سرینگر// ہڑتال اور بار بار پیدا شدہ نامساعد حالات سے شعبہ تعلیم متاثر ہونے کا ادراک رکھنے کے باوجود کشمیر ی طلباءکی اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مزاحمتی پورگراموں بشمول ہڑتال پر عمل درآمد لازمی ہے ۔کشمیر ی طلباءکی اکثریت مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی حامی ہے اور اس کیلئے وہ اپنی توانائی صرف کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے ۔کشمیر میں تعلیمی سیکٹر میں سرگرم بین الاقوامی سطح کی غیر سراری تنظیم چنار انٹرنیشنل کے ذرےعے کی گئی ایک مفصل رپورٹ میں تعلیم اور نامساعد حالات پر ایک سروے عمل میں لائی گئی جسے جمعرات کو سرینگر میں میڈیا کے سامنے منظر عام پر لایا گیا ۔92 صفحات پر مشتمل اس سروے رپورٹ میں وادی کے نامساعد حالات خصوصاً ایجی ٹیشن2016کے دوران تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونے اور اس پر مقامی طلباءکی آراءکو دستاویزی شکل دی گئی ہے ۔اس موضوع پر کئی تیکنیکی پہلوﺅں پر بحث کرتے ہوئے مزاحمت کے حامی طبقوں کے درمیان اس اہم اور حساس موضوع پر عام بحث کرانے کی صلاح دی گئی ہے جبکہ سروے کی بنیاد پر اس اہم مسئلے پر حکومت اور مزاحمتی قیادت کے لئے کئی تجاویز اور مشورے بھی پیش کئے گئے ہیں ۔جمعرات کو امپا سرینگر کے ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران چنار انٹرنیشنل کے اہداف و مقاصد پر این جی او کے سربراہ عرفان شہمیری نے تفصیلی روشنی ڈالی جبکہ اس موقعے پر مفصل سٹیڈی جہانگیر رینہ نے پیش کی ۔انہوں نے اس سروے کے تیکنیکی پہلوﺅں اور اس میں ظاہر کئے گئے اعداد وشمار پر تفصیلی روشنی دالی ۔سوال جواب کے سیشن کے دوران جہانگیر رینہ نے کہاکہ سٹڈی سے جو بات سامنے آئی کہ وادی کے طلباءکی اکثریت اس بات کو سمجھتی ہے کہ طویل ہڑتالوں اور نا مساعد حالات سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں تاہم انہوں نے کہاکہ اس بات پر کشمیر کے طلباءکی واضح اکثریت متفق ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک مزاحمت کے سبھی طریقوں او ر پروگراموں پر عمل درآمد لازمی ہے ۔سروے میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ طلباءاور والدین کی ایک خاصی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ ہڑتالوں اور مزاحمتی پروگراموں میں تعلیم کو مستثنیٰ قرار دینے پر مزاحمتی حلقوں میں ایک بحث شروع ہونی چاہئے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے ۔رپورٹ کو منظر عام پر لاکر اسے عوامی بحث کیلئے پیش کیا گیا ہے اور عوامی حلقوں سے اس بارے میں فیڈ بیک کی درخواست کی گئی ۔