بلال فرقانی
سرینگر// جموں و کشمیر میں مہم جوئی سیاحت کو پہلگام میں حالیہ حملے کے بعد شدید دھچکا لگا ہے، جہاں متعدد ٹریکنگ گزرگاہوں اور مہم جوئی سرگرمیوں کے مراکز بدستور بند پڑے ہیں۔ اگرچہ بعض پارکیں اور باغات مرحلہ وار کھولے جا رہے ہیں تاہم بیشتر اہم سیاحتی اور ٹریکنگ مقامات پر سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اب بھی پابندی عائد ہے، جس کے نتیجے میں مقامی گائیڈز، ٹریکنگ ایجنسیاں، کیمپنگ آپریٹر اور دیگر متعلقہ افراد بری طرح متاثر ہوئے مہم جوئی جو وادی کی سیاحتی معیشت کا ایک ابھرتا ہوا شعبہ تھا، اب مکمل طور پر جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ پہاڑی ٹریک، پراگلائیڈنگ پوائنٹس، کیمپنگ سائٹس اور بلند مقامات پر واقع جھیلوں کی جانب جانے والے راستے بند کیے جا چکے ہیں۔نہ صرف ٹرینگ مقامات بلکہ کئی ایک باغات بھی ہنوز بند ہیں۔کشمیر میں سکیورٹی آڈٹ کے بعد 89 میں سے 49 سیاحتی مقامات کو بند کر دیا گیا ہے اور صرف انہی مقامات کو کھولا گیا جہاںسیکورٹی کے سخت انتظامات ممکن بنائے جا سکے ہیں۔ وسطی کشمیر میں نارا ناگ، یوسمرگ، توسہ میدان، اہربل اور کوثر ناگ سمیت کئی معروف ٹریک بند ہیں جبکہ جنوبی کشمیر میں سنتھن ٹاپ اور مرگن ٹاپ،پہلگام چڑیا گھر،اکڑ پارک بھی بند ہے۔
مشہور ٹریک جیسے گریٹ کشمیر لیکس، تارسر مارسر، تلیان لیک، نافران ویلی، وارون ویلی ، پیر پنجال لیکس ،بنگس،گریز ،چل پوائنٹ گگل ڈورہ، درنگ ٹنگمرگ،رنگاواری اور سنز پال بابا ریشیؒکو بھی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر معطل کر دیا گیا ہے، جس کا اثر نہ صرف کشمیر بلکہ جموں کے سرحدی علاقوں جیسے کپوارہ،راجوری،پونچھ،ادھم پور، کشتواڑاور چناب وادی میں سیاحتی سرگرمیوں پر بھی پڑا ہے۔کشمیرڈسکورایڈونچر کمپنی کے مالک اور ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف کشمیر کے جنرل سیکریٹری سجاد کرالیاری نے کہا’’سونہ مرگ سے نارا ناگ، توسہ میدان، دودھ پتھری، یوسمرگ تک تمام بڑے ٹریکنگ مقامات بند ہیں۔ ہماری پرانی تمام بکنگس منسوخ ہو چکی ہیں اور ابہام کی وجہ سے نئی بکنگس بھی نہیں لی جا رہی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ سیاحت کے اس شعبے سے جڑے گائیڈ، مہم جو آپریٹر، مزدور،لاجسٹک وکیمپنگ ساز و سامان کرایہ پر دینے والے افراد اور مقامی دکاندارکروڑوں روپے کے نقصان سے دوچار ہیں۔کرالیاری کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران جموں و کشمیر میں ٹریکنگ، کوہ پیمائی اور ہائیکنگ جیسے مہماتی کھیل سیاحت کا ایک لازمی جزو بن چکے تھے۔ تاہم اچانک عائد کی گئی پابندیوں نے اس شعبے سے وابستہ تمام افراد کو شدید بے چینی اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔اربن ٹور اینڈ ٹروال ایسوسی ایشن کے صدر جان محمد کا کہنا ہے ’’ہمارا سیزن ختم ہو چکا ہے۔ یہ صرف ایک سال کا نقصان نہیں، اس کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ ہم نے رواں سال منافع کی امید کی تھی لیکن اب اتنا ہی نقصان ہونے جا رہا ہے‘‘۔ٹریکنگ گائیڈوں اور مہم جوئی آپریٹرز کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ واضح پالیسی کے ساتھ آگے آئے تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کی بحالی کی امید رکھ سکیں۔ فی الحال وادی کی سیاحت کا یہ اہم اور منفرد شعبہ غیر یقینی کی حالت سے گزر رہا ہے۔عابد احمد نامی ایک ٹورسٹ گائیڈ نے کہا’’لوگوں نے اس شعبے کو پروان چڑھانے میں نہ صرف اپنا پیسہ بلکہ وقت اور محنت بھی صرف کی ہے۔ کئی افراد نے اپنی مستقل ملازمتیں چھوڑ کر اسے اپنا پیشہ بنایا۔ اب سب پریشان، مایوس اور غصے میں ہیں‘‘۔تاہم، بعض علاقوں میں صورتحال میں جزوی بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ پہلگام بازار کی کچھ پارکس، بیتاب ویلی، ویری ناگ، کوکرناگ، اچھ بل باغات اور سر ینگر میں بادام واری، ڈک پارک، تقدیر پارک کو مرحلہ وار کھولا جا رہا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک اہم مہم جوئی مقامات بند رہیں گے، سیاحت کا یہ شعبہ مکمل بحال نہیں ہو سکتا۔2024 میں حکومت کی جانب سے 100 نئے سیاحتی مقامات کے اعلان کے بعد جموں و کشمیر میں ٹریکنگ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا، جس کا مقصد مہماتی سیاحت اور قدرتی مقامات کے مشاہدے کو فروغ دینا تھا۔ حالیہ برسوں میں چھ مختلف حلقوں سرینگر، جنوبی کشمیر، شمالی کشمیر، مشرقی، مغربی اور چناب میں ٹریکنگ کے راستوںکوترقی دی گئی۔ہر حلقے میں 10 سے زائد تریکنگ گزرگاہوں کی نشاندہی کی گئی، جن میںشمالی کشمیر کا حلقہ، جو لائن آف کنٹرول کے قریب بارہمولہ اور کپواڑہ اضلاع پر مشتمل ہے، 26 راستوں کے ساتھ سب سے آگے رہا۔ اسی طرح سرینگر اور جنوبی کشمیر کے حلقوں میں بھی 20 سے زائد ٹریکنگ روٹس تیار کیے گئے۔