گزشتہ ہفتے کے دوران جو واقعات رونما ہوئے اور جو خبریں اخبارات کی زینت بنیں وہ نہ صرف کشمیر کے موجودہ حالات کے سنگین رخ کی ہیبت ناک تصویر سامنے لارہے ہیں بلکہ ان کے پس پردہ تضادات حساس ذہنوں پر تیشے چلارہے ہیں ۔کم از کم دس غیر کشمیری جنگجو کئی معرکوں میں مارے گئے ۔حاجن میں چھ غیر کشمیری جنگجوؤں کے جاں بحق ہونے کے بعد فورسز نے لشکر طیبہ کی قیادت کا خاتمہ کئے جانے کا دعوی کردیا ۔ حاجن میں چار روز تک ان جنگجوؤں کی یاد میں ہڑتال کی گئی اورجھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سرینگر کے مضافاتی علاقہ زکورہ میں ہوئے تصادم کے دوران مغیث میر کے مارے جانے کے بعد ان کی نماز جنازہ میںحکومت کی طرف سے زبردست پابندیوں کے باوجود لوگوں کی بھاری تعداد اُمڈ آئی تھی ۔اس روز کوئی سبز پرچم کسی کے ہاتھ میں نہیں تھا ۔ زبانوں پر آزادی اور اسلام کے نعرے تھے اور ہاتھوں میں داعش کے کالے پرچم ۔خود مغیث کو اسی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کردیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ مغیث کی ہی یہ خواہش تھی کہ اسے اسی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے ۔
حالانکہ داعش کا کشمیر کی جدوجہد کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں، اس کا تو ایک عالمی ایجنڈا ہے جس پر وہ عالمی سطح پر عمل پیرا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بزرگ مزاحمتی قاید سید علی شاہ گیلانی نے مغیث کو زبردست خراج عقیدت ادا کیا ۔ پولیس کے سربراہ ، فوج کے سربراہ اور وزیر داخلہ نے ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار اس بات کو دہرایا کہ کشمیر میں داعش کا کوئی عملی وجود نہیں ۔ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کو بھی اس بات کی مکرروضاحت کرنا پڑی کہ کشمیر کی جدوجہد مقامی جدوجہد ہے اور اس کا کسی عالمی تنظیم یا عالمی ایجنڈے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
داعش کے جھنڈوں کا معاملہ ابھی زیر بحث ہی تھا کہ ترال میں ایک سترہ سالہ جنگجوعادل چوپان فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران جا ں بحق ہوا ۔ اس کی نماز جنازہ کے دوران بھی لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا اور وسیع علاقہ ماتم کدہ بن گیا ۔عادل کے ساتھیوں نے نمازِ جنازہ کے موقعہ پر ہوا میں گولیاں چلا کر اس کو سلامی پیش کی۔ اس دوران لوگوں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں بھی آنسووں کی جھڑی تھی ۔ اسی دوران پولیس کا یہ دعوی سامنے آیا کہ ایک بیس سالہ نوجوان والدین کی اپیل پر جنگجویت کو خیر باد کہہ کر گھر لوٹ آیا ہے۔ جو فٹ بال کھلاڑی عسکریت کو خیر باد کہہ کر گھر لوٹ آیا تھااس کی عمر بھی بیس سال ہے ۔ حاجن میں لشکر طیبہ نصف درجن جنگجوؤں کی یاد میں مظاہروں اور ہڑتال کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ میٹرک کا امتحان دینے والے طالب علم امتحانی ہال سے باہر آتے ہی پولیس پر پتھراو میں کرنے لگے ۔ایسے حالات میں حکومت ہند کے مذاکرات کار نے 26 نومبر کو اننت ناگ اور پلوامہ جانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں وہ عام لوگوں، جنہیں وہ مسئلہ کشمیر کے فریق قرار دے رہے ہیں ، کے ساتھ بات چیت کرسکیں ۔
یہ سب بظاہر ایک دوسرے سے مختلف واقعات ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے ۔ اس سے پہلے کہ ان واقعات کا جائزہ لیا جائے فورسز کے اس دعویٰ کو زیر غور لانا ضروری ہے کہ کشمیر میں رواں سال کے دوران جو 190 جنگجو جاں بحق ہوئے ان میں 110 غیر ملکی(یعنی پاکستانی) تھے ۔ فورسز کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جب پوچھا گیا کہ اب کشمیر میں جنگجووں کی کتنی تعداد باقی ہے تو جواب ملا کہ 200کے قریب ۔ یہاں یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ گزشتہ سال بھی کشمیر میں سرگرم جنگجووں کی تعداد 200 بتائی گئی تھی. اگر190رواں برس کے گیارہ ماہ کے دوران مارے گئے تو باقی 10بچتے ہیں !
اگر فورسز سے پوچھا جائے کہ190 کو مارنے کے بعد بھی 200 کیسے باقی ہیں تو جواب ہوگا کہ دراندازی تو جاری ہے اوراس کے ساتھ ہی مقامی نوجوان بھی بھرتی ہورہے ہیں۔اس جواب کے یعد وزیر داخلہ کے اس دعوے کی حیثیت کیارہ جاتی ہے کہ جنگجووں کیخلاف آپریشن آل آوٹ کامیابی سے جاری ہے اور وادی میں امن جلد ہی لوٹ آئے گا ۔یہ سچ ہے کہ جنگجوؤں کیخلاف آپریشن میں فورسز کو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور جنگجوؤں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے، لیکن جنگجوؤں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی تو یہ کیسی کامیابی ؟
اگر فورسز جنگجوؤں کو مارتے رہیں گے اور جنگجوبھی پیدا ہوتے رہیںگے تو یہ سلسلہ ہمیشہ ہی چلتا رہے گا اور اس سلسلے کے جاری رہتے ہوئے مذاکرات کار کہاں سر ٹکراتا پھرے گا۔
اقتدار اور سکیورٹی ایجنسیزکو غالباً اس بات کا احساس ہے اسی لئے ’’ گھر واپسی ‘‘ کی بھرپور مہم بھی ساتھ ساتھ شروع کردی گئی ہے تاکہ جنگجوؤں کی’’ پیدائش‘‘ پر روک لگائی جاسکے۔ لیکن اب تک جو اِکا دُکا جنگجو لوٹ کے گھر آئے وہ کم عمر بچے ہیں ۔ترال میں جاں بحق ہونے والاعادل چوپان تو سترہ سال کا بچہ تھا ۔یہ بچے کیوں کرکٹ کھیلنے ، باغوں میں اودہم مچانے اور دوستوں کی محفلیں سجانے کے بجائے بندوق اٹھانے کا خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں ۔کیا بندوق کا گلیمر انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کرتا ہے ؟ ۔ اگر یہی سچ ہے تو حاجن میں دسویں کا امتحان دیکر ہال سے نکلنے والے بچے گھر جانے کے بجائے پولیس پر پتھر پھینکنے میں کیوں مشغول ہوتے ہیں، اس میں کونسا گلیمر ہے ۔
کیا یہ نفرت کے اس لاوے کا نتیجہ ہے جو نسلوں سے جینز میں منتقل ہوچکی ہے ۔ اگر یہی سچ ہے تو ’’ گھر واپسی ‘‘ کی مہم کس طرح سے جنگجوؤںکی پیدائش پر روک لگانے کا باعث ہوسکے گی ۔ اس کے لئے تو اس لاوے کوباہر نکالنے کی تدبیر پر ہی فوکس کرنا امن واپس لانے کا ایک واحد راستہ ہوسکتا ہے ۔یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ عسکری تنظیموں کیلئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ نابالغ بچوںکے ہاتھوں میں بندوق تھمایا جارہا ہے ۔
پیغمبر اسلام دﷺ نے اس بچے کو جنگ میں حصہ لینے کی قطعی اجازت نہیں دی جو پیروں کی انگلیوں پر کھڑا ہوکر خو د کوبالغ ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔مزاحمتی تحریک اگر ایک سنجیدہ تحریک ہے تو عسکری صفوں میں بچوں کی موجودگی قطعاً اس کے مفاد میںنہیں۔ ایسا ہوا تو حکومت کو اس تحریک کو بچوں کی تحریک ثابت کرنے میں مدد ملے گی ۔یہ رحجان بیرونی دنیا میں تحریک پر بڑے ہی مضر اثرات بھی پیدا کرے گی کیونکہ انسانی حقوق کی عالمی تحریکوں کیلئے بھی یہ پسندیدہ صورتحال نہیں ہوگی ۔اور عسکری و مزاحمتی تحریک کیلئے داعش کے جھنڈے بھی تباہ کن اثرات مرتب کرسکتے ہیں ۔یہ بات طے ہے کہ کشمیر میں داعش کا کوئی وجود نہیں ۔داعش کے جھنڈے محض غم و غصے کی انتہا کو ثابت کرنے کی کوشش ہی ہے ۔اصل مسئلہ یہی غم و غصہ ہے اوراس غم و غصے کوکم کرنے کی کوشش میں جہاں حکومت دانستہ یا نادانستہ طور اس میں اضافہ ہی کررہی ہے وہیں مزاحمتی محاذ اس غم و غصے کا رُخ صحیح سمت میں پھیرنے کے بجائے اس میں نئے تضادات کا اضافہ کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔
محاذ آرائی برائے محاذ آرائی قوموں کو تباہی کے سوا اورکچھ نہیں دے پائی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے البتہ بامقصد محاذ آرائی جو صاف ستھری اور ہر تضاد سے پاک ہو یقینی طور پر کامیابیوں کی منزل حاصل کرسکتی ہے ۔یہ قوم جس نے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے اندھیروں میں بھٹکنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے ۔مزاحمتی قیادت کو عوام کی نمایندگی کا دعوی ہے اس لئے اس پر زیادہ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔اسے عوام کے مفادات کو ہر مرحلے پر اور ہر معاملے میں پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ اکثر بار وہ اس بات کو فراموش کرتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابیوں کے مرحلے طے کرنے کے بعد کامیابیوں کا سفر طے نہیں ہوتا ۔ اس طرح سے جوں کی توں پوزیشن قائم رہتی ہے ۔ حکومت ہند بھی جوں کی توں پوزیشن قائم رکھ رہی ہے ۔یہ جوں کی توں پوزیشن جہاں حکومت ہندکیلئے نئے مسائل پیدا کررہی ہے وہیں پر مزاحمتی قیادت کیلئے بھی مشکلات کے سفر کا آغازکررہی ہے ۔یہ جوں کی تو پوزیشن نہ عسکریت کیخلاف کسی مہم سے ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ’’ گھر واپسی ‘‘ کی مہم سے اور نہ مذاکرات کار کے تقرر سے ۔اس کے لئے کشمیر کے عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اعتماد پیدا کرنے کیلئے دلوں کے دروازے کھول دینا لازم ہے ۔حکومت ہند نے ماضی میں کبھی ایسا نہیں کیا، لیکن اب ضرورت ہے کہ حکومت غم و غصے کی اس گہرائی کو آنکنے کی کوشش کرے تاکہ اس کا موثر علاج ڈھونڈ ا جائے۔ مزاحمتی قیادت کو بھی دُور اندیشی کا ثبوت دینا ہوگا اور جوں کی توں صورتحال کو دوام بخشنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘