غلام رسول بٹ (بزاز)علمگری بازار ۔ آپ نے خوشنویسی کی تربیت لاہور سے حاصل کی تھی اور وہاں سے ہی شائع ہونے والے روز نامہ پرتاپ میں ملازمت اختیار کرکے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیاتھا۔تقسیم ہند کے بعد وہ واپس آئے اور ریاستی محکمہ اطلاعات میں بطور خوشنویس مقرر ہوئے۔آپ لاہوری خط کے ممتاز خطاط تھے ۔ اردو زبان و ادب پر آپ کی گہری نظر تھی اس وجہ سے اخبارات کے مدیر اور قلمکار صاحبان اپنے سکرپٹ کو پوری طرح دیکھ کر ہی ان کو کتابت کرنے کے لئے بیجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن آپ شمیم احمد شمیم صاحب کے ایک مضمون جو اخبار آئینہ میں چھپنے جارہا تھاٗ کی کتابت کرتے تھے تو اسمیںآپ نے ایک خاص غلطی کی نشاندہی کی اور شمیم صاحب کو یہ کہہ کردکھائی کہ آپ جیسے قلمکار کو ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے۔شمیم صاحب کہیں جانے کے لئے جلدی میں تھے تو اُن کی طرف مسکرا کر چل دئے۔آپ طبعاً شریف النفس اور سادہ لوح انسان تھے۔عمر بھراُنہوں نے تکالیف برداشت کئے لیکن کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ اپنے فرزند بشیر احمد کو کتابت سکھا رہے تھے تو وہ بار بار سکھانے کے باوجود غلطیاں دہرارہا تھا تو ان کو کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہی گال پر زوردار تھپڑ رسید کرتے تھے۔بعد میں بشیر احمد ایک بہترین خوشنویس کے طور اخباری دنیا پر چھا گئے۔ ان کے دوسرے فرزند شکیل احمد بھی فنِ خوشنویسی سے واقف تھے۔آپ کے یہ وونوں فرزند محکمہ اطلاعات میں ملازم تھے۔آپ نے تقریباً ایک سو کتابوں کی کتابت کی ہے۔ آپ ملازمت کے دوران ہی۱۹۷۹ ء میں انتقال کر گئے۔
محمد یوسف مسکین ۔ خوشنویسی آپ کا خاندانی پیشہ نہیں تھا۔ آپ کے والد صاحب قاضی حبیب اللہ مسکین پشمینہ کے کاروباری تھے۔ جو کاروبار میں زبردست نقصان برداشت نہ کرنے کے بعد اپنا کمسن عیال پیچھے چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔اس لئے محمد یوسف مسکین کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر خوشنویسی کا پیشہ اختیار کرنا پڑا ۔ آپ نے محمد امین واجدی اور بعد میں خواجہ حسام الدین وفائی کی شاگردی میں خطاطی کا فن سیکھ لیااور بڑی مہارت حاصل کی۔گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ نے بہ یک وقت کئی اخبارات میں کام کرنا شروع کیا ۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ مالکانِ اخبارات وقت پر کاتبان کو اُجرت نہیں دیتے تھے ۔ انہوں نے ایک گفتگو کے دوران مجھے بتایا کہ ایک اخبار میں کام کرتے ہوئے اُس نے ایک مہینے کی تنخواہ ۲۶ قسطوں میں وصول کی ہے۔بعد میں آپ کلچرل اکادمی میں بطور خوشنویس بھرتی ہوگئے اور یہاںولی محمد آف شالنہ جو آپ کے ساتھ ہی یہاں کاپیسٹ کے طور ملازم ہوئے تھے ٗ کے ساتھ مل کر کأشرِڈکشنری کا کام ہاتھ میں لے لیا اور اڑھائی مہینے کے ریکارڈ مدت میں تیار کی اس کے بعد اردو اور کشمیری زبان میں انسکلوپیڈیا تیار کی ۔ آپ نے ۱۹۷۶ ء میں کلچرل اکادمی کے اہتمام خطاطی کے کُل ہِند مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور انعام حاصل کیا۔آپ نے نئی دلی میں نیشنل سینڑ فار آرٹس کے اہتمام ۱۵ روزہ ورکشاپ میں بھی حصہ لیا ہے۔ خطاطی میں کمال حاصل ہونے کے علاوہ آپ صحافت اور ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور کئی اخبارات میں بطور ایڈیڑ کام کیاان میں روزنامہ آفتاب بھی شا مل ہے۔ آپ نے ایسے بھی لکھے ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیرل بھی لکھے اور دستاویزی فلمیں بھی بنائیں ۔ ترجمہ کا کام بھی ہاتھ میں لیا ہے۔ اس وقت آپ اپنے ہفت روزہ میراث کی ادارت میں مشغول ہیں۔ آپ کے برادرِ اصغر معراج الدین مسکین بھی ایک بہترین خوشنویس ہیں۔جنہوں نے ابتدا ء میں آپ کے زیر اثر بعد میں تعلیم گاہِ خوشنویسی مرکز میں تربیت حا صل کی۔ اس وقت وہ ایک سرکردہ اخبار کی ادارتی عملے میں شامل ہیں۔
پیر حسام الدین وفائی ۔ خوشنویسی آپ کا خاندانی پیشہ تھا مذہبی کتابوں ٗ نکاح نامے اور ساعت ناموں کو مخصوص انداز میں تیار کرنے کے فن میں ماہر تھے آپ کلچرل اکادمی کے تعلیم گاہ خوشنویسی مرکز کے اولین استاد تھے۔آپ نے اور لوگوں کے علاوہ اپنے فرزندوں نصیر احمد وفائی اور محمد سلیم وفائی کو بھی اس فنِ شریف سے روشناس کیا۔
سید شبیر احمد رضوی۔اپنے دور کے بہترین خطاط وخوش نویس تھے۔انہوں نے اپنے والد ِ محترم غلام حسن رضوی صاحب سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی تھی۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ پیدائشی فن کار تھے۔ان کے قلم کی خوبصورتی دیکھ کر ہمعصر خطاط رشک کر تے تھے۔محمد صدیق کے بعد وہ روزنامہ ’’آفتاب ‘‘کے ہیڈ کاتب ہوئے اور یہاں اپنے فنِ جدت طراز کا مظاہرہ کرکے وہ اخباری دُنیا پر چھا گئے ۔ وہ غضب کافن کاررتھے ،نستعلیق رسم الخط میں کمال حاصل ہونے کے علاوہ انہیںخط ِشکستہ اور خط ِ کوفی میں بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ انہوں نے خطاطی کے نئے نئے ڈیزائن سے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اخبار کی شہ سرخی میں وہ جان ڈالتے تھے۔ان کے سامنے ماہر خطاط بھی گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ وہ عہد جوانی میں ہی موزی مرض کا شکار ہو کر مداحوں اور عزیزوںکو داغ مفارقت دے گئے ۔ جب میں اُسے نئی دلی کے باترہ ہسپتال میں جہاں ان کا آپریشن ہوا تھاٗ ملنے گیا تو ان کی حالت مجھ سے نہیں گئی اُن کے خاندان کو کیا بیتی ہوگی وہ خُدا ہی جانتا ہے ۔سرکاری نوکری کے لئے تحریری ٹیسٹ ہم نے اکٹھے دیا تھا اور دونوں سلیکٹ ہو گئے تھے ۔ وہ ہارٹی کلچر میں بھرتی ہو گئے جب کہ میری محکمہ اطلاعات میں تعیناتی ہوئی لیکن اُنہوں نے کچھ عر صہ بعد ہی سرکاری نوکری کو خیر باد کیا جو میرے خیال میںان کا دانش مندانہ فیصلہ نہیں تھا۔وہ ۱۹۹۴ ء میں وفات پاگئے۔
غلام محمد مخدومی۔ خوشنویسی آپ کو وراثت میں ملی تھی۔آپ نے اپنے والدِ بزرگوار جناب غلام مصطفٰے شاہ مخدومی جو مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین خوشنویس بھی تھے ٗ سے تربیت حاصل کی۔ آپ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری سے وابستہ تھے۔آپ نے اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھ کراپنے تین فرزندوں جن میں شفاعت احمد مخدومی ٗ رفیع احمد مخدومی اور عبدالرشید مخدومی کو خطاطی کے فن سے روشناس کیا ۔جو بعد بہترین کاتبوں میں شمار ہوگئے۔شفاعت احمد مخدومی محکمہ اطلا عات میں ملازم ہو گئے البتہ ان کا تبادلہ وزیر اعلیٰ کے دفتر کیا گیا۔ جہا ں انہوں نے اپنی قابلیت کا ڈنکہ بجاکر شیخ محمد عبداللہ جیسی قدآور شخصیت کو اپنی موجودگی کا اظہار کرایا ۔ اور وہ بطورِ وزیرِ اعلیٰ انہی سے خط و کتابت کرواتے تھے۔شفاعت صاحب کا لکھنے کا انداز نرالہ ہے اور وہ نکاح نامیٗ ساعت نامے اور قبولیت نامے لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔رفیع احمد مخدومی کو اپنے والد صاحب نے خطاطی کی باریکیوں میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تعلیم گاہِ خوشنویسی مرکز میں داخلہ کرایا اور یہاں وہ محمد صدیق صاحب کی شاگردی میں اپنے فن کو مزید نکھارنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد میں آپ محکمہ دیہات سدھار میں بطور خوشنویس تعینات ہوئے۔ عبدالرشید مخدومی روزنامہ سرینگر ٹائمز کے ہیڈ کاتب رہ چکے ہیں ۔طبعاً خاموش اور بڑے نرم مزاج کے انسان ہیں ۔اس لئے کسی بھی کٹھن کام کو پُر سکون ڈھنگ سے عمل میں لاتے تھے۔ مجھے وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب ہم اکٹھے روزنامہ سرینگر ٹائمز کے صفحہ اول کی کتابت کرتے تھے۔وہ بڑے اطمینان اور محنت کے ساتھ اپنا کام پورا کرتے تھے چاہے اس میں آدھی رات ہی کیوں نہ نکل جائے۔ شاید یہی مزاج اور محنت اُسے ایک کامیاب شخص بننے میں کام آئی۔
بشیر احمد بزاز ۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار غلام رسول صاحب سے خوشنویسی کی تربیت حا صل کی ۔ آپ کو ایک بہترین کاتب بنانے میں ان کا زبردست رول رہا ہے ۔ بشیر صاحب کی سیمابی طبیعت کی وجہ سے انہیں آپ کو خطاط بنانے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔لیکن اُن کی محنت رائیگا ں نہیں ہوئی اور آپ کامیاب خوشنویس بن گئے۔مدیران اخبارات آپ کے آگے پیچھے دوڑ تے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے قلم میں پُھرتی تھی اور کام بڑی تیزی کے ساتھ مکمل کرنے میں ماہر مانے جاتے تھے۔محکمہ اطلاعات میں ملازمت کے علاوہ آپ روزنامہ آفتاب ٗ سرینگر ٹائمز اور آیئنہ میں بھی کام کر چکے ہیں۔ ابتدائی دنوں آپ اپنے والد کے ساتھ سردیوں میں جموں چلے جاتے تھے اور وہاں مقامی اخبارات میں کتابت کے فرایض انجام دیتے تھے۔محکمہ اطلاعات میں کام کرنے کے دوران آپ نے ماہانہ تعمیر ، پندرہ روزہ ’’مکتوب ‘‘کے علاوہ دو ماہی کشمیری رسالہ’’ آلَو‘‘ کی بھی کتابت کی ہے۔
پنڈت کاشی ناتھ رازدان۔آپ کو کتابت ورثہ میں ملی تھی ۔تعلیم گاہ خوشنویسی میںآپ بطور استاد کام کیا ہے اور کئی شاگردوں کو خوشنویسی کے فن سے آگاہ کیا ۔ آپ لاہوری خط کے ماہر استاد مانے جاے تھے ۔آپ کے برادر پنڈت شنبھو ناتھ روزنامہ مارٹنڈ میں مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ کتابت کے رموز سے واقف تھے۔
محمد عباس شوپیانی۔ آپ نے ابتدائی طور فن خوشنویسی اپنے والد محترم سے تربیت حاصل کی بعد میں آپ کا داخلہ تعلیم گاہِ خوشنویسی میںہوا اور یہاں صدیق صاحب کی شاگردی میں اس فن میں کمال حاصل کیا اور بہت جلدی کامیاب کاتبوں میں شمار ہوگئے ۔ کمپیوٹر کے لئے کشمیری سافٹ ویر بنانے میں آپ کا کافی عمل دخل رہا ہے ۔لیکن آپ شبیر احمد رضوی کی طرح ہی عہد جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
قاضی نظام الدین ۔خوشنویسی آپ کا خاندانی پیشہ تھا اور اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے اپنے فرزندوں کو اس فن سے روشناس کیا ۔ یہ مبارک پیشہ اختیار کرکے قاضی محمد حسین اور قاضی عبدالروف نے اس فن میں کمال حاصل کیا۔قاضی محمد حسین محکمہ اطلاعات جبکہ قاضی روف گورنمنٹ پریس میں کام کرتے تھے۔
اس فن کو عزت بخشنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے جن کا ذکر کئے بنا ء یہ مضمون ادھورارہ جائے گا۔ان میں غلام رسول عارف ٗ فا ضل کاشمیری ٗغلام نبی مہاجن ٗ پیر غلام حسن وفائی ٗ غلام حسن وانی ٗپنڈت لسہ کول ٗشریف الدین وفائی ٗ محمد امین قاری ٗ محمد یو سف ٗسید بہار شاہ ٗ موتی لال رینہ ٗ محمد خلیل ریشی ٗ اسداللہ خان ٗ عبدالحمید ٗ غلام نبی کول ٗ غلام حسن ٗمحمد افضل اندرابی ٗ مشتاق احمد نجمی ٗ غلام رسول بٹ ٗشفقت حسین ٗ غلام رسول شاہ ٗ منظور انجم اور نوجوان نسل میںصدیق صاحب کے برادر اصغر محمد یعقوب ٗ گلزار احمد (اطہر) معراج ترکوی ٗ ظفر احمد ٗ شریف الدین اندرابی ٗ ضمیر احمد ٗ غلام قادر ٗ محمد اشرف بٹ ٗ محمد شفیع ٗ طائر شمس الدین لولابی ٗ انور لولابی، محمد صادق ٗ مقصود حسین ریشی، رفیق احمد بٹ، محمد صدیق شولوری اور یہ خاکسارمحی الدین ریشی وغیرہم شامل ہیں۔نویں دہائی کے اخیر میں جب یہاںکمپیوٹر کا چلن شروع ہوا ، اخبارات اسی کے ذریعہ تیار ہونے لگے توخوشنویسی کے فن کو کافی دھچکا لگا۔ اکثر کاتب حضرات جن کا گذارہ اسی پیشے سے چلتا تھا ،بے روز گارہو گئے۔ کئی ایک کاتب حضرات نے کمپوٹر سیکھنا شروع کردیا۔ تعلیم گاہ خوشنویسی میں بھی اردو کمپوٹر سکھانے کا کام شروع کیاگیا۔ اس طرح سرکاری طور پر بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور اس فن نفیس کو ہماری تہذیب اور روایت سے جدا کرنے کی کو ششیں شروع کی گئیں۔آج حالت یہ ہے کہ شاذو نادر ہی کو ئی خوش نویس قلم اٹھانے کی تکلیف کرتا ہے ۔اس طرح یہ فن یہاں دھیرے دھیرے دم توڑ رہاہے۔
(ختم شد)