ساحل جہانگیر میر
کشمیر کی حسین وادیوں میں جب ہوا پھولوں کی خوشبو سے مہکتی تھی، جب دریاؤں کا پانی شفاف اور پہاڑوں کی فضا صاف ہوا کرتی تھی، اُس وقت زندگی قدرتی توازن کی ایک مثال تھی۔ لیکن آج، یہی وادی اور پورا ملک ایک ایسی خاموش تباہی کی لپیٹ میں ہے جس کا نام ہے کینسر۔یہ بیماری اب صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں رہی، بلکہ دیہات، پہاڑ اور وادی کشمیر کے ہر کونے میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔
کیمیائی غذاؤں کا زہر :
گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستانی کھانوں میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے وہ ہے قدرتی غذا کا خاتمہ اور کیمیائی اجزاء کا اضافہ۔مارکیٹ میں دستیاب تیل، چینی، نمک، مصالحے اور یہاں تک کہ دودھ و سبزیاں بھی اب کیمیائی عمل سے تیار یا محفوظ کی جاتی ہیں۔کھانے کے تیلوں میں مختلف مصنوعی تیزاب اور پریزرویٹیوز شامل کیے جاتے ہیں تاکہ وہ لمبے عرصے تک خراب نہ ہوں، لیکن یہی تیل جسم میں داخل ہو کر جگر، دل، اور خون کے خلیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ہندوستان کے ماہرِ امراضِ جگر اور کینسر کے ڈاکٹروں کے مطابق، ریفائنڈ آئل میں شامل کیمیکل، خاص طور پر ہیگزین اور فاسفیٹ مرکبات، انسانی خلیوں کے DNA کو متاثر کرتے ہیں، جس سے کینسر کی افزائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کشمیر کی حالت اور زراعت میں زہر کا استعمال :
کشمیر، جو کبھی قدرتی اور خالص زراعت کے لیے مشہور تھا، اب وہاں بھی کیمیائی کھادوں اور اسپرے کا بےتحاشا استعمال بڑھ گیا ہے۔سیب، اخروٹ، چاول اور سبزیاں جو کبھی قدرتی طریقے سے اُگتی تھیں، اب ان پر کیڑے مار دواؤں، یوریا اور کیمیکل اسپرے کی اتنی مقدار استعمال کی جاتی ہے کہ وہ کھانے سے زیادہ زہریلے مواد بن چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، وادی میں زیرِ زمین پانی میں بھی ان زہریلے کیمیکلز کے اجزاء پائے گئے ہیں، جو پینے کے پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔
بینزین ،دوا نہیں، موت کا دوسرا نام :
کینسر کے بڑھتے اس بحران میں ایک اور خطرناک عنصر ہے بینزین (Benzene)۔یہ کیمیکل عام طور پر پٹرولیم مصنوعات، پرفیومز، کریمز، صابن، اور حتیٰ کہ کچھ ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔بینزین انسانی جسم میں داخل ہو کر خون کے خلیات کو تباہ کرتا ہے اور لیوکیمیا (خون کا کینسر) جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔تحقیقات بتاتی ہیں کہ کچھ کاسمیٹک مصنوعات اور دواؤں میں بینزین کی مقدار حد سے زیادہ پائی گئی ہے، خاص طور پر جلد کو روشن کرنے والی کریموں اور درد کم کرنے والی دواؤں میں۔
کشمیر کے ایک معروف ماہرِ صحت نے کہا تھا:’’ہم روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کس طرح آہستہ آہستہ زہر نگل رہے ہیں — کبھی کھانے کے ذریعے، کبھی کریموں، کبھی سانس کے راستے۔‘‘
اوزون کی تہہ کی تباہی ایک خاموش قاتل :
جہاں ہم زمین پر زہریلے کیمیکلز سے جوجھ رہے ہیں، وہیں آسمان سے آنے والی خطرناک شعاعیں ہمارے جسموں کو مزید نقصان پہنچا رہی ہیں۔اوزون کی تہہ (Ozone Layer) جو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکنے کا قدرتی دفاعی نظام ہے، وہ اب تباہی کے دہانے پر ہے۔اس تباہی کی ایک بڑی وجہ وہی صنعتی کیمیکل ہیں جو ہم روزمرہ کی مصنوعات میں استعمال کرتے ہیں جیسے CFCs، ایروسل اسپرے، اور ریفریجریٹر گیسیں۔ان شعاعوں کی وجہ سے جلدی کینسر، آنکھوں کے امراض، اور مدافعتی نظام کی کمزوری میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔کشمیر جیسے بلند علاقوں میں، جہاں سورج کی شعاعیں زیادہ براہِ راست آتی ہیں، وہاں اوزون کی کمی کا اثر اور زیادہ خطرناک ہے۔گزشتہ برس سری نگر کے شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی رپورٹ کے مطابق، جلدی کینسر کے مریضوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور سورج کی تیز شعاعیں بتائی گئی ہیں۔
صنعتی فضلہ اور فضائی آلودگی سانس کے ساتھ زہر:
ہندوستان کے صنعتی شہروں جیسے دہلی، ممبئی، گجرات اور پنجاب میں فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور فضلہ نہ صرف فضا کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ کھیتوں اور دریاؤں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔یہی زہریلے مادے بارش کے ذریعے زمین میں شامل ہو کر خوراکی زنجیر (Food Chain) میں داخل ہوتے ہیں، جو بالآخر انسانی جسم میں کینسر کا بیج بن جاتے ہیں۔کشمیر میں اگرچہ صنعتی سرگرمیاں کم ہیں، مگر وہاں سے بہنے والے دریاؤں میں میدانی علاقوں سے آنے والی آلودگی شامل ہو جاتی ہے، یعنی کشمیر کے پانی میں بھی زہر بہہ کر آ رہا ہے۔
خوراک میں کیمیکل :
آج بازار میں فروخت ہونے والی بیشتر اشیاء میں مصنوعی رنگ، فلیور اور خوشبو شامل کی جاتی ہے۔یہ کیمیکل اگرچہ کھانے کو خوش ذائقہ بناتے ہیں، مگر جسم کے لیے تباہ کن اثرات رکھتے ہیں۔مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ سوڈیم نائٹریٹ، بلیچنگ ایجنٹس، اور سلفیٹ مرکبات جیسے اجزاء معدے، جگر اور آنتوں کے کینسر کے بڑے اسباب ہیں۔ہندوستان میں اسٹریٹ فوڈ اور پیکڈ فوڈ کلچر نے ان کیمیکلز کے استعمال کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
عوامی لاپرواہی اور حکومتی خاموشی:
بدقسمتی سے، عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ ’’سب کچھ معمول کی بات ہے۔‘‘حکومتیں بھی اکثر ان کمپنیوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کرتیں جو اپنی مصنوعات میں کیمیائی زہر شامل کر رہی ہیں۔غذائی معیارات کے ادارے (FSSAI) کی رپورٹوں میں متعدد بار انکشاف ہوا کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی آئل، دودھ، چاکلیٹ، اور بسکٹ برانڈز میں زہریلے کیمیکل پائے گئے، مگر کارروائی برائے نام رہی۔
کینسر صرف بیماری نہیں، ایک معاشرتی المیہ :
کشمیر کے اسپتالوں میں آج ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو صرف 20 یا 30 سال کی عمر میں کینسر کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ صرف طبی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ بھی ہے۔ایک غریب خاندان، جس کے پاس علاج کا خرچ نہیں، وہ قرض لے کر بھی اپنے بیمار بچے یا والدین کو بچا نہیں پاتا۔یعنی کینسر صرف جسم کو نہیں، خاندان کے خوابوں کو بھی نگل لیتا ہے۔
امید کی کرن :
اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ کیا تو آنے والی نسلیں کیمیائی دنیا کے باسی ہوں گی، جن کے لیے صحت ایک خواب بن جائے گی۔ہمیں اپنی زمین، ہوا، پانی، اور خوراک کو قدرتی حالت میں واپس لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔کیمیائی تیلوں کے بجائے خالص دیسی گھی یا کولڈ پریسڈ آئل کا استعمال،پلاسٹک کے بجائے قدرتی برتنوں کا استعمال،
اور زہریلے اسپرے کے بجائے نامیاتی زراعت کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
اختتامی کلمات :
کینسر کا علاج صرف اسپتالوں میں نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ زندگی میں تبدیلی سے ممکن ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنے کھانے، ماحول، اور مصنوعات پر سنجیدگی سے نظر ڈالیں۔کیونکہ اگر ہم نے خود کو کیمیکلز سے آزاد نہ کیا، تو ایک دن ہماری پوری نسل اس خاموش قاتل کی لپیٹ میں آ جائے گی۔
رابطہ۔ 9086707465