اطہر الاسلام، اونتی پورہ
کشمیر جسے اکثر ’’جنت ِ بے نظیر‘‘ کہا جاتا ہے، اپنی قدرتی خوبصورتی، ثقافتی ورثے اور پاکیزہ ماحول کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ کشمیری زبان میں ’’پیروار‘‘کہلانے والی یہ سرزمین کبھی پاکیزگی کی علامت تھی، جہاں ہوا صاف تھی، دریا شفاف تھے اور لوگ سادگی اور اخلاقی اقدار کے لئے جانے جاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ انسانی غفلت اور بے حسی کے سبب یہ پاکیزگی اور ہم آہنگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں یہاں کے سماجی اور اخلاقی نظام میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔حالیہ برسوں میں کشمیر کئی مسائل کا شکار رہا ہے، لیکن دو بڑے مسائل انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی لت انتہائی سنگین ہیں۔ انسانی اسمگلنگ جہاں افراد کی عزت اور سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے، وہیں منشیات کی لت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ مسائل نہ صرف خاندانوں کو برباد کر رہے ہیں بلکہ کشمیر کے مستقبل پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
منشیات کی لت ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، جو تعلیمی اداروں اور معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ یونیورسٹیاں، کالج اور یہاں تک کہ اسکول بھی اس لعنت کی زد میں آ چکے ہیں۔ نوجوان طبقہ دوستوں کے دباؤ، آگاہی کی کمی یا ذہنی دباؤ کے باعث نشے کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ منشیات کی آسانی سے دستیابی اور روک تھام کے مؤثر اقدامات کی عدم موجودگی نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔یہ مسئلہ الگ تھلگ نہیں ہے بلکہ دیگر سماجی مسائل سے گہری جڑیں رکھتا ہے، جیسے بے روزگاری، تفریحی سرگرمیوں کی کمی، اور جاری تنازعات کی وجہ سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ۔ یہ عوامل نوجوانوں کو فرار کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اکثر یہی راستہ منشیات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ نوجوانوں میں نشے کی بڑھتی ہوئی شرح صرف خاندانوں کے لیے ذاتی المیہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی ناکامی کا بھی ثبوت ہے۔
منشیات کے تباہ کن اثرات :
منشیات کے اثرات نہایت مہلک ہیں۔ فرد کی سطح پر یہ صحت کے مسائل، کام کرنے کی صلاحیت میں کمی اور بعض اوقات موت کا سبب بن سکتی ہے۔ سماجی سطح پر یہ جرائم میں اضافے، خاندانوں کے بکھرنے اور صحت کے شعبے پر اضافی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کشمیر کے سب سے قیمتی وسائل اس کے نوجوانوںکو تباہ کر رہی ہے۔
کشمیر میں منشیات کا مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اب کم عمر بچے بھی اس دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ بے روزگاری: روزگار کے مواقع کی کمی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ملتیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور نشے کو بطور حل اختیار کر لیتے ہیں۔ غیر یقینی مستقبل کا خوف انہیں خود کو نقصان پہنچانے کی طرف لے جاتا ہے۔
۲۔ ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل: کشمیری نوجوان شدید ذہنی دباؤ، مایوسی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگ وقتی سکون کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں، لیکن یہ وقتی راحت ان کی زندگی مزید بدتر بنا دیتی ہے۔
۳۔ منشیات کی آسان دستیابی: منشیات کی آسان فراہمی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ اسمگلر اور غیر قانونی بیوپاری اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ نشہ ہر ایک کو، حتیٰ کہ نوعمروں کو بھی آسانی سے دستیاب ہو۔ قانون کا کمزور نفاذ اور کمزور پالیسیاں اس غیر قانونی کاروبار کو بڑھا رہی ہیں۔
حل اور اقدامات :
اگر اس خطرے کو جلدی نہ روکا گیا تو کشمیر کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ خاندان اُجڑ جائیں گے، سماج مزید کمزور ہو جائے گا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زندگی برباد کر لے گی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
�?آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ نوجوانوں کو منشیات کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔
�?منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے سخت قانون سازی اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے۔
�?بحالی مراکز اور مشاورت کی سہولیات کو عام اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔
�?والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما اور کمیونٹی ممبران مل کر ایک ایسا معاون ماحول بنائیں جس میں نوجوان نشے کی لعنت سے محفوظ رہ سکیں۔
کشمیر میں پالیسی کی ناانصافی :
ایک طرف جموں و کشمیر کی پولیس اور اعلیٰ حکام اس لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ غیر قانونی کاروبار مزید پھیل رہا ہے۔ کئی سینئر افسران نے سگریٹ نوشی پر جرمانہ مقرر کیا ہے، جہاں خلاف ورزی پر 200 روپے جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے، کیونکہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس پر قابو پانے سے فائدہ ہوگا۔مگر میں جموں و کشمیر کی حکومت سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو پھر شراب کی دکانیں آج بھی سری نگر اور دیگر اضلاع میں کھلی کیوں ہیں؟ شراب نوشی کے بھی سنگین نقصانات ہیںاور ان دکانوں کو کھلا رکھنا پالیسی میں واضح تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ آخر اس غیر مساوی پالیسی کی وجہ کیا ہے؟
نتیجہ :کشمیر کا ایک پاکیزہ اور بے داغ جنت سے ایک ایسے خطے میں بدل جانا، جو سماجی برائیوں جیسے کہ منشیات کی لعنت کا شکار ہو چکا ہے، اس بات کی سخت وارننگ ہے کہ غفلت اور عدم توجہی کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے کشمیر کو اس بُرائی سے نجات دلائیں۔ اجتماعی کوششوں، عزم اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل پر توجہ دینے سے ہم کشمیر کو دوبارہ وہی جنت بنا سکتے ہیں جو یہ ہمیشہ سے تھا۔
[email protected]