۸؍ جولائی۲۰۱۶ء کو جب برہان مظفر وانی جاں بحق ہوگئے تب سے وادیٔ کشمیر میںلگاتار سیاسی حالات ہر لحاظ سے ابتر چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ عوام میں سیاسی بے چینی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔ کہنے کو پچھلے سال ماہ نومبر سے حالات میں کچھ کچھ بہتری کے آثار نظر آرہے تھے لیکن یہ محض نظروں کادھوکہ ثابت ہوا کیونکہ برف پگھلنے کے ساتھ ہی حالات پھر سے اسی ڈگر پر واپس آگئے جہاں پر یہ پہلے تھے۔مارچ ۲۰۱۷ء تک آتے آتے نامساعد حالات کے سفر نے اچانک ایسی خوف ناک کروٹ لی کہ جاڑے میں حالات میں بہتری آنے کے جو امکانات ظن وتخمین کی بنیاد پر محسوس کئے جا رہے تھے، وہ سب یکایک سراب وبے اصل ثابت ہوئے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ مخلوط حکومت کو ہی نہیں بلکہ مرکز سمیت الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھی ان فرضی امکانات سے اتنا مغالطہ لگا کہ اس نے سری نگر اور اسلام آباد کی پارلیمانی نشستوں کے لئے ضمنی چناؤ کا ایک انتخابی شیڈول بھی دیا ۔ حالانکہ اس دوران کشمیر میںمختلف عسکری کارراوئیاں ہوئیں، جھڑپیں بھی ہوئیںجن میں متعدد ملی ٹنٹ جاں بحق ہو گئے اور ان کارروائیوں میں پہلے کی طرح عام سویلین بھی فورسز کی گولیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں عوام کی بھاری ا کثریت میں شرکت اور کشمیر اکز کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی ے اظہار سے بھی ہو اکا رُخ دکھائی دے رہاتھا اورایسے حالات وواقعات ۹۰ کی دہائی کی یاد لاتے ہیں جب کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں عسکری مڈبھیڑیں، جھڑپیں اور عوام کا سڑکوں پر آنا معمول کا حصہ بن چکا تھا۔ پُر آشوب نوے کے حالات کی یادیں ایسی ہی ہزاروں واقعات کی صورت میںکشمیری عوام کے ذہن وقلب میں نقش ہیں۔ یہاں اُن ناگفتہ بہ حالات کی تصویر کشی کرنے یا انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں البتہ اس وقت کے جو زمینی حالات ہیں ان کو سرسری نگاہ سے دیکھئے تو لگتا ہے کہ وادی میں نوے کی دہائی کچھ زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ آئی ہے ۔
وادی میں حا لات نے ایک بڑا یو ٹرن ۹ ؍ اپریل کے روز ا س وقت لیا جب سری نگر میں ضمنی پارلیمانی چناؤ ہوئے ۔ عوام الناس نے پولنگ سے نہ صرف دوری بنائی بلکہ جابجا نوجوان انتخابی بائیکاٹ کو موثر بنانے اور اپنی ناراضگی جتانے کے لئے بھر پور احتجاج کیا، پتھراؤ کے متعدد واقعات اور گولیوں اور پیلٹ کی بوچھاڑ نے رہی سہی کسر نکالیاور ڈیڑھ سو زخمیوں کے علاوہ ۹؍ کشمیری نوجوانوں کے جنازے بھی اُٹھے۔ اسی وجہ سے اسلام آباد کی نشست پر ہونے والے الیکشن پروسس کو پہلے موخر اور بعد ازاں منسوخ کیا گیا اور امن وقانو ن کے حالات نے اس قدر کروٹ لی کہ سیاسی گلیاروں میں محبوبہ مفتی کی حکومت چلتا کر نے کی اب بھی افواہیں چل رہی ہیں ۔ فاروق عبداللہ نے منتخب ہونے کے بعد پہلا بیان یہی دیا کہ مخلوط حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہوچکی ہے ،ا س لئے ریاست میں گورنر راج نافذ کیا جائے۔ان کے علاوہ دیگر ہند نواز سیاسی قوتیں بھی ریاست میں گورنر راج نافذ کرنے کے سجھاؤ دے رہی ہیں ۔
سری نگر میں ضمنی انتخابات مین عوام کی عدم شرکت نے صاف لفظوں میں پیغام دیا کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں اور کسی انتخابی عمل سے ان کو بہلایا نہیں جاسکتا۔ اس مین کوئی شک وتردد نہیں کہ کشمیری قوم مسئلہ کا تصفیہ چاہتی ہے ۔ اپنے اس سیاسی ایجنڈے کو لے کر عوام نہ صرف ہند مخالف احتجاج اور مظاہروں میں شدت لارہے ہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈروں کے ساتھ ساتھ دلی کی حکومت کے لئے یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہو نی چاہیے کہ وادی میں جہاں پہلے اپنی ایجی ٹیشن کے ذریعے عوام ارباب اقتدار کے خلاف اپنے غم و غصہ دکھا رہے تھے، وہیں اب نوجوانوں بلاکسی خوف وخطر کراس فائر کے واقعے کی جگہ پہنچ کر ایک جانب فوجی محاصروں کو توڑنے کی اپنی کوشش کر تے ہیں ، ودسری جانب محصورین کو بچانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے سے باز نہیں آتے ۔ حالانکہ خود آرمی چیف نے کشمیری نوجوانوںکو انتباہ دیا کہ جھڑپوں کی جگہ آنے سے احتراز کریں اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں بالائے زمین جنگجو سمجھ کر شوٹ ایٹ سائٹ کے احکامات نافذالعمل ہوں گے مگر نوجوان نے اس فوجی وارننگ کی اَن سنی کردی ۔ یہ صورت حال ایک نئے دور کا پتہ دیتی ہے جو اس سے پہلے کشمیر میں دیکھنے کو کم ہی ملتی تھی۔پہلے جھڑپ کی جائے وقوعہ سے لوگ بھاگتے تھے لیکن اب حالت نے نئی کروٹ لی ہے اور نوجوان انکاونٹر کی جگہ کا رُخ بالارادہ کرتے ہیں اور گولیوں سے ڈرے بغیر اپنا وزن عسکریت پسندوں کے پلڑے میں ڈالنے سے کوئی پس و پیش نہیں کر تے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس شفٹ کی کیا وجہ ہے۔ ا س بارے میںزمینی حالات و واقعات کا بغور جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ پچھلے ۲۵ سالوں کے حالات نے یہاں کے نوجوانوں کے ذہن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔جہاں پہلے نوجوانوں میں کچھ حد تک برداشت کا مادہ تھا یا وہ بڑی حد تک خوف و دہشت کے مارے تھے، وہیں آج کی اٹھتی نوجوانیاں جو رواں صدی کی ابتدا ء میں پیدا ہوئے ،یہ نئی پودخوف اور غم سے عاری اور نابلد ہے۔آج کے دیجیٹل عہد میں ان سے ایسی توقع کرنا بھی نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ جب ایک چھ سال کا بچہ کمپیوٹر اور سمارٹ فون چلانا جانتا ہے اور پوری دنیاپر اس کی نظر اور سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی ہے،ا س کو بندوق اورپیلٹ سے خائف کر نا انتہائی احمقانہ سوچ ہے۔اس بار کالج اور اسکولی طلبا کا سڑکوں پر احتجاج کرنا ایک نئے دور کا پتہ دیتا ہے اور اس کو ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لیا جاسکتا۔ایک ہفتے تک کالج و اسکول بند رہنا اور پھر وقفے وقفے سے بعض تعلیمی اداروں کو کھولنا اور بعض کو بندکرنا، یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں کانوجوان چاہے وہ اسکول میں ہو یا اسکول سے باہر اب فورسز کے ظلم و ستم، سیاست دانوں کی چالبازیوں اور فریب کاریوں سے تنگ آچکا ہے۔آئے دن کسی مظلوم کشمیری جن میں بچے ، بزرگ ، نوجوان لڑکے لڑکیاں شامل ہیں، کی فورسز کے ذریعے ہلاکت اور پھر اس کی پردہ پوشی سے آج کا کشمیری نوجوان اُکتا چکا ہے۔یہاں کے نوجوان نے وہ سب کچھ دیکھ لیا ہے جس کو دیکھ کر بیرون ملک یا ملک کی کوئی دوسری ریاست کے نوجوان کے رونگٹے کھڑے ہوں گے۔ان حالات نے یہاں کے نوجوان کو نفسیاتی طور ہر متاثر کیا ہے۔جہاں ایک طرف یہاں حکومت کی پشت پناہی پر رشوت ستانی کا بازار گرم ہے جس میں ایک نوجوان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، وہیں دوسری طرف حکومتی فورسز کے ذریعے ہراساں کرنا اس کے برداشت سے باہر ہے۔سڑکوں و چوراہوں پر نوجوانوں کو فورسز و پولیس کے ذریعے ہراساں کرنے کے واقعات نے جلتی میں تیل چھڑک دیا ہے اور ان واقعات پر روک لگانے کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا ہے۔وعدے تو سب نے کئے لیکن یہ وعدے کبھی وفا نہیں ہوئے۔محض سدبھاؤنا مشن یا اور کوئی پروگرام یہاں کے نوجوان کے عزت نفس کو بحال نہیں کرسکتا جب وہ خود کو اور اُس کی ماں بہنیں ، ہمسایہ محفوظ نہ ہوں۔
افسپا اور پی ایس اے جیسے کالے قوانین کے ذریعے یہاں کے عوام بالخصوص نوجوان پر مصیبت کے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں ،وہ بیان سے باہر ہیں۔ہر روز کئی کئی نوجوانوں کا حراست میں لیا جانا اور سڑکوں اور چوراہوں پرمارپیٹ اور تضحیک کرنے کے درد نے یہاں کے نوجوان کے ذہن سے خوف کے مادہ نکال دیا ہے اور اب وہ ان سب چیزوں کو اتنا عادی بن چکا ہے کہ وہ کراس فائر والی جگہ کے قریب جانے سے بھی دریغ نہیں کرتا بلکہ بندوق کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ انہیں حالات و واقعات نے یہاں کے نوجوان کو ایک بار پھر ملی ٹنسی کی طرف دھکیل دیا ہے لیکن یہاں کی مختلف حکومتوں نے نوجوانوں کے ساتھ روا رکھی گئیں زیادتیوں پر روک لگانے کے بجائے اُلٹا انہیں ہوا دی اور درد کی صحیح دوا دینے کے بجائے صرف ایسے انجکشن پر انحصار کیا جو درد کو تو محض چند منٹ تک دبیز پردوں میںچھپا دیتا ہے لیکن درد کا پوری طرح علاج نہیں کر سکتا۔حکومت تو مختلف وقتوں میں تو سد بھاونا مہم اور دوسری مہمات شروع کرکے سمجھتی ہے کہ شاید یہاں کانوجوان رام ہوجائے اور اُسے شیشے میں اُتارا جائے لیکن کچھ ہی مدت میںحکومت کے سارے منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہے جب نوجوان پھر سے سڑکوں پر آتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ نوجوان کیوں سڑکوں پر آتا ہے؟ اس بارے میں اراب ِ اقتدار میں سے کوئی کڑوی سچائی ماننے اور ہضم کر نے کو تیار نہیں۔ایسے حالات میں جب ہر طرف گولیوں کی گن گرج اور ظلم و ستم کا ماحول گرم ہو ، اس بات کی توقع کرنا یا خواب وخیال کی دنیا میں رہ کر کبھی یہ کہنا کہ سال بھر میں کشمیر میں سب ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا اور نو ماہ اور کم کر کے تین مہینوں میں حالات کے بارے میں یہ کہنا کہ وقت کے ساتھ خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے اور یہاں کا نوجوان مین اسٹریم میں آئے گا، یہ سب حکومت کی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں بلکہ اس سے حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ اگر سچ یہ ہے کہ کشمیر میں برسراقتدار سیاسی رہنماؤں کے مطابق حالات میں کچھ ماہ کے وقفے سے بہتری آئے گی تو اسلام آباد کی پارلیمانی نشست پر الیکشن کو کیوں سرے سے ہی منسوخ کیا گیا ؟ اس کا کیا تُک بنتا ہے ؟ جیسا کہ راقم السطور نے ابتداء میں ہی ذکر کیا کہ اب کی بار کالج اور اسکولی طلبہ کا سڑکوں پر یوںامڈآنا خطرے کی گھنٹی ہے جو بہروں کو سنائی نہ دے اندھوں کو دکھائی نہ دے تو بات الگ ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ حکومت اس صورت حال کو جتنا نان سئیریس ایشو کے طور ہینڈل کر گی اتنا ہی اس کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔مسئلے کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں ملک کے دوسرے کالج اور یونیورسٹیوں کے احاطے میں فورسز کے کیمپوں کا پایا جانا محال ہے اور جس کا آپ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے، وہیں اس سرزمین پر ہر کالج اور یونیورسٹی کے اندر اور باہر فورسز کے کیمپ بنائے گئے ہیں۔کسی بھی کالج کو لیں ا ٓپ کو گیٹ کے باہر ہی فورسز گشت کرتی نظر آئے گی۔ابھی ایک طالب علم کا کالج گیٹ سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکلا کہ اُس کا سامنا کسی فورسز اہلکار سے ہوتا ہے۔پچھلے پچیس سالوں سے بالخصوص ہم یہی دیکھتے آئے ہیں ۔ بہت بار ان کیمپوں کے باہر طلبا کی مار پیٹ ہوئی ہے یا ہراسانی کے دوسرے واقعات پیش آئے ہیں، حالیہ چند واقعات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اسکولی بچوں کے بھی نہیں بخشا گیا اور انہیں بھی گولیوںکا نشانہ بنا یا گیا جب کہ انسانیت کے مجرموں کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ان جیسے حالات نے بھی یہاں کے نوجوانوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کیا ہے اور نوجوانوں کی عزت ِنفس کو مجروح کیا ہے۔کشمیر کی نئی پود نے یہاں گزشتہ ستائیس سال سے لوگوں کو بے موت مرتے دیکھا ، گھروں اور بستیوں کو جلتے اجڑتے دیکھا ، عصمتیں لٹتی دیکھیں اور بچے بزرگوں اور خواتین کی تضحیک وتذلیل بھی دیکھی ۔ ان چیزوں کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں اور بچوں کے جنازے اُٹھتے دیکھے، بے نام قبروں کو بھی دیکھا اور گمشدہ افراد کی مائوں اور بہنوں کی آہ و فغاں بھی سنی۔یہاں کے نوجوان نے گولیوں کے گن گرج بھی سنی اور مظلوموں اور بے کسوں کے نالے بھی سنے ۔اُس نے یتیموں کی لاچاری بھی دیکھی اور بیوائوں کی بے کسی بھی۔اُس نے ظلم و بے انصافی کا ہمالیہ جیسا بار بھی سہا اور خوف کی گڑ گڑ اہٹ بھی سنی۔کشمیر میں مسلسل ابتر حالات نے یہاں کے نوجوان کو نفسیاتی طور پر بری طرح سے متاثر کیا ہوا ہے۔یہاں کا باشعور طبقہ ان نامساعد حالات میں سدھار چاہتا ہے،وہ بندوق کے سایوں اور گولیوں کی گن گرج سے بھی چھٹکاراچاہتا ہے،وہ کالے قانون کے متوالے وردی پوشوںکے ظلم و ستم سے رہائی چاہتا ہے ا ور چاہتا ہے کہ قضیہ زمین برسر زمین کے مصداق دلی کے حکمران کشمیر کا سیاسی فیصلے کر کے اپنی وعدہ وفائی کا کردار نبھانے سے نہ کترائیں ۔ یہاں کا ہر مشتعل وبرہم نوجوان مسئلے کا ایک پائیدار اور قابل قبول حل چاہتا ہے تاکہ وہ بھی سکون و عزت کے ساتھ جی سکے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ جب یہاں کے نوجوان کے اندرون اور اس کے جذبات ومحسوسات کو دل کے کانوں سنا جائے اور اُس کے جذبات کا فراخد لی کے ساتھ احترام کیا جائے،اُسے بھی بہتر مستقبل کی تعمیر میں عزت، سکون اور اپنی خداداد صلاحیت منوانے کے لئے پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کی آزادی چاہیے ۔وہ آزادی اور خوش حالی کے ساتھ جینا چاہتا ہے اور زندگی کی بہاروں کا لطف اٹھاکر دنیا وآخرت کے لئے کچھ بہتر کر نا چاہتا ہے۔اُسے مراعات کا بھکاری بننا یا سدبھاؤنا مشن سے بہل جانا منظور نہیں بلکہ اپنی عزتِ نفس کی فکر ہے جو ہر روز اس کے وطن کی سرزمین پر فورسز کے ہاتھوں مجروح ہوتی رہتی ہے،وہ اپناتحفط چاہتا ہے ۔افسوس حکومت اس کی خواہشات پر موت کا پہرے ا ور خوف کے سنتری بٹھا کر مقبرے سجانے میں سال ہا سال سے لگی ہے اور اس میں ناکام ہوکر اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پرپابندیاں عائدکر کے کشمیر کے نوجوان کو قابو میں کر نا چاہتی ہے مگر اس میں بھی منہ کی کھاتی جارہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی تاریخ ،اس کے نشیب وفراز اور کشمیری نوجوان کی نفسیات اور اس کے اندر دفن غم و غصے کے آتش فشاں کو اپنے صحیح تناظر میں سمجھ کر کشمیر کے حتمی حل کے لئے کمر بستہ ہواجائے اور یہ سب ہوا تبھی جاکر حالات میں بہتری آسکتی ہے اور کشمیر سمیت برصغیر ہیرو شیما اور ناگا ساکی بننے سے بچ سکتا ہے ۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
ای میل:[email protected]