میم دانش
جموں و کشمیر کا سیاسی منظرنامہ مسلسل تغیر پذیر رہا ہے خاص طور پر اگست۲۰۱۹ء کے بعد۔ سابقہ ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں منظم کئے جانے کے بعد یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنی پڑی، جس کے نتیجے میں ان کے موقف میں اکثر حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جیسے جیسے یہ خطہ اپنے سیاسی سفر کے نئے مرحلوں کی طرف بڑھ رہا ہے موجودہ حرکیات اور ممکنہ مستقبل کے منظرناموں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے ہی یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اپنے گریبانوں میں جھانکنا شروع کیا اور نئی سیاسی حقیقت میں اپنی جگہ بنانے کے لئے جدوجہد کر نے لگیں۔ ابتدامیں ان جماعتوں نے اجتماعی غم و غصے کا اظہار کیا اور خصوصی درجے کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کی حکمت عملیوں میں نمایاں تبدیلی آئی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس نے ابتدا میں خصوصی درجے کی منسوخی کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا لہجہ بھی نرم ہونے لگا۔ وہ اب بھی خصوصی درجے کی بحالی کی وکالت کرتے ہیں لیکن جمہوری عمل میں حصہ لینے کی شروع سے ہی خواہش رکھتے تھے بشمول نئے آئینی فریم ورک کے تحت انتخابات میں حصہ لینااور اسی فریم ورک کے تحت آج وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش ایک عملی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے تاکہ سیاسی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے اور عوامی جذبات کا بھی خیال رکھا جا سکے۔
دوسری جانب مزاحمت سے نظر ثانی تک محبوبہ مفتی کی قیادت میںپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی خصوصی درجے کی منسوخی کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والی جماعت تھی، یہاں تک کہ ابتداسے ہی مرکزی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم جب سیاسی تنہائی سے اس کی بقا کو خطرہ لاحق ہونے لگا ا تو انہوں نے بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا شروع کر دیا اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف مزاحمتی لہجہ برقرار رکھتے ہوئے محدود سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے لگے ۔اسی دوران الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی نے خود کو ایک اعتدال پسند اور ترقی پر مبنی متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہالیکن انتخابات کے دوران لوگوں کا ان کی طرف رجحان دھیما پڑ گیا ۔نیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی کے برعکس اس نے خصوصی درجے کی حقیقت کو قبول کر لیا اور نئے فریم ورک کے اندر کام کرنے کا ارادہ کر لیا جس میں متنازعہ سیاسی مسائل کے بجائے اقتصادی ترقی اور گورننس پر توجہ مرکوز کی گئی ۔
کشمیر کی سیاست کا سب سے غیر متوقع پہلو یہاں کے سیاسی دھارے کے رہنماؤں کے موقف میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ اگرچہ کئی جماعتوں نے ابتدامیں نئے اسٹیٹس کو کو مسترد کر دیا تھالیکن اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مکمل سیاسی لاتعلقی ان کے حاشیہ پر چلے جانے کا باعث بن سکتی ہے، انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے پراپنی رضامندی ظاہر کیں۔ وہ رہنما جو کبھی مرکزی حکومت کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے، اب اس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہونے لگے، یہ سمجھتے ہوئے کہ سیاسی بقا کا انحصار تصادم کے بجائے تعاون پر ہے۔ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (PAGD) کا قیام جو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کرتا تھا، پہلے پہل امید افزا نظر آ رہا تھا تاہم اندرونی اختلافات اور ہم آہنگ حکمت عملی کی کمی نے اس کے اثر کو کمزور کر دیا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں و کشمیر خاص کر جموں خطے میں، جہاں سے انہیںمضبوط حمایت حاصل ہوئی، نمایاں پیش رفت کی۔ اپنی زبردست حکمت عملی سے انہوں نے نچلی سطح پر سیاسی موجودگی کو مستحکم کیا ،مقامی اداروں اور ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کے ذریعے نئی قیادت کو فروغ دیا، روایتی علاقائی جماعتوں کو کمزور کر کے نئی متبادل جماعتوںکی حوصلہ افزائی کی، پرانے رہنماؤں کو پیچھے چھوڑ کر نئے چہروں کو سامنے لایا اور بڑی جماعتوں سے منحرف رہنماؤں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی جموں میں مضبوط ہے، وہ وادی میں بھی اپنا دائرہ کاروسیع کر چکی ہے۔بی جے پی کئی مقامی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ اتحاد بنانے میں کامیاب رہی ہے اورایسا دکھائی دے رہا ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب جموں و کشمیر کی سیاست میںبھارتیہ جنتا پارٹی ایک بڑے کھلاڑی کے طور اُبھر کر سامنے آسکتی ہے۔ روایتی جماعتوں سے عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کے پیش نظرایک نئی سیاسی وجود کے ابھرنے کی گنجائش موجود ہے جو ممکنہ طور پر نوجوان اور متحرک قیادت کے تحت ہو سکتی ہے اور جو کشمیری لوگوں خاص کرنوجوانوں کی اُمنگوں سے ہم آہنگ ہو۔سابقہ تجربہ کار اور نامور سیاسی لیڈر غلام نبی آزاد کی قیادت میں ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی سیاسی منظرنامے سے ایک دم سے اوجھل ہوگئی۔ آزاد جو ایک تجربہ کار کانگریس رہنما رہے ہیں، نے خود کو درمیانی راہ کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنا چاہا لیکن وہ اپنے سیاسی کیرئیر کو بچانے میں ناکام رہے۔ اگرچہ خصوصی درجے کی منسوخی اب بھی ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن یہاں کی سیاسی جماعتیں ممکنہ طور پر گورننس، روزگار اور ترقی کو ترجیح دیں گی، بجائے اس کے کہ وہ خصوصی درجے کی محض بحالی کے وعدوں پر انحصار کریں۔
اسمبلی انتخابات ۲۰۲۴ءمیں عمر عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی زبردست کامیابی کے بعد سے ہی ان کے مثبت اور منفی رویے اور اقدامات دیکھنے کو ملے۔اگرچہ نیشنل کانفرنس حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور ریاستی درجے کو بحال کرنے کے لئے سرگرم کوششیں کیںاور اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اسمبلی میں قراردادیں منظور بھی کی گئیں جن میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس خطے کی نیم خودمختاری اور ریاستی حیثیت بحال کرے۔ لیکن ابھی تک انہیں ان اقدامات کا کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔جموں و کشمیر کے ایک یونین ٹیریٹری ہونے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس کے اختیارات محدود ہیں۔ یوٹی کے اہم فیصلے، خاص طور پر سیکورٹی اور پالیسی سازی اب بھی مرکزی حکومت کے اختیار میں ہیں۔اگر مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی جزوی خودمختاری کی بحالی کے مطالبات کو مسترد کر دیا تو یہ سخت مؤقف نیشنل کانفرنس کی خصوصی حیثیت اور ریاستی درجے کو بحال کرنے کی کوششوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا اور عوامی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمااس حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ کشمیر پر زیادہ توجہ دے رہیں ہے اور جموں خطے کو مناسب نمائندگی اور ترقی نہیں ملتی۔ اس طرح کی شکایات علاقائی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتی ہیں اور مساوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔چند روز قبل سالانہ بجٹ کا میزانیہ پیش کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس حکومت نے لوگوں کو لبھانے کی بھر پور کوشش کی تاہم عام شہریوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کوشش کے ردِ عمل میں کئی سارے تاثرات پیش کئے۔ بجٹ سیشن ختم ہوتے ہی لوگوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے جارحانہ تاثرات دینے شروع کئے جس سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ جموں و کشمیر کی عوام حقیقت میں ایک مثبت اورمعتبر متبادل کی تلاش میں ہیں۔
جموں و کشمیر کی سیاست کا مستقبل غیر یقینی ہے اوریہاں کے سیاسی رہنما بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو غیر متوقع طریقوں سے ڈھال رہے ہیں۔ اگرچہ کشمیر کی تاریخ میں سیاسی تغیرات ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن موجودہ منظرنامہ چیلنجز اور مواقع دونوں پیش کرتا ہے۔ اصل امتحان یہ ہے کہ آیا رہنما عوام کی خواہشات کے مطابق ڈھلتے ہیں یا نئی سیاسی حقیقت میں اپنی بقا کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ یہ خطہ اپنے جمہوری سفر کے ایک نئے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا مستقبل اس کے عوام اور ان کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوگا۔
[email protected]