اِکز اِقبال
کشمیر کا سیب صرف ایک پھل نہیں، یہ ہماری معیشت، ہماری پہچان اور ہماری زندگی کا سہارا ہے۔ مگر جب سری نگر۔جموں قومی شاہراہ (NH-44) بند ہوتی ہے تو یہ سہارا لمحوں میں بوجھ بن جاتا ہے۔ امسال بھی ہزاروں ٹرک پھنس گئے، لاکھوں بکسے سڑ گئے اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قصور صرف سڑک کا ہے، یا پھر ہم سب بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں؟سری نگر سے جموں کو ملانے والی نیشنل ہائی وے 44، جسے ہم سب ’’شاہراہِ حیات‘‘ کہتے ہیں، دراصل کشمیر کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ ہر روز ہزاروں ٹرک، بسیں، گاڑیاں اور سامان اس راستے سے گزرتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ شاہراہ کبھی بھی ایک مستحکم اور قابلِ اعتماد راستہ نہیں بن سکی۔ بارش ہو تو لینڈ سلائیڈ، برف پڑے تو بندش، گرمیوں میں ٹریفک جام اور حادثات۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ سڑک ایک مہمان ہے جو موسم دیکھ کر ہی آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
کشمیر کے سیب کا اصل بازار وادی میں نہیں بلکہ وادی کے باہر ہے۔ دلی کی آزاد پور منڈی ہو، پنجاب کے بازار ہوں یا ممبئی کے سپر اسٹورز،یہ سب کشمیر کے سیب کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر جب راستہ ہی بند ہو جائے تو یہ سیب ٹرکوں میں دم گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ کاشتکار کا خون پسینہ پانی کی طرح بہا ہو، لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ قیمتی محنت برباد ہو جائے، یہ صرف معاشی نقصان نہیں بلکہ دل کا زخم بھی ہے۔
کسان اپنی فصل کو دیکھ کر خواب بُنتاہے۔بچوں کی تعلیم، بیٹی کی شادی، گھر کی چھت، قرض کی ادائیگی۔ لیکن جب شاہراہ بند ہوتی ہے تو یہ خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ کسان کی آنکھوں کے سامنے لاکھوں کا نقصان ہو جاتا ہے اور وہ بے بسی کے ساتھ صرف ایک سوال کرتا ہے،’’کیا میری محنت اتنی بے وقعت ہے؟‘‘
یہ کوئی نئی کہانی نہیں، دہائیوں سے ہم سنتے آئے ہیں کہ حکومت شاہراہ کو ’’آل ویدر روڈ‘‘ بنائے گی، جدید ٹنلز تعمیر ہوں گے، متبادل راستے کھلیں گے۔ لیکن یہ وعدے ہر موسم کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ منصوبے بنتے ہیں، فیتے کاٹے جاتے ہیں، مگر زمینی حقیقت وہی کی وہی رہتی ہے۔
ایک کسان نے کہا،’’یہ ہمارے کرتوتوں کی سزا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی روڈ بہت عرصہ بند رہتا تھا مگر مال اتنا خراب نہیں ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگوں پر تلوار سے وار کیا اور دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔‘‘یہ جملہ صرف ایک کسان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ اگر سڑک کا قصور ہے تو ہمارا بھی تو قصور ہے کہ ہم نے اس پر آنکھیں بند کر کے انحصار کیا، ہم نے کبھی متبادل نظام نہیں بنایا، ہم نے کبھی اپنی محنت کی حفاظت کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔تو پھر کیا واقعی سڑک ہماری معیشت کی رگِ جاں ہے؟ یا پھر یہ رگِ گلا بن چکی ہے جو ہر سال ہمارے گلے پر کٹار رکھ دیتی ہے؟
کشمیر کے سیب کو بچانے کے لیے صرف حکومت کے وعدے کافی نہیں، بلکہ ہمیں بھی اپنی غلطیوں پر غور کرنا ہوگا۔ کچھ برسوں سے ایک نیا رجحان بڑھا ہے،رنگ دوا ( Artificial Colors ) کا استعمال۔ بازار میں کشمیری سیب کا اصل حسن اس کی قدرتی تازگی اور ذائقے میں ہے، لیکن تاجر اور کاشتکار جلدی منڈیوں میں دام بڑھانے کے لیے رنگ دوا چھڑکنے لگے۔ بظاہر یہ دوا سیب کو سرخ و شفاف دکھاتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک زہر ہے۔صارفین کی صحت کے لیے نقصان دہ۔ سیب کے ذائقے کو بگاڑنے والی اورعالمی منڈی میں کشمیری سیب کی ساکھ خراب کرنے والی۔کسان یہ سمجھتے ہیں کہ رنگ دوا سے خریدار متاثر ہوگا اور نرخ اچھے ملیں گے۔ لیکن اصل میں یہ وہی دھوکہ ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی نعمتیں ہم سے چھن رہی ہیں۔
ایک کسان نے بالکل سچ کہا،’’رنگ دوا کا سزا ہے یہ۔ کیونکہ رنگ دوا سے فروٹ کو لوگ دکھاوے میں تو پسند کرتے ہیں، مگر یہ صحت کے لیے مضر ہے۔ اللہ پاک پھر ہمیں یہی سزا دیتے ہیں۔‘‘یہ سزا صرف بندش یا نقصان کی صورت میں نہیں آتی بلکہ اعتماد کے زوال کی صورت میں بھی آتی ہے۔ خریدار جب جانتا ہے کہ کشمیری سیب پر مصنوعی رنگ چڑھایا گیا ہے تو وہ منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ زوال ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے خریدا۔ہمارے بازاروں میں ایک اور بدعت عام ہے،پردے کے پیچھے ریٹ لگانا۔ کاشتکار اور خریدار ایک کونے میں بیٹھ کر، چادر یا رومال کے اندر ہاتھ رکھ کر سودا طے کرتے ہیں۔ یہ انداز صدیوں پرانا ہو سکتا ہے، لیکن آج کے دور میں یہ غیر شفافیت اور بددیانتی کی علامت بن چکا ہے۔اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ سودا کھلے عام کرو، قیمت صاف صاف بتاؤ تاکہ نہ کوئی دھوکہ کھائے اور نہ کوئی جھوٹ بولے۔ مگر جب ہم نرخ پردے کے پیچھے طے کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے،کیا ایسا کاروبار واقعی اللہ کو راضی کر سکتا ہے؟
ایک تاجر نے باتوں باتوں میں کہا،’’رومال کے اندر جو کاروبار ہوتا ہے وہ کہاں صحیح ہو سکتا ہے۔ اگر کاروبار کرنا ہے تو کھل کے کرو ،جس میں اللہ بھی خوش، بندے بھی خوش۔ یہی ہمارا دین ہے کہ سب کے سامنے ریٹ کرو، پردے کے پیچھے نہیں۔‘‘
کشمیر کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کاشتکار اور تاجر اکثر قلیل المدتی سوچ کے شکار ہیں۔ کوئی بڑا مربوط نظام نہیں، کوئی مضبوط کوآپریٹو نہیں۔ ہر کسان اپنی چھوٹی سی زمین پر الگ الگ محنت کرتا ہے اور جب مال تیار ہوتا ہے تو منڈیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔نتیجہ؟ خریدار نرخ طے کرتا ہے، کسان مجبور ہو کر مانتا ہے۔ بڑے تاجر منڈی پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کسان کا مال یا تو سستا بک جاتا ہے یا شاہراہ پر سڑ جاتا ہے۔
اگر ہمارے پاس جدید اسٹوریج، کولڈ چین اور براہِ راست مارکیٹنگ کے نظام ہوتے تو شاید ہم شاہراہ کی بندش کا اتنا نقصان نہ سہتے۔ مگر ہم نے خود کبھی اجتماعی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہم نے اپنی محنت کو بیچنے کے لیے صرف ایک ہی راستے پر انحصار کیا اور یہ وہی راستہ ہے جو بار بار ہمیں دھوکہ دیتا ہے۔
ایک اور کسان نے دل کی بات یوں کہی،’’یہ ہمیں اپنی ہی کرتوتوں کی سزا ہے۔ بہرحال اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔‘‘یہ الفاظ ان دلوں کے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ٹرکوں میں سڑتے سیب دیکھے ہیں۔ یہ الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل مسئلہ صرف سڑک نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔شاہراہ بند ہے، مگر اصل بندش ہمارے ضمیر کی ہے۔ اگر ہم نے اپنی تجارت میں سچائی اور شفافیت کو جگہ نہ دی تو یہ سیب ہر سال سڑتے رہیں گے اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
کشمیر کے سیب کا بحران صرف ایک تجارتی یا سڑک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی اخلاقی بحران ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کی طرف پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں صاف جواب ملتا ہے۔تجارت تبھی بابرکت ہوتی ہے جب اس میں سچائی، دیانت اور شفافیت شامل ہو۔
ہمارے نبی کریمؐ نے فرمایا:’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘لیکن ہم نے اپنی تجارت میں کیا کیا؟
ہم نے ریٹ چھپائے،ہم نے رنگ دوا ڈال کر خریدار کو دھوکہ دیا،ہم نے غریب کسان کو منڈی کے بڑے تاجر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا،ہم نے اجتماعی نظام کو کمزور کیا۔یہ سب کچھ اسلام کی اصل روح کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ برکت کم ہو گئی ہے، نعمتیں برباد ہو رہی ہیں اور ہم ہر سال وہی نقصان دہ دائرہ دہراتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں یہ سزا ہے اور سچ یہ ہے کہ یہ سزا ہی ہے، لیکن اس سزا کے اندر ایک بڑا سبق بھی چھپا ہے۔سڑک بند ہونا ایک حادثہ ہے، لیکن بار بار بند ہونا ایک اشارہ ہے۔سیب سڑنا ایک نقصان ہے، لیکن بار بار سڑنا ایک تنبیہ ہے۔کسان کا رونا محض جذبات نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کو اپنی کوتاہیاں نظر آنی چاہئیں۔
کبھی سوچا ہے کہ یہ سیب، جو زمین سے اُگتا ہے، ہماری سچائی یا بددیانتی کا گواہ بھی ہے؟ اگر ہم اسے دیانت سے اُگائیں، محفوظ کریں اور بیچیں تو یہ ہمارے لیے ذریعۂ برکت ہے۔ لیکن اگر ہم اس کے ساتھ دھوکہ کریں تو یہ اللہ کے غضب کی علامت بن جاتا ہے۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہی سیب جو کبھی ہمارے لیے روزگار، خوشحالی اور پہچان کا ذریعہ تھا، آج ہماری کوتاہیوں کی سزا اور ہماری بددیانتی کا آئینہ بن گیا ہے؟
حل کہاں ہے؟سڑک بہتر ہو، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔بازار شفاف ہو، یہ تاجروں کی ذمہ داری ہے۔محصول محفوظ ہو، یہ کسان کی ذمہ داری ہے۔نظام مضبوط ہو، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم رنگ دوا کا استعمال ترک کریں۔پردے کے پیچھے سودے کی بجائے کھلے عام ریٹ لگائیں۔کوآپریٹوز اور مشترکہ نظام کو فروغ دیں۔جدید کولڈ اسٹوریج اور مارکیٹنگ چینل قائم کریں۔تجارت میں دیانت اور سچائی کو دوبارہ زندہ کریں۔یہ سب مل کر ہی ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
آخری بات: ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ کی نعمتیں کبھی یوں ضائع نہیں ہوتیں جب تک ہم خود ان کے ساتھ ناانصافی نہ کریں۔ سڑک کی بندش وقتی ہے، مگر دلوں کی بندش مستقل ہے۔ اگر ہم نے اپنے کاروبار میں سچائی، دیانت اور شفافیت کو جگہ نہ دی تو نہ شاہراہ کبھی کھلے گی نہ نصیب۔ یہ برباد ہوتے سیب دراصل ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم توبہ کے ساتھ اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں،ورنہ آنے والے موسم بھی ہمارے لیے ثمر آور نہیں بلکہ سزا آور ہوں گے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]