پروین ساہنی بھارت کے معروف کالم نگار ہیں جو سیکورٹی کے مسائل پہ گہری نظر رکھتے ہیں ۔فوجی و سیاسی امور پہ اُن کے مقالوں کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔موصوف ـ’’فورس‘ ‘نامی میگزین کے ایڈیٹر ہیں اور اسی میگزین میں اُن کے مقالے متواتر شائع ہوتے رہتے ہیں۔عالمی مسائل خاص کر جنوب ایشائی سیکورٹی امور میں اُن کی نظر اور تجزیہ کو ایک ماہرانہ نظریہ کی اہمیت حاصل ہے ۔جنوب ایشائی سیکورٹی مسائل چین سے بھی جڑے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہند و پاک اور چین کے سیکورٹی مسائل ایک تکونی شکل اختیار کر چکے ہیں۔حال ہی میں پروین ساہنی کے مقالات’’ گریٹر کشمیر ‘‘میں بھی شائع ہونے لگے ہیں ۔ اسی ہفتے سوموار کے روز اُن کا ایک کالم’’گریٹر کشمیر‘‘ میں نظر آیا جس میں ہند و پاک و چین سے جڑے سیکورٹی مسائل کا ایک گہرا جائزہ لیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے جنوبی ایشیا و چین سے جڑے سیکورٹی مسائل کا مسلٔہ کشمیر سے گہرا ناطہ ہے ،اسی لئے اِس کالم نے وسیع سطح پہ توجہ کھینچ لی ۔اِ کالم کو اُردو قارئین تک پہنچانے کو ایک فریضہ سمجھتے ہوئے اُس کے ترجمے کو آپ حضرات کی نذرکیا جاتا ہے۔اس کالم کا عنواں (ٹائٹل): بدلتا ہوا منظرنامہ اور سب ٹائٹل ایک سوالیہ ہے:عسکریت میں پھیلاؤ کیوں؟
جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ شیش پال وید کا اظہار نظر وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات وزیر جتیندرا سنگھ جو کہ اودھم پور (جموں) کے ممبر پارلیمنٹ ہیں، سے عاقلانہ تر ہے۔ جتیندر سنگھ کا ماننا ہے کہ ’’ملی ٹنٹ (جنگجو) دباؤ کی وجہ سے بھاگ رہے ہیںاورمجھے یقین ہے کہ یہ ملی ٹنسی کا آخری دور ہے ‘‘ جب کہ ایس پی وید نے سیاسی اقدام کی تلقین کی ہے ۔اُن کا یہ ماننا ہے کہ کشمیر کے مسائل سیاسی ہیں۔ مسلٔہ داخلی بھی ہے اور خارجی بھی اور اول الذکرروز بہ روز ایک سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے چونکہ دونوں داخلی و خارجی مسائل جڑے ہوئے ہیں ، لہٰذا ملی ٹنسی کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہو گی ۔فوج جو کہ ملی ٹنسی سے لڑنے میں اُلجھی ہوئی ہے بیشتر اِس دلدل میں پھنستی جائی گی جس سے اُس کی جنگی صلاحتیں ایک ایسے وقت میں متاثر ہوں گی جب پاکستان خدشات کے بغیر ایک پراکسی ( یعنی سامنے آئے بغیر) جنگ میں مشغول ہے اور ڈوکلام کے بعد چین کا سایہ ہمالیہ پہ منڈلا رہا ہے۔
ہم شروعات چین سے ایک انتہائی اہم خبر سے کریں گے جس سے ساؤتھ بلاک(بھارتی دفتر خارجہ) میں الارم کی گھنٹیاں بجنی چاہیں تھیں۔بیجنگ میں 19؍ویں پارٹی کانگریس کے پہلے دن ایشائی ڈیپارٹمنٹ کے کونسلر یو وین نے کہا ’’چین کیلئے تنازعہ کشمیراتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کوریائی خطہ ، جنوبی چینی سمندر ی اختلاف اور افغانستان میں عدم توازن‘‘ چناںچہ چین نے مسلٔہ کشمیر کو جنوبی چینی سمندری مسٔلہ کی سطح پہ لایا ہے جہاں چین کا یہ کہنا ہے کہ وہ کوئی بھی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں،نہ ہی کسی تفاہم کے لئے آمادہ ہے۔ چین نے یہ طرح دی ہے کہ اگر بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر جنوبی چینی سمندر میں مشترکہ بیانات اور سمندری مشقوں میں اُلجھنے کی کوشش کرے گا تو چین پاکستان کے ساتھ مل کرکشمیر میں ایسا ہی اقدام کرنے سے نہیں کترائے گا۔
چین کی اس دھمکی کو سیاسی و فوجی زاؤیے سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ چین نے یہ 2010 ء میں ہی واضح کیا ہے کہ اُس کی سرحد لداخ (جموں و کشمیر) میں بھارت کے ساتھ نہیں ملتی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول (خط متارکہ) جو کہ درۂ قراقرم سے دولت بیگ اولڈی تک جاتی ہے، پاکستانی سر زمین پر ہے۔ چین نے کہا ہے کہ وہ عالمی فورم پہ پاکستان کے کشمیر کیس کی کھلی حمایت کر سکتا ہے۔اسی وجہ سے چینی حکومت کے میڈیائی ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘‘ نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ چین کی حمایت کے بغیر اقوام متحدہ کی مستقل ممبرشپ اُس کے لئے حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس سیاسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے پاؤں پہ پاؤں رکھ کے افغانستان میں عدم استحکام کو بڑھانے کی کوشش نہ کرے ۔علاوہ از ایں ترقی و اقتصادی بہبودی ایک اہم موضوع ہے چین کا پلہ جلد ہی افغانستان میں بھارت سے یا بھارت کی اُمیدوں سے زیادہ ہو گا۔افغانستان کو حال ہی میں چین کی رہبری میںچلنے والے ایشیائی سرمایہ کاری بنک میں مستقل ممبر کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے جس سے وہ اوبار (OBOR:ون بیلٹ ون روڑ) کے دائرے میں داخل ہو جائے گا۔چین اور افغانستا ن نے اوبار کے یقین دہانی میمورنڈم پہ مئی 2016ء میں دستخط کئے تھے ۔جب افغانستان اوبار کے دائرے میں داخل ہو جائے گا،اُس کے لئے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نظریے کی تعریف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گاجس کی بھارت حاکمیت کی بنیاد پہ مخالفت کر رہا ہے۔
اب ہم فوجی اثرات کی طرف آتے ہیں ۔چینی اور پاکستانی افواج میں روابط سے باہمی طور پہ ایک ہی فوجی مشن پر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے جس کی آس امریکہ اور بھارت شرط و شرائط پہ اتفاق کرنے کے بعد لگائے بیٹھے ہیں جب تک ایسا ہو جائے جس کا امکان نظر نہیں آتا بلند باگ دعوے ہی رہیں گے۔ باہمی فوجی اشتراک میں دو چیزیں اہم ہیںفوجی ساز و سامان کی یکسانیت اور پیش رفتہ باہمی مشق۔ پاکستان کا بیشتر جنگی ساز و سامان چینی ساخت کا ہے اور اس بارے میں کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔جنوری 2011ء سے دونوں ممالک کی افواج و ائر فورس نے پہاڑی اور بالائی سطحوں پر متواتر جنگی مشقوں کا اہتمام کیا ہے خاص کر شمالی کشمیر میں جہاں بھارت کے خلاف یہ اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ممالک کے بحرے بیڑے کی باہمی ٹریننگ کا اہتمام بھی کراچی اور گوادر کی بندر گاہوں اور اُن سے جڑی سمندری راہراؤں کی حفاظت کیلئے ہونے ہی والا ہے۔ چینی بحری بیڑے کی بحر ہند میں موجودگی کے ساتھ باہمی ٹریننگ کا اشتراک بھی بڑھتا جائے گا۔بھارت پہ تین طرح کے اثرات رہ سکتے ہیں۔پاکستان بھارت کے مقابلے ایک لمبی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے چونکہ اُسے چین سے پاک چین اقتصادی راہدرای اور ہوائی رابطے سے ہتھیاروں اور سپیر پارٹس کی متواتر سپلائی میسر رہے گی۔ ثانیاََ بھارتی افواج خاص کر آرمی اور ائر فورس کے لئے چینی اور پاکستانی فوجی اشتراک سے جنگی اچھنبے کے کافی امکانات رہیں گے، ثالثاََ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے لئے داخلی روابط کی لائینوں پہ خطرہ توقعات سے بیشتر بنا رہے گا۔
یہ ہماری توجہ کشمیر کے داخلی معاملات کی جانب مبذول کرتا ہے۔کشمیر میں کوئی سیاسی پیش رفت نہیں ہو سکتی جب تک کہ بھارت پاکستان سے بات چیت کیلئے آمادہ نہیں ہوتا،ثانیاً بات چیت صرف بات کرنے کی حد محدود رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا چونکہ پاکستان آرمی جو کہ مسلٔہ کشمیر کے حل کیلئے اڑی ہوئی ہے کا یہ ماننا ہے کہ وقت آ چکاہے۔چین کشمیر کے معاملے میں کھلے طور پہ سامنے آیا ہے۔انڈین آرمی کی جنگی صلاحیتں کند ہو چکی ہیں۔امریکہ افغانستان میں اُلجھا ہوا ہے اور چین سے بھی ایسے میں وہ بھارت کا خالی خولی الفاظ کے سوا حمایت کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا یہ بالکل مطلب نہیں کہ ہند و پاک میں جنگ ہو گی ایسا ہونا بعید ہے۔بھارتی فوج پاکستانی فوج سے لڑنے کے بجائے در اندازوں کو روکنے اور جنگجوؤں کے ساتھ اُلجھاؤ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے سبب اپنی جنگی صلاحیتیں کھوتی جا رہی ہے اور جہاں بے نام و نشان جنگجوؤں کو آئی ایس آئی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان کو جنگ لڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ پاکستان اپنی کار کردگی کرتا رہے گا جب تک کہ بھارت مسلٔہ کشمیر کے حل کیلئے بات چیت کرنے پہ آمادہ نہیں ہوتا۔یہ نظر میں رکھتے ہوئے کہ مودی سرکار نے باہمی بات چیت کو رد کرتے ہوئے اُسے سرحد پار کی جنگجویانہ تحریک کے خاتمے سے جوڑ لیا ہے۔ آئندہ نزدیک میں بات چیت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ان وقائع کے بیچوں بیچ کشمیر میں سب سے بڑی بد قسمتی محبوبہ مفتی سرکار کی شناخت کا ایک سنگین مسلٔہ بن جانا ہے۔ کیا محبوبہ مفتی اپنے مفادات کیلئے وزیر اعلیٰ بن بیٹھی ہیں یا لوگوں کے مفادات کیلئے یہ ریاست میں عوام الناس کی اکثریت کیلئے ایک حیران کن سوالیہ بن گیا ہے؟وزیر اعلیٰ کی عوامی ساخت بری طرح مجروح ہو چکی ہے جس سے علحیدگی پسندلیڈرشپ اور ملی ٹنسی کو تقویت حاصل ہو گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست کیلئے ایک عاقلانہ روش کی ضرورت ہے جیسا کہ ریاستی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے۔