ہوتی ہے، جو عوامی نمائندگی کے دعویدار ہیں۔ ٹکرائو اور تشدد نہ صرف غیر یقینیت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس سے عمومی سطح پر باہمی اعتماد کا فقدان تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔ ایک جانب مرکزی حکومت نوجوان نسل کو موجودہ ماحول سے متاثر ہونے سے بچانے کےلئے آئے روز نت نئے پروگراموں کے اعلانات کرنےمیں مصروف ہے اور اس حوالے سے سیکورٹی اداروں سمیت مختلف حلقوں کے لئے مختلف منصوبوں کی عمل آوری کی خاطر خاطر خزانے کےمنہ کھول دیئے گئے ہیں، مگر دوسری جانب نہتے شہریوں کی جانب سے مقاومت کو دبانے کے لئے طاقت کا بے محابہ استعمال کرنے سے ایسی فضاء استوار ہو رہی ہے، جس میں نوجوان نسل کے زیادہ متاثر ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے۔ فی الوقت ان ہلاکتوں ، خواہ وہ شہریوں کی ہوں یا عسکریت پسندوں کی یا پھر فورسز اہلکاروں کی، اس کا ایک فوری نتیجہ یہی ہے کہ گھروں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں، نوجوان خواتین بیوائیں ہو رہے ہیں، معصوم بچے یتیم ہو رہے ہیں اور بوڑھے بزرگوں کے سہارے چھن رہے ہیں۔ جس سماج میں اس نوعیت کے تانے بانے بُن رہے ہوں اس میں زہنی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کی اُمید کرنا آسمان سے تارے توڑنے لانے کے متراد ف ہے۔ موجودہ صورتحال کا ادراک کرکے ہمارے سبھی سیاسی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس خوفناک فضاء کا تجزیہ کرکے ایک با عمل لائحہ عمل مرتب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔مرکزی حکومت بھلے ہی صورتحال کےلئے سرحد پار دراندازی کو ذمہ دار ٹھہرائے لیکن زمینی سطح پر جو حالات سامنے آتے جا رہے ہیں اس میں انتظامیہ خو د کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں جو روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اُس سے فی الوقت براہ راست ریاست جموںوکشمیر کے عوام متاثر ہو رہے ہیں اور انہیں اس صورتحال سےنکال باہر کرنے کے لئے نہ تو نئی دہلی آمادہ نظر آرہی ہے اور نہ ہی اسلام آباد۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں جانب سے کشمیر کو ایک سیاسی معیشت کے طور برتنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک عام کشمیری کا احساس ہے اور اس میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لئے ریاست کے حکمران و اپوزیشن اور مزاحمتی سیاسی جماعتوں کو ایک ایسی فضاء تیار کرنے کےلئے اپنی انا کے قطعے مہندم کرکے ایساسیاسی اپروچ اختیار کرنے پر غور کرنا چاہئے جو کشمیر کو سیاسی معیشت بننے سے روکے اور عوام کے مصائب اور مشکلات کا ادراک و احساس کرکے نئی دہلی اور اسلام آباد پر ایسا دبائو پیدا کرسکیں جو اس خون خرابے کی فضاء ختم کرنے کا سبب بن سکے۔