سرینگر // وادی میں اقتصادی صورتحال کے منظر نامے کی خرابی کا اعتراف کرتے ہوئے وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے کہا ہے’’ صرف کشمیر کے تاجر ہی یہاں جہاد کررہے ہیں کیونکہ وہ تمام مشکلات کا مقابلہ کررہے ہیں‘‘۔وہ ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے۔انکا کہنا تھا’’ میں یہ بات کہتا آیا ہوں کہ وادی کا تاجر طبقہ ہی اصل میں جہاد کررہا ہے کیونکہ وہ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود حکومت سے بنیادی باتیں حاصل کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں،مجھے انکا احترام ہے چاہیے کوئی 100روپے کا ہی کاروبار کیوں نہیں کرتا ہو‘‘۔قرضوں کی ادائیگی میں نظر ثانی کے بارے میں تاجروں کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ حکومت کا خود کا خسارہ 82 ہزارکروڑ ہے لیکن اسکے باوجود بھی ہمیں امید نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ امید رکھنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو کلہم طریقے سے معاملات کے حل کے لئے سامنے آنا ہوگا۔انہوں نے کہا’’یہاں بہت ساری تاجر انجمنیں ہیں،حتی کہ کسی انجمن کے 10اراکین ایک ساتھ آتے ہیں،میں اس بات پر زور دیتا آیا ہوں کہ یہ سب ایک ساتھ سامنے آئے،جب میں جے کے بنک چیئر مین تھا، تب بھی میں تاجروں سے کہتا تھا کہ ایک اکھٹے سامنے آئے‘‘۔وزیر خزانہ نے کہا’’31دسمبر کو تاجروں کو دیئے گئے مراعات کا وقت قریب آرہا ہے،رزیرو بینک بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ مدت کو بڑھایا جائے،میں آپکے ساتھ بیٹھوں گا،تاکہ کوئی حل تلاش کیا جاسکے‘‘۔درابو نے کہا ’’ تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی مشکلات نہیں دیکھیں ہیں،1990کی دہائی میں بھی اس طرح کے مشکلات تاجروں کو نہیں تھے‘‘۔انکا مزید کہنا تھا کہ اگر قرضوں کی ادائیگی سے متعلق جموں و کشمیر بینک کوئی اور رعایت دے گا تو اسکی مالی صحت پر بھی برا اثر پڑے گا‘‘۔دستکاروں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دستکار کسی سرکاری دفتر میں چپراسی بننا چاہتا ہے تو ایک سماجی مسئلہ ہے، ہمیں اس پر قابو پانا چاہیے۔جی ایس ٹی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا گیا،لیکن اب قالین صنعت کے مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ملک کی واحد ریاست ہے جس نے صنعتوں کو مراعات دئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ گذشتہ 20برسوں میں ریاستی حکومتوں نے 20ہزار کروڑ روپے مراعات کی مد میں خرچ کئے، تاہم انہوں نے کہا کہ ہوٹل کی صنعت کو مراعات دینے کی ضرورت ہے۔