یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کسی فرد یاسماج کے اندرجب خودشناسی اورعرفانِ ذات کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے تواسے پھرہنگامہ ہائے روزگار ہمیشہ بیدار ہی رکھتے ہیںاور یہ بیداری ہر فرد بشر کی چھپی ہوئی طاقتوں اور صلاحیتوں کے سفرکاپتہ دیتی ہے اور دکھاتی کہ کس طرح بے بسی سے توانائی ،غفلت سے بیداری،پربریدگی سے بلندپروازی، اورغلامی سے آزادی کی طرف مراجعت ہوتی ہے اور کس عنوان سے موت جیسی زندگی میں بیداری ٔ قلب و نظر کی بدولت فرد یاسماج ایک باوقاراورباعزت زندگی جینے کاانقلاب آفرین استحقاق پاتا ہے اور چشم زدن میں اپنے بنیادی حق کامطالبہ منوانے کے لئے جست واحدمیںاساسِ خاک سے اُڑکررفعت افلاک تک پہنچ جاتاہے ۔ کشمیریوں کی طویل اور کشمکش پر یہ تاریخی حقیقت من وعن صادق آتی ہے اورعلی وجہ البصیرۃ بتاتی ہے کہ کشمیر یوں کی جیت نوشتہ ٔ دیوار ہے کیونکہ یہ وہ قوم ہے جو کسی بھی سخت ترین موقع پراضطراب ِطبع کااظہارنہ کر تے ہوئے لاکھوں فوج کے سامنے پورے قد کے ساتھ مقاومت ومزاحمت پرکمربستہ رہی۔ اب چلتے چلتے اس وقت حالت یہ بنی ہے کہ کشمیر کی نژادِ نو افسپا کی حمایت یافتہ فوج کے خلاف اپنا غم وغصہ ظاہر کر رہی ہے ۔ اب بے تکان بیٹوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کی بیٹیاں بھی سیاسی بیداری کی تحریک میں اپنا حصہ ادا کررہی ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ خواتین ِکشمیر نے روزِاول سے اہل کشمیر کی سیاسی منزل مراد کے حصول کاخواب حقیقت میں بدلنے کی خاطر عوامی تحریک کے ساتھ اپنی بے پناہ وفائیںنبھائیں، اپنا ایثار دکھایا ،اپنی پامردی کا مظاہرہ کیااورا س وقت کشمیرکی بہادر،نڈراوردلیربیٹیاں اپنے خلاف کثیرالجہت فوجی مظالم کامقابلہ کر رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وردی پوشوں نے ان کے والدین اور بھائیوں کوان کی آنکھوں کے سامنے مقتل ِکشمیرمیں ذبح کیا،ان کے عزیزوں کوقتل کیا،ان کے گھراجاڑ دئے،ا نہیں زندان خانوں میں سڑادیا۔ اس بربریت نے ان بیٹیوں کو خوفزدہ کرنے اوربزدل بنانے کے بجائے ایسا بہادر، نڈراوردلیر بیٹیاں بنادیا ہے کہ اپنے بھائیوں کے خون کاحساب لینے پروہ کمربستہ ہوئی ہیں اور کشمیرکاز کے لئے اپنے بھائیوں کے دوش بدوش برابر برسرجدوجہد ہیں۔
کشمیرکاز عمرکے اعتبارسے سبعین میںہے ،اس دوران اس تحریک میں فکروعمل کے بہت سے نشیب وفراز نمودارہوتے رہے ہیںاوراسے اپنی راہ پیمائیوں کے نقوش جابجا اپنی قربانیاں دے کر بنانے پڑے۔دلی نے ان نقوش کومٹانے کی پیہم کوشش کی لیکن یہ نقوش اس جبر واکراہ سے مٹنے کے بجائے اور مضبوط ہوتے چلے گئے ۔یہاں تک کہ سرفروشانِ کشمیرنے اس تحریک کواپنی اس نسل میں منتقل کیاکہ جونہ توراہ کی مشکلوں اوررکاوٹوں سے ناآشناہے اورنہ ہی اپنی ذمہ داریوںاورجستجوئوںسے بے خبر۔دلی کاظلم وستم ،وردی پوشوںکی بربریت اورسیاست دانوں کامکروفریب قدم قدم پرنوجوانان کشمیرکے دامن عزم وہمت سے اُلجھتارہاجب کہ زمانے کااستبداداپنے سارے جان لیوا موانع کے ساتھ بار باران کا سدراہ بننے کی کوشش کرتارہا مگر کشمیری عوام ان سے بے پرواہ ہوکر برق رفتاری اور عزم جواں کے ساتھ منزل مقصودکی جانب گامزن رہے۔ فرزندانِ کشمیر کے تاریخ ساز جدوجہد کے پیچھے ہمیشہ ایک یہی فکر و فلسفہ کار فرما رہا کہ کشمیر کے دینی تشخص کومسخ ہونے اور ارضِ کشمیر کواغیارکی چرا گاہ بننے سے بچایا جا سکے۔ اس عوامی تحریک نے ایسا جادوئی اثر دکھایا کہ یہ سرعت کے ساتھ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں ایسے پھیل گئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اہل کشمیر اس تحریک کو اپنے لئے نجات کا واحد ذریعہ سمجھ کر دل و جان سے اس کے ساتھ وفا نبھاتے رہے بلکہ سچ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لہو سے یہ قندیل ِعزیمت روشن رکھی ۔ ناقابل تردید سچ یہ بھی ہے کہ دلی نے جموں و کشمیر پر اپنی حاکمیت اور بالا دستی قائم رکھنے کے لئے اہل کشمیر کے خلاف کثیرالاثر شکنجے کسے مگر اس کے باوجود کشمیرکازکے تئیں ملت کشمیر کے تمو ج میں بے پناہ اضافہ ہوتارہا اور و ہ صر ف کشمیر کازکوہی اپنے اورآیندہ آنے والی اپنی نسلوں کےلئے کونجات وارتفاع کا واحدذریعہ سمجھتے ہیں۔ان کے وجود کے ہر مسام میں توپیں پیوستہ ہوئیں اور ان کی فصیل پر ہرجہت لہو ٹپک رہاہے لیکن اس کے باوجودوہ اپنے خاراشگاف ہاتھوں سے دشت و صحرا کو چیرتے جارہے ہیںجب کہ ان کے قدم خوف اور دہشت کے ہتھکنڈوں سے لرزتے نہیں، زباں میں لکنت نہیں، سوچیں اسیرنہیں، ذہن علیل نہیں۔ عوام کی تیز ترین اور شوریدہ سر لہروں کو دیکھ کردلّی اورجموںو کشمیر کی حکومتیں جہاں کشمیرکا زکے متوالوں کے عزائم توڑنے کی مل جل کر منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں، وہاں عوام کی سیاسی جدوجہد روز بروز قربانیوں کے بل پر تقویت پارہی ہے اوروادیٔ کشمیر میں سیاسی بیداری کی مستحکم لہر ہر دم صحیح سمت ِسفر پاتی رہی ہے ۔ 1990 میں جس پیمانے پر اہل کشمیر جاگ اٹھے کہ یکایک ایک انقلاب برپا ہوا،اس کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے بیس برس کے بعد,2008 ,2016,2010اور2017تک ایسے کئی مواقع آئے جب کشمیری قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ برس ہابرس تک ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ کسی صورت اپنا سیاسی مستقبل سے قطعاً کسی سمجھوتہ بازی کے لئے تیار نہیں اور مظالم کے تازیانوں کے باوجود وہ آج بھی اسی موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں جس پر وہ کل اس پر قائم و دائم تھے۔ ظلم و ستم کے برس ہابرس گزر جانے کے بعد ,2008 ,2016,2010 اور2017 کے مراحل میں اہالیان کشمیر نے پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ وہ بھارت سے خیرات یا بھیک نہیں مانگتے ،وہ ا پنا سلب شدہ سیاسی حق مانگتے ہیں ،ا پنے تشخص کے تحفّظ کے لئے آزادی مانگ رہے ہیں جس کا وعدہ بھارتی نیتائوں اور اقوامِ عالم کے سب سے بڑے فورم اقوامِ متحدہ نے ان کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ماضی کے واقعات اور حوادّث جہاں قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں وہیں ان سے سبق حاصل کرنا بھی زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ تاریخ میں درج شدہ واقعات صرف تاریخ کے صفحات پورا کر نے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ان سے سبق حاصل کر کے مستقبل کی پیش بندی کر نے کی تلقین مورخین اور وقائع نگاروں کا مقصود ِاصلی ہوتا ہے۔ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کی قیادت کرنے والے یہ امر بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں محاذ رائے شماری اورموئے مقدس کی تحریکوں کابالآخر انجام کیا گیاا۔اس تعلق سے یہ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے کہ حق و صداقت کے نعرے پر جاری ان دونوں تحریکوں پر ظالموں اور جفاکاروں نے مل کر شب خون مارا ، ان پر دن دھاڑے ڈاکہ ڈالا اورانہیںایسی سمت دی جس نے کشمیریوں کی قربانیوں کو اکارت کیا۔
بہر حال یہ بات ماننے اور تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں کہ اللہ بزرگ و برتر کے بعد کلہ خوانوں کے لئے اخوتِ اسلامی ایک مسلمہ حقیقت اور قوت ہوتی ہے۔ یہ جذبہ ٔ اخوت اور کلی توکل علی اللہ ہے کہ شدید آلام و مصائب میں پسے ہوئے کشمیری مسلمان ظلم وبربریت کی آندھیوںکے خلاف ایک متحدہ قوت بنے ہوئے ہیں اور حالات کی ناقابل بیان نامساعدت کے باوجود کشمیر میں ملّی وحدت اور سیاسی اشتراک عمل کا یہ فقید المثال مظاہرہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیری قوم اپنی آزادی اور اپنی ملّی شناخت پر مر مٹنے والے ہیں اورریاستی جبر وتشدد کے خلاف بیک آواز بنیان مرصوص کی طرح کھڑا ہونا ان کاسیاسی موقف ہے۔ ان کی ملّی وحدت نے ہمیشہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ ظلم و جبر اور سفاکی کے دباؤ میںاپنے کاز سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی ببانگ ِدہل دیا کہ کشمیر ی مسلمانوں کی قربانیوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کے حتمی اصولی اورتاریخی اور جغرافیائی پس منظر کے مطابق اس کے منصفانہ حل تک کشمیر کاز پر کمر بستہ رہنا ان کے لئے موت و حیات جیسامعاملہ بن چکا ہے۔تاریخ ایسی صدہا مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جس خطے کے عوام نے ظلم کے فیصلوں کورد کرتے ہوئے بیدار مغزی اور پختہ سیاسی شعور کا ثبوت فراہم کیا، اس کے عوام کو اغیار کی غلامی سے بالآخر نجات مل ہی گئی۔ اس تناظر میں یہ بات اظہر منَ الشمس ہے کہ کشمیری قوم آگہی اورجاگرتی کا پیکر بن کر اپنے مبنی برحق سیاسی موقف پر سختی کے ساتھ کار بند رہی ،اس لئے اسے دنیا کی کوئی بھی عسکری اور مادی طاقت اپنے پیدائشی حق سے محروم نہیں کر سکتی۔برہان وانی کے جان بحق ہونے کے بعدظلم وقہر کے خلاف متحدہ طوراحتجاج کی تصویربنے کشمیری عوام کے حوصلوں کو یقینا اس جانی قربانی سے تقویت مل گئی ہے ۔ اسے دیکھ کر اب اس امرپر کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ ملت ِکشمیر اپنے تمام شہداء کے ادھورے مشن کی تکمیل کر کے ہی رہیں گے۔ اگر چہ اس کے لیے مزید وقت ، جدّوجہد اور صبر و تحمل درکار ہے۔ اس دوران چشم فلک نے یہ بھی دیکھاکہ کشمیر میں بھارت کے یومیہ مزدور جیسے اقتدار نواز وں کو صاف دکھائی دے رہاہے کہ بار بار کشمیری مسلمانوں کو دھوکہ دینے، ان کے ساتھ مکرو فریب کا کھیل کھیلنے کے دن لد گئے ہیں کیونکہ اب ان تمام گورکھ دھندوں کے دروازے کشمیر میں بند ہو چکے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان حقائق کا بھر پور فہم وادراک رکھتے ہیں کہ ان کی بقاء کا راز کشمیر حل سے مشروط ہے۔ بہرصورت اسی پرمعاملہ ختم نہیں ہوسکتابلکہ انہیں جیو پولٹکل حقیقتوں سے لیس ہوکر اپنے سیاسی شعور کو مزید گہراکرنا ہوگا۔ انہیں ایسا مستحکم اور غیر جذباتی طرز عمل اختیار کرنا ہو گا جس سے یہ واضح ہو کہ وہ کسی مکروہ فریب کے جھانسے میں آنے والے نہیں۔ انہیں یاد رکھنا ہوگا کہکشمیر کے طالع آزمائوں کے ساتھ ساتھ دلی کے منصوبہ ساز ہمیشہ کی طرح آج بھی کشمیر کاز کی ناکامی کے لئے جال بُن رہے ہیں، نئے جال لائے پرانے شکاری کے مصداق وہ سر جوڑ کر کشمیر کی موجودہ عوامی جدوجہد کو مختلف طریقوں سے پارہ پارہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔
بہر حال برّصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر یوں کیخلاف سازش کرتے ہوئے انگریز اور دلی نے جان بوجھ کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور انہیں ایک بڑے کرب او رالم میں مبتلا کر ڈالا۔ آج جب اس خطّے کے ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں لیکن اہل کشمیر ابھی تک آزادی اور حریت فکر کی نعمت سے محروم ہیں۔ سیاسی حق مانگنے کی پاداش میں انہیں قتل کیا جا رہا ہے، ان کی املاک کو آگ لگا کر بھسم کیا جا رہا ہے اور ان کی اراضی پر دشمن قبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تا ہم اس کے باوجود اس قوم کے اصحاب عزیمت اور اربابِ ہمت سینہ تانے ظلم اور ظالمانہ اقدامات کا مقابلہ بے جگری سے کر رہی ہے اور کسی اُمت پر موت اور زیست کا مرحلہ آن پڑے تو یہ جواں مردی اور ہمت وتوکل ہی ہوتا ہے جو ایسی امت کی زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ بایں ہمہ ہم میں کچھ داخلی کمزوریاں بھی ہیں جن کو دور کر نے کے لئے افہام وتفہیم ،یکسوئی ویگانگت کشمیرکازکی کامیابی کاعملی اور فوری تقاضاہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری منتشرالخیالی کے باعث ماضی میں دشمن بہت ناجائز فائدہ اٹھا چکا ہے اور آج بھی وہ ہمیں اسی راستے پر دھکیلناچاہتاہے۔ لہٰذاکشمیرکاز پرایسے سنسنی خیز بیانات دیناکہ جن سے دل تنگ پڑیں اورپھرجواب الجواب کانہ تھمنے والاسلسلہ شروع ہوجائے، اس عمل سے گریز کرناازبس ضروری ہے ۔کوئی ایساایشوکھڑاہوجائے جس پربات کرنے کی ضرورت محسوس ہو تواخبارات پر ردعمل دکھانے کے بجائے اندرونی سطح پر معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ہی قولاسدیدسے میل کھاتا ہے ۔ ہمیں عقل کے دروازے مقفل نہیں کر نے ہیں بلکہ ایشوڈیسکس ہونے چاہیں اوراس سلسلے میں باہم دگرافہام وتفہیم کے جو چینل موجودہیںاورانہیں روبہ عمل لایاجاناچاہئے۔ میدان عمل کے سرفروش اس امرکواچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خوب کیاہے اورناخوب کیا ہے ۔ البتہ چوک ہوسکتی ہے، وہ بھی ہرگز فرشتے نہیں۔ہمارے ساتھ ہمیشہ سے ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہیں ،اسی خناس نے ہمیں ماضی میں بھی کئی بڑے نقصان سے دوچارکیاجن کے کازپر برے نتائج بد برآمدہوئے ۔ اب ہمیں ان فاش غلطیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے ۔
اہل کشمیر نے اس بات کونوٹ نہیں کیاکہ جوبات ہم نے اخبارات کے ذریعے کہہ دی ،یہ بات توپہلے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کہہ چکی ہیں ۔اب ہمارے اوران کے طریقے میں کیا فرق اور امتیازباقی رہاجب کہ ہمارے اورہندنوازٹولے کے بات کرنے کے طریقہ کارمیں بعدالمشرقین ہوناچاہئے کیوںکہ ان کانقطہ نظریہ ہوتاہے کہ ایسی بات کہی جائے کہ جسے تحریکی اراکین میں باہمی سرپٹھول شروع ہوجائے ۔اس کے برعکس ہماراطرزعمل ناصحانہ اور مدبرانہ ہوناچاہئے اورنصیحت اخبارات کے ذریعے سے نہیں ہوتی بلکہ سامنے آکر یا بیک چنل ذرائع سے کی جا سکتی ہے۔افہام وتفہیم کی مستقیم راہ کوچھوڑکراخبارات کے ذریعے سے آپس میں مخاطب ہوناہرگزکوئی دانشمندی نہیں۔اخبارات سے گریزکریں، اسی میں طاقت کا اصل رازموجزن ہے۔اپنوں سے اپنے طورپربات کی جاتی ہے ،ان کی دلیل سنی جاتی ہے، اگران کے پاس مضبوط دلیل اوردُرست براہین ہوں توان کافیصلہ یا مشورہ قبول کیاجاناچاہئے لیکن اگردلیل بودی ہے توانہیں اپنی باوزن دلیل اوربرہان سے قائل کرناچاہئے۔ اس نازک موقع پراحتیاط، تحمل اور فہم وادراک برتنے کی اشدضرورت ہے ۔اگر ہم صحیح معنوں میں اسلام اور کشمیرکازکے بہی خواہ ہیں تو پھر ہمیں کمالِ احتیاط کا مظاہرہ کرکے اہل کشمیر کو خواہ مخواہ مایوس نہیں کرناچاہئے اور نہ ہی انہیں ایک دوسرے سے بدظن نہیں ہونے دینا چاہیے۔کشمیرکازہم سب سے ایک ایسی پالیسی چاہتاہے کہ جسے ہم باہم شیروشکررہیںاوردوسری طرف فریق ثانی اپنی تمام چال بازیوں میں ناکام ہوجائے۔