قرآن کریم کی سورۂ حجرات میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘(حجرات:آیت ۱۰)
یہ آیت کریمہ ساری دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے اور نہ پائی جاتی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہ کثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔حضرت جریرؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔
’’ایک یہ کہ نماز قائم کروں
دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں
تیسرے یہ کہ ہرمسلمان کا خیر خواہ بنوں۔‘‘(صحیح بخاریؒ، کتاب الایمان)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرناکفر‘‘۔(سباب المسلم فسوق وقتالہ۔۔۔ صحیح بخاریؒ، کتاب الایمان)
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان ، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘(صحیح مسلمؒ، کتاب البروالصلۃ سنن ترمذیؒ)
حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد روایت کرتے ہیں:’’مومنوں کی مثال آپس میں محبت ، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاریؒ: ۶۰۱۲ صحیح مسلمؒ: ۶۷۵۱ مسند احمدؒ:۱۸۳۹۸)
شیخ عبدالرحمٰن سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت(متذکرہ بالا سورۂ حجرات کی آیت) میں ایک رشتہ اور ایک رابطہ قائم کیا گیا ہے جسے قائم کرنے والا خود اللہ ہے اور یہ رشتہ اہل ایمان کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ اللہ پر ایمان ، اس کے ملائکہ، کتابوں ، رسولوںؑ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی شخص چاہے مشرق و مغرب میں دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتا ہو، وہ اس ایمانی رابطے کی بنیاد پر دوسرے تمام اہل ِایمان کابھائی ہے۔اُس کے اور دیگر مومنوں کے درمیان ایسی اخوت پائی جاتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ سارے اہل ایمان اس سے محبت کریں اور اُتنی ہی محبت کریں جتنی کہ وہ اپنے آپ سے کرتے ہیں اور اس کے لیے ناپسندیدہ چیزیوں کو اسی طرح نا پسند کریں جیسے کہ وہ اُن چیزوں کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے حقیقی بہی خواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایمانی اخوت پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا:’’تم لوگ آپس میں حسد مت کرنا،دوسرے کی بولی پر بولی مت لگانا،ایک دوسرے سے بغض مت رکھنا، کسی کے سودے پر اپنا سودا مت بیچنا اور اے اللہ کے بندو!(جس طرح بھی ہوسکے)بھائی بھائی بن کر رہنا۔(جان رکھو) ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہوتاہے، وہ اس پر ظلم نہیں ڈھاتا، اسے بے سہارا نہیں چھوڑتا اور اس کی تحقیر نہیں کرتا۔‘‘نیزفرمایا:’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے بنیاد کی اینٹ کی طرح ہوتا ہے کہ(آپس میں جڑ کر) اس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر بھی دکھایا۔‘‘(تیسر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان:ص۸۰۰)
مسلمان تاریخ کے مختلف مراحل کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان نظر آتے رہے ہیں، جن سے دوسری قومیں اُن کے اوپر تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔آج استعمار مسلمان ممالک کے قلب میں اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے، اس کے لیے دہشت گردانہ طریق کار کو رائج کیا گیا ہے۔ اس نے تعصب و فرقہ کو ہوا دے کر مسلم ممالک کے معدنی ذرائع کو کھوکھلا کرنے اور متعدد ممالک کی جائیداد کو تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لیے نصب العین ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی او ررسول ہونے پر اعتقاد لازم ہے۔ قرآن جو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے اور جس صورت میں وہ امت کے درمیان موجود ہے، اس پر مکمل ایمان و اعتقاد لازم ہے۔ کعبہ کے قبلہ ہونے پر اور آخرت و قیامت پر ایمان و یقین لازم ہے۔جو شخص ان بنیادی عقائد پر ایمان نہ رکھتاہو، وہ دائرہ اسلام میں شامل نہیں ہے۔
اِستعمار کی ہمیشہ نامراد کوشش رہی ہے کہ دائرہ اسلام میں شامل مسلمانوں کے معروف و متواتر مکاتب فکر (مسالک) کے بارے میں ایک دوسرے کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتا رہے اور اسی راہ سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرے۔آج فلسطین ، کشمیر، برما، ہندوستان اور جہاں بھی مسلمانوں پر، مستضفین پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں، اہل کشمیر سمیت اُن تمام قوموں کی حمایت او ر ان سے ہمدردی مکتب امامیہ کا اعتقادی مسئلہ ہے ۔اس فرقہ کے لوگوں کا طرۂ امتیاز ہے کہ اصول دین اور قرآنی تعلیم کی رو سے وہ ایک انسان کا قتل ناحق تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بہرصورت تمام مسلمانوں کو استعماری اور جابر طاقتوں کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے، جو بے بنیاد الزامات اور تہمتوں کے ذریعے تفرقہ اور انتشارپیدا کرتے ہیںاور مسلمانوں کو مسلک ومشرب کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔کشمیر کے اوپر ہندوراجاؤں اور مسلم سلاطین کے ادوار میں بعض حریص وجاہ پسند طاقتوں کی للچائی نظریں مر کوز رہ چکی ہیں۔ ترکستانیوں ، پٹھانوں، مغلوں اور سکھوں نے اپنااقتدار قائم کرنے اور لوٹ کھسوٹ، غارت گری کے لیے یہاں ہمیشہ پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی ۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کی مختلف پارٹیوں ، حکومتوں نے یہی پالیسی اختیار کی، خوف و دہشت کی آڑ میںیہاں حکومت کرتے رہے، تاکہ مختلف بہانوں اور شوشوں کو ایجاد کرکے لوگوں کو لڑوا کر،پھر امن وامان کے بہانے اُن کے اندر مجبوری اور احسان مندی کا تاثر پید ا کرتے رہیں۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہمارے دشمن نے ہم میں اختلاف کی ’’بذر پاشی‘‘ کر کے ہمیں اس موذی بیماری میں مبتلا کیا اور اس طرح ہمیں کمزور بنانے کا کار ِ بد انجام دیاہے۔ ان دشمنوں نے ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کو اپنی کارکردگی کا سرنامہ قرار دیا ہے۔ جب کبھی انہوں نے فتنہ کی بذر پاشی کی اور آپسی اختلاف پیدا کیا، انہیں اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی ملی ہے اور جب کبھی بھی مسلمانوں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں نے ہوشیاری سے کام لیا اور دشمنوں کی چال سے آگہی حاصل کی اور اپنے آپسی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کی تو دشمنوں کو منہ کی ہی کھانی پڑی۔ حال ہی میںایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی الحسینی الخامنہ ای دام ظلہ العالی نے کہا ہے کہ مسلم دنیا کو نہ صرف کھل کر کشمیری عوام کی حمایت کرنی چاہیے۔کشمیر بڑے مسائل کا شکار ہیں اور یہ مسائل عالم اسلام کے جسم پر زخموں کی علامت ہیں۔
عیدالفطر کے مبارک موقع پر اپنے خطبے کے دوران ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنائی نے مسلم دنیا پر کشمیری عوام کی حمایت کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلم دنیا کو نہ صرف کھل کر کشمیری عوام کی حمایت کرنی چاہیے بلکہ ایسے ظالم لوگوں کو بھی مسترد کرنا چاہیے جو رمضان المبارک تک میں روزہ داروں پر خود کش حملے کرتے ہیں ۔سید علی خامنہ ای نے فلسطین میں جاری ظلم و ستم پر اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صیہونی مقاصد کے خلاف لڑنا مسلم دنیا پر فرض ہے حالانکہ کچھ مسلم ممالک نے بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے امریکہ کے اشاروں پر فلسطین مسئلہ پر اپنی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ فلسطین مسلم دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ لہٰذا اس کے حل کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔
رابطہ :بابا پورہ حبہ کدل سرینگر کشمیر
9858083333