سرینگر//وادی میںپرامن مزاحمتی مکانیت پر ضرب کاری کو نوجوانوں کی طرف سے بندوق اٹھانے کے ساتھ جوڑتے ہوئے سرکردہ صحافی انورادھابھسین نے کہا کہ لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی جدید ساز وسامان سے لیس ایک بڑی فوج سے لڑنے کیلئے تیار نظر آرہی ہیں۔ بشری حقوق گروپ جموں کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹی کی طرف سے سرینگر میں پنڈت رگھو ناتھ ویشنوی سالانہ مذاکراہ کے دوران انو رادھابھسین جموال نے واضح کیا کہ کشمیر میں پرامن مزاحمت کیلئے زمین تنگ کی گئی ہے۔ انہوںنے’’ کشمیری مزاحمت کے کئی رنگ،سیاسی تھیٹر میں ابھرتے ہوئے رجحانات پر سائے و عوامی جدوجہد‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انو رادھا بھسین نے کہا کہ2016سے قبل بھی کشمیر ایک سلگتا آتش فشاں تھا،جو اگر چہ ظاہری طور پر خاموش تھا،تاہم وہ پھٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حزب المجاہدین کمانڈر برہانی وانی کی ہلاکت نے اس کو نقطہ عروج دیا،جو کہ گزشتہ ایک دہائی سے خوفناک تھا۔بھسین نے کہا کہ2016کی جو احتجاجی لہر تھی وہ ماضی کی ایجی ٹیشن سے مختلف تھی،جو کہ انصاف اور ظلم و جبر کے خلاف لوگوں نے شروع کی تھی،تاہم2016کی ایجی ٹیشن ایک کھلی بغاوت تھی،جس میں نہ صرف لوگ اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے تھے بلکہ ہراساں ہونے سے بھی تنگ آچکے تھے۔ انورادھا جموال نے کہا کہ یہ سمجھنامشکل ہے کہ2016 کے رجحانات کو بیان کیا جائے،تاہم یہ مشکل نہیں کہ یہ کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ برہان وانی کو نوجوان ظلم و جبر کے خلاف ایک علامت سمجھتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد نوجوانوں کے ہاتھوں میں کمان آئی اور کھبی کچھ لڑکیاں بھی ریاست میں جدید ہتھیاروں سے لیس طاقتور فورس کے ساتھ لڑنا چاہتی ہے،جس کی عکاسی اس بات سے نظر آتی ہے کہ،لڑکیوں نے بھی ہاتھوں میں پتھر تھامے،جبکہ نوجوانوں نے بندوق اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی طرف سے جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہونے میں کمی نہیں آرہی ہے،اور اگر کمی ہے تو فنڈس اور ہتھیاروںکی دستیابی میں ہے۔ انورداھا بھسین نے کہا کہ نوجوانوں کو اس بات کا علم ہے کہ وہ طاقتور ملک کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے،تاہم وہ مرنے کیلئے تیار ہیں،اور آسانی سے اپنی جان دے رہے ہیں۔ انہوں نے اس غصے اور بغاوت کو گزشتہ برسوں کے ظلم و تشدد کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں ہندو فسطائی جماعتوں کے اقتدار میں آنے سے اس میں مزید شدت پیدا ہوئی جبکہ انکے فرقہ پرست نظریہ اور سیاست نے اس میں پیٹرول کا کام کیا۔بھسین نے کہا کہ بڑے گوشت کی سیاست،لو جہاد، دفعہ370کو منسوخ کرنے کی دھمکیاں اور مرکزی حکومت کی طرف سے2014میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد غیر سنجیدہ اقدامات کے علاوہ بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان تاریخی مگر غلط تشکیل حکومت نے کشمیری مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس کشمیر میں پنڈتوں کیلئے مخصوص بستیاں اور سینک کالونیوں کی تعمیر ی باتوں نے کشمیریوں کے اعتماد کو مزید جھنجوڑا اور وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے۔بھسین نے کہا کہ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ امسال بھی دفعہ35A اور دفعہ370 کے خلاف چیلنج نے بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا کی۔