میر شوکت
تصور کیجئےکہ سحر کی نرم روشنی کشمیر کی وادی کو چھوتی ہے، جیسے کوئی خوابیدہ پردہ آسمان سے اُتر کر زمین کو گلے لگائے۔ سورج کی کرنیں چنار کے پتوں سے چھن کر جھیل نگین کے پانی پر رقص کرتی ہیں اور ہوا میں زعفران کے کھیتوں کی مہک بس جاتی ہے، جیسے کوئی پرندہ اپنے پروں سے فضا کو معطر کرتا ہو۔ مگر اس جنت نظیر منظر کے بیچ ایک سناٹا ہے، جو دل کو چیرتا ہے۔ یہ ان بچوں کی خاموش آہ ہے، جن کے ننھے ہاتھوں میں قلم کی جگہ خالی تھالی ہے، جن کی معصوم آنکھوں میں خوابوں کی بجائے بھوک کی کالی سائے ہیں۔ یہ وادی جو اپنے حسن سے دنیا کو مسحور کرتی ہے، آج اپنے بچوں کی گرتی سانسوں سے لرزتی ہے، جیسے کوئی ماں اپنے لختِ جگر کی کمزوری پر روتی ہو۔
کشمیر عظمیٰ (22 جون 2025) کی رپورٹ ایک دل دہلا دینے والا سچ کھولتی ہےکہ جموں و کشمیر میں 14 لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کے اسیر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ زخم پانچ برس سے کم عمر کے ننھے پھولوں پر ہیں، جن کا وزن عمر سے کم، جسم کمزوراور خون کی کمی ایک نسل کی شکست کا نوحہ پڑھتی ہے۔ یہ اعداد کاغذ کی لکیریں نہیں، بلکہ ہمارے سماج کی رگوں میں بہتی غفلت کی گواہی ہیں۔ یہ بچے، جو کل کے موسموں کو رنگ دینے والے تھے، آج بھوک کے سائے میں سسک رہے ہیں، جیسے کوئی کلی کیچڑ کے بوجھ تلے دب جائے۔
بھوک صرف پیٹ کی آگ نہیں بلکہ روح کا زخم ہے۔ سری نگر میں 24 ہزار سے زائد بچے سخت غذائی قلت کی لپیٹ میں ہیں۔ جموں میں 69 ہزار، بارہ مولہ میں 20 ہزار، اننت ناگ، کٹھوعہ، اور ادھم پور کے تنگ گلی کوچوں میں بھی یہی الم پھیلا ہے۔ مگر یہ صرف جسم کی کہانی نہیں۔ یہ ماں کی وہ آنکھیں ہیں جو اپنے بچے کی کمزوری پر راتوں کو جاگتی ہیں۔ یہ باپ کی وہ مٹھی ہے جو دن بھر کی مزدوری کے بعد بھی خالی لوٹتی ہے۔ یہ اسکول کی وہ دوپہریں ہیں جہاں مڈ ڈے میل کا ایک چمچ چاول بچے کے پیٹ کی بھٹی کو ٹھنڈا کرنے کو ناکافی ہے۔ یہ خالی دواخانے ہیں، جہاں دوا کے نام پر صرف خاموشی ملتی ہے، جیسے کوئی صحرا پانی کی امید پر تڑپتا ہو۔
جب رپورٹ میں لکھا گیا کہ’’ماں کی کمزوری بچے کی موت ہے۔‘‘ تو یہ محض الفاظ نہیں، ایک نسل کے مرثیے کی صدا تھی۔ ایک ماں جو خود خون کی کمی سے لڑتی ہو، وہ اپنے بچے کو زندگی کی چمک کیسے دے؟ ایک بچہ جو ماں کے دودھ سے محروم رہا، وہ اپنے ذہن کے پر کیسے کھولے؟ یہ طبی بحران نہیں، اخلاقی زوال ہے
وادی کے ایک گاؤں میں، جہاں جھرنوں کی آواز رات کی تنہائی میں لوری بنتی ہے اور چنار کے پتّے ہوا سے ہم کلام ہوتے ہیں، ایک ماں اپنے بچے کو گود میں تھامے بیٹھی ہے۔ وہ بولتی ہے،’’میرا بچہ ہنستا ہے، مگر اس کی ہنسی میں جان کیوں نہیں؟‘‘ پاس بیٹھا ایک چرواہا کہتا ہے،’’یہ سرکار کے وعدوں کی چمک ہے، جو ہم تک کبھی نہیں آتی!‘‘ شہر کے ایک بازار میں، جہاں دکانوں کے شور سے فضا گونجتی ہے اور رنگین بینرز ترقی کے گیت گاتے ہیں، ایک لڑکا چیختا ہ ہے،’’ہمارے پیٹ کی آگ کو کون بجھائے گا؟‘‘ ایک خاتون جواب دیتی ہے ،’’وہ جو تقریروں سے قصر بناتے ہیں، انہیں ہماری آہ سے کیا واسطہ!‘‘ یہ آج کا نظام ہے،جہاں کاغذی منصوبے آسمان چھوتے ہیں، مگر بچوں کے پیٹ تک نہیں پہنچتے۔نظام آج ضمیر کا دشمن ہے۔ وادی کے حسن کو دیکھنے والے سیاحوں کے لیے ہم دروازے کھول دیتے ہیں، مگر اپنے بچوں کو چھپن چھپائی کے کھیل میں بھوک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ آنگن واڑی مراکز گاؤں میں ویران ہیں، شہروں میں بے جان۔ پوشان ابھین کے نعرے بلند ہیں، مگر ان کی گونج گلیوں تک نہیں۔ وعدوں کے رنگین پلستر چمکتے ہیں، مگر ان کے پیچھے غریب کی بے بسی چھپی ہے۔ یہ نظام نہیں، ایک بے رحم تماشا ہے، جہاں بچوں کی سسکیاں تماشائیوں کے شور میں گم ہوتی ہیں، جیسے کوئی ندی اپنی آواز کو صحرا میں کھو دیتی ہو۔
مگر یہ وادی صرف درد کی نہیں، عزم کی بھی کہانی ہے۔ اس گاؤں میں جہاں چنار کے سائے ماں کی گود کی طرح پھیلتے ہیں، ایک عورت کہتی ہے،’’اگر ہم ایک بچے کو روٹی دیں، تو ہم ایک آسمان بچا لیں گے! ‘‘شہری بازار میں، جہاں ہجوم کے بیچ ایک لڑکی اپنی آواز بلند کرتی ہے، وہ بولتی ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ خالی ہوں، مگر ہمارے خواب بھوکے نہیں ہوں گے!‘‘ یہ آوازیں ایک نئے صبح کی نوید ہیں۔ اگر ہم جاگیں، اگر ہم نظام کے سامنے سوال اٹھائیں، اگر ہم بچوں کی بھوک کو اپنا درد بنائیں، تو یہ وادی پھر سے جنت بن سکتی ہے۔ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔ آج کشمیر کے 14لاکھ بچوں کی بھوک ہمارے ایمان کا امتحان ہے۔ یہ وقت نعروں کا نہیں، عمل کا ہے۔ ہمیں اسکولوں میں کھانا، دواخانوں میں دوا اور ماؤں کو عزت دینی ہوگی۔ ہمیں خوابوں سے پہلے پیٹ بھرنے کی ضمانت دینی ہوگی۔ اگر ہم آج اس بھوک کو نہ سمجھیں، تو کل ہماری انسانیت خود تڑپے گی۔یہ تحریر ایک رپورٹ سے بڑھ کر ہے،یہ ایک آہ ہے، ایک عہد ہے، ایک دعا ہے۔ کشمیر عظمیٰ نے سچ بتایا، مگر کیا ہم اسے اپنا بنائیں گے؟ اگر نہیں، تو ہم صرف کاغذ کے پڑھنے والے ہیں، دل رکھنے والے نہیں۔ یہ بچوں کی بھوک ہم سب کی بھوک ہے اور اس کا علاج ہمارا فرض ہے، جیسے کوئی پھول اپنی مہک سے گلشن کو ہمیشہ مہکاتا ہے۔
رابطہ۔9906083786