نوٹ :یہ مضمون میں اپنے استادِ محترم جناب محمد صدیق کی نذر کرتا ہوں جن کی آج تیسر ی برسی ہے ۔۔۔ محی الدین ریشی
ارضِ کشمیر جسے قدرت نے جہاں بے انتہا حُسن سے مالامال کیاہے وہاں یہاں کے باشندوں کو ایسے خوبصورت ہاتھ بھی عطا کئے ہیںجن سے رشک کئے بِنا نہیں رہا جاتا۔ان ہاتھوں کا کمال ان فن پاروں سے ظاہر ہوتا ہے جن کے چرچے نہ صرف ملک بلکہ غیر ممالک میں بھی عام ہیں۔ یہاں کی دستکاریوںکی شانِ رفتہ کا ذکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دُنیا کے بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران یہ چیزیں استعمال اور ایک دوسرے کو بطورِ تحائف پیش کرنے میں فخرمحسوس کرتے تھے ۔ ایسے ہی کئی فن پارے دُنیا کے بڑے بڑے عجائب گھروں میں اب بھی موجود ہیں۔مورخین کے مطابق فرانس کے حکمران نپولین کی بیوی جوزفینہ کشمیر کے کانی شال کو بڑے شوق کے ساتھ استعمال کرتی تھی۔ان فن پاروں سے اہلِ کشمیرکے تمدن اور تہذیب کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔دراصل شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانیؓ کے واردِ کشمیر ہونے کے ساتھ ہی کشمیر کی تہذیب تمدن ثقافت اور طرزِ معاشرت میں ایک انقلاب برپا ہوا۔آپ نے اپنے ہمراہ ساتھیوں کو جن میں علماء ،اہل فن ٗ ماہرین ِطب و حکمت اورماہر ین ِ زراعت شامل تھے ٗمستقل طور پر کشمیر میں رہنے دیا تھا۔ ان سے اہلِ کشمیر نے بہت کچھ حاصل کیا۔ یہ سب اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، ان کی بدولت کشمیری عوام کا ذریعہ معاش شال بافی، قالین سازی، نمدہ سازی گتہ سازی، ظروف سازی گل کاری پیپر ماشی ،عمارتی تزئین و آرائش، نقاشی اور خطاطی بنا۔گو کہ ان میں سے چند ایک ہنرکی روایات پہلے سے یہاں موجود تھیں البتہ ان کے آنے سے ان میں جدت اور وسعت پیدا ہوگئی۔
شاہ ہمدانؒ نے اپنے رفقاء کے ذریعے کشمیر کے طول و عرض میں درسگاہیں شفاخانے اور گھر گھر ہُنر مندی کے مراکز قائم کروائے جہاں تبلیغِ اسلام کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کو علم و فن کی دولت سے مالا مال کیا اس طرح صنعت و حرفت میں کمال حاصل ہونے کی وجہ سے اس سارے خطے کو ایران صغیر کہا جانے لگا۔اہلِ کشمیر نے جہاں مختلف ہنروں میں مہارت حا صل کی وہاں خطاطی یعنی خوشنویسی کے فن میں بھی وہ ایک خاص مقام حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ معتبر محقق محمد یوسف ٹینگ اپنی جستہ جستہ نامی کتاب میں یوں رقمطراز ہیں کہ سُلطان ذین العابدین کے وقت میں خو ش نویسوںکی بڑی قدر کرتے تھے اور انہیں گنائی (قلمکار) کا خطاب دیتے تھے۔ سلطان اپنے درباری خوش نویس با با عثمان گنائی کے جنازے میں خود شریک ہوئے تھے۔ خطاطی کی بات آگے بڑھاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ کشمیر کی خوشنویسی کا روشن آفتاب محمد حسین ذریں رقم کی صورت میں طلوع ہوا۔وہ مغل شہنشاہ اکبر بادشاہ کے درباری خوش نویس تھے۔ ان کے ہاتھ کا آیئنہ اکبری کا ایک نفیس نسخہ لندن میوزیم میں محفوظ ہے۔اسی طرح محمد مراد شریںقلم کشمیری کو اپنے عہد کا بہترین کاتب قرار دیا جاتا ہے۔ شاہ جہاں جو خود بھی ایک بہترین خوش نویس تھے ٗ نے اس کی شہرت سُن کر اسے درباری کاتب مقرر کیا تھا۔ محمد مراد کے خط کے نمونے جامع مسجدسرینگر کی محراب کے علاوہ تاج محل آگرہ میں بھی نظر آتے ہیں۔ اور دیوان خاص (لال قلعہ) دہلی میں بھی کشمیر قلم کے مستند نمائندے محمد مراد ہیں۔شاہ ہمدان کے کہنے پر ہی کشمیر کے سلطان قطب الدین نے اپنے نام سے منسوب شہر قطب الدین پورہ میں مدرسہ قرآن قائم کیا۔ جن میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ خوشنویسی کے فن سے بھی طلباء کو واقف کیا جارہا تھا۔ قطب الدین پورہ کا یہ دارالعلوم سکھ دور تک خوشنویسی کے فن سے بچوں کو روشناس کیا جاتا تھا۔جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ بڈشاہ اس فن کا دل دادہ تھا اور ان کے دور میں جہاں علم و عرفان کا دور جاری تھا وہاں کوئی ایسا شخص جو لکھا پڑھا ہو اور فنِ خوش نویسی سے واقف نہ ہو۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔علمی خاندانوں کے لئے خوش نویسی ایک لازمی جُز تھا۔ اولیاء اللہ اور خُدا دوست حضرات کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔ بابا داود خاکی ٗ حضرت بابا جیدتلہ مولی ایسے مشہور عالم سرکردہ خوشنویس تھے۔ ان کے علاوہ اس فن سے وابستہ نامی کشمیر خوشنویسوں کا ذکر کئے بنا یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ان میں یعقوب میر ٗ ملا محمد مُحسن شیرین قلم ٗ مرشداللہ کاتب ٗ میر حسن ٗ احمد بنِ ابراہیم ٗ میر سید افضل اندرابی ٗ مرزا اکمل الدین خان بیگ بخشی ٗ شاہ محمد صفا ٗ با با صالح ٗ ملا حبیب گنائی ٗ ملا عبداللہ ٗ عبدالوہاب خوشنویس ٗ سید عنایت اللہ ٗ میر کمال الدین اندرابی ٗ خواجہ محمد نقشبندی ٗ محمد اسلم ٹوپیگرو ٗ محمد اسماعیل ٗ میر محمد اشرف ٗ محمد اعظم مٹجی ٗ میر سید محمد اعظم ٗ ملا محمد امین رانا ٗ میر محمد باقر ٗ محمد رضا مشتاق ٗ میر محمد معروف ٗ مرزا بیگٗ ہدایت اللہ ابواؤلبرکات خان شامل ہیں۔ان کے علاوہ فارسی زبان کے عالم اور شاعر پنڈت بیر بل کاچرو اور پنڈت دیا رام خوشدل کاچرو بھی فنِ خوشنویسی میں ماہر گردانے جاتے ہیں۔
کشمیر پر مغلوں کی حکمرانی ختم ہونے کے ساتھ ہی خوشنویسی کے فن کا شاندار دور اختتام کو پہنچا۔ اگرچہ افغان دور جو کہ ظلم و جبر کا دور مانا جاتا ہے ٗ میں بھی خوشنویسی کا فن جاری رہا اور چند ایک نامور کشمیری خطاط افغان دربار کے ساتھ وابستہ رہے ۔ اس کے بعد سکھوں اور ڈوگراہ راج قائم ہونے سے اس فن کی چمک دھیرے دھیرے ماند پڑ گئی۔ اس کے باوجود ۱۸۳۰ ء میںصرف سرینگر شہر میں ۳۰۰ خوشنویس موجود تھے جو مذ ہبی کتابوں کی کتابت سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔
۱۹۴۷ ء کے بعد جب چھاپ خانوں کا رواج عام ہونے لگا۔ مشینوں کا عروج اس فن کے زوال کا سبب بن گیا۔ اگرچہ چھاپ خانوں کے رواج سے کاتبوں کی مانگ بڑھ گئی لیکن ان میں مشقت اور ریاض کا فقدان ہونے کی وجہ سے خطاطی میں وہ حُسن اور کمال نہیں رہا جو اس فن کی میراث تھی۔اس فن کے ساتھ ذوق و شوق رکھنے والے حضرات اسے اب صرف روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ تصور کرنے لگے اس طرح زود نویسی عام ہوگئی اور خطاطی دم توڑ بیٹھی۔
پانچویں دہائی میں یہ فن چند گھرانوں تک ہی محدود تھا جن کا یہ موروثی پیشہ رہا ہے۔ جن میں اندرابی ٗ وفائی ٗ قاضی ٗ رضوی ٗ مخدومی وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ فن کسی حد تک زندہ رہا ۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ یہ فن ان کے خاندان کے افراد تک ہی محدود رہا۔ البتہ اس فن کو عام کرنے میںریاستی کلچرل اکادمی کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس ادارے نے ۱۹۵۹ ء میں تعلیم گاہِ خوشنویسی کا ایک مرکز قائم کیا جس کے لئے خواجہ حسام الدین وفائی کو بطورِ اُستاد کی خدمات حاصل کی گئی مگر بد قسمتی سے یہ مرکز ۱۹۶۲ ء میں بند ہوگیا۔پھر ۱۹۷۴ ء میں سیکرٹری اکادمی محمد یوسف ٹینگ کی ذاتی کوششوں سے یہ مرکز بڑے اہتمام کے ساتھ دوبارہ شروع ہواجس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں ہوا۔پیر محمد افضل مخدومی اس کے انچارج ٗجناب محمد صدیق اورپنڈت کاشی ناتھ رازدان بطور استاد تعینات ہوئے۔ البتہ بیچ بیچ میں دہلی کے ماہرینِ فن عاصم امروہی اور محمد عتیق کی خدمات بھی حاصل کی جاتی تھیں جو طلباء کوخوش نویسی کی باریکیوں سے روشناس کراتے رہے۔تعلیم گاہِ خوشنویس کے اس مرکز کی بدولت یہ فن چند مخصوص گھرانوں سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ گیا اور کئی نئے اور با کمال خوشنویس وجود میں آگئے۔ اس دور میں یہاں اردو صحافت کا دور دورہ تھا اور روزانہ کئی اخبارات بازار میں آتے تھے جس کی وجہ سے خوشنویسوں کی زبردست مانگ تھی اور یہ مرکز ان اخبارات کے لئے ایک لائف لائن ثابت ہوئی۔ان دنوں خوشنویسوں کی اتنی قدرِ منزلت تھی کہ ایڈیڑ صاحبان ان کے ناز نخرے برداشت کرنے کے عادی بن چکے تھے۔صاحب مضمون چونکہ اسی پیشے سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ کئی دلچسپ واقعات کا گواہ بھی ہے جن کا ذکر الگ سے کسی اور شمارے میں کیا جائے گا۔خیر اس دور میں جن کاتب صاحبان کا سکہ چل رہا تھا ان کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
خواجہ محمد صدیق۔ اس دور کے بہترین خطاط کے طور مانے اور پہچانے جاتے ہیں۔انہیں اسلوبِ کشمیری کے آخری مسلم الثبوت استاد کے طور تسلیم کیا گیا ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں کتابوں کو زینت بخشی ہے۔ ریاست کی اردو صحافت کی تواریخ میں ا ن کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ کیونکہ اس میدان میں ان کا ایک زبردست کنٹریبوشن رہا ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ کے دورِ اقتدار میں محمد صدیق کو وہی مقام حاصل تھا جو مغلیہ دور میںذریں رقم محمد حسین کشمیری اور شیریں رقم محمد مراد کو حا صل تھا۔وہ نہ صرف ایک بہترین خطاط تھے بلکہ ایک صحافی اور قلمکار بھی تھے روز نامہ آفتاب کو شہرت کی بلندیوں تک لے جانے میں ان کا کلیدی رول رہا ہے ۔ وہ مختلف ناموں سے کالم لکھتے تھے ۔مدیر آفتاب خواجہ ثناء اللہ بٹ کی اولین ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔چونکہ اس فن کے ساتھ انہیں جنون کی حد تک محبت تھی اس کے لئے محنت اور سخت محنت کر نے کے عادی بن چکے تھے۔ اس فن کو اپنے شاگردوں تک منتقل کرنے کے وہ زبردست مشتاق تھے۔ یہ ان کا شوق سلیم تھا کہ اُن کے کئی شاگرد فنِ خوشنویسی میں کمال حا صل کر گئے۔ جن میں محمد عباس ٗ گلزار احمد معراج الدین ترکوی ٗ شریف الدین اندرابی ٗ معراج الدین ٗ رفیع احمد مخدومی ٗ انور لولابی اور محمد یعقوب ایسے کئی نام شامل ہیں۔ان کے علاوہ سید شبیر احمدرضوی ٗ بشیر احمد علمگری ٗ شفاعت احمد مخدومی جیسے کئی خطاط صدیق صاحب کو استاد مانتے تھے حلانکہ انہوں نے اپنے اپنے والد بزرگواروں سے اس فن کی تربیت حاصل کی تھی۔محمد یعقوب اور گلزار احمد صدیق صاحب کے برادرانِ اصغر تھے ۔ جہاں گلزار صاحب خطِ نستعلیق کے ماہر مانے جاتے ہیں وہاں محمد یعقوب کو طغریٰ لکھنے میں قدرت حاصل ہے۔ ابھی گذشتہ برس ہی کلچرل اکادمی کے اشتراک سے ان کے اور جی احمد آرٹسٹ کی مشترکہ خطاطی کی مختلف پینٹنگ کی نمائش کی گئی جنہیں لوگوں نے نہ صرف سراہا بلکہ خوب پسند بھی کیا تھا۔ الغرض محمد صدیق کی وجہ سے یہ فن یہاں پروان چڑھا۔ ان کے اہل خانہ کے تمام مرد و زن جن میں یہ نا چیز بھی شامل ہے اس فن سے نہ صر ف مانوس ہیں بلکہ اس میں نام بھی حا صل کرچکے ہیں۔ خوش نویسی صدیق صاحب کا موروثی پیشہ نہیں تھا البتہ انہوں نے اس فن کی تعلیم دہلی سے حاصل کی تھی اور یہیں ہفت روزہ نئی دنیا سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا ۔ لیکن زیادہ دیر تک دہلی کی ہوا انہیں راس نہ آئی اور واپس سرینگر آگئے ۔ یہاں پہنچتے ہی خواجہ ثناء اللہ بٹ کے ساتھ مل کر اخبار آفتاب شروع کیا۔بعد میں سرکاری نوکری کا پیشہ اختیار کیا۔ اور کلچرل اکادمی میں بطورِ انچارج تعلیم گاہ خوشنویسی کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔آپ ماسٹر جی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ کا انتقال آج ہی کے دن یعنی۱۹ جولائی ۲۰۱۵ ء کو ہوا تھا۔
غلام رسول بٹ (بزاز)علمگری بازار ۔آپ نے خوشنویسی کی تربیت لاہور سے حاصل کی تھی اور وہاں سے ہی شائع ہونے والے روز نامہ پرتاپ میں ملازمت اختیار کرکے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیاتھا۔
(بقیہ منگلوار کےشمارے میں ملاحظہ فرمائیں)