نئی دہلی//بھارتی فو جی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا ہے کہ وادی کے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے نیز مساجد اور مدرسوں پر کسی حد تک کنٹرول ہونا چاہیے۔نئی دہلی میں سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل بپن راوت نے کہا کہ ریاست کے اساتذہ سکولوں میں طلاب کو دو نقشے سکھا رہے ہیں ، ایک بھارت کا اور ایک جموں و کشمیر کا۔فوجی سربراہ نے کہا کہ ریاست کےلئے دو نقشوں کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سوشل میڈیا اور سرکاری سکول حقیقت سے دور ایک مہم چلارہے ہیں جس کی بدولت نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مساجد اور مدرسوں پر’کچھ کنٹرول‘ ہونا چاہیے۔انکا کہنا ہے کہ اس نہج کے خلاف تعلیمی نظام کو بڑے پیمانے پر بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلہ سے نمٹا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ مساجد اور مدرسوں پر کچھ حد تک کنٹرول سے غلط اطلاعات کو پھیلنے میں مدد مل سکے گی، جسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے ہر ایک سکول میں جموں و کشمیر کا الگ نقشہ موجود ہے، اسکے ساتھ ساتھ بھارت کا نقشہ بھی ہے،ایسا ہونے سے بچوں کے ذہنوں میں الگ شناخت ہونے کے بیچ بوئے جانے کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔راوت نے کہا ” اگر آپ کشمیر کے کسی بھی سکول میں جائیں گے تو دو نقشے دیکھیں گے،کیوں جموں و کشمیر کا الگ نقشہ رکھا جائے،اگر آپ ریاست کا نقشہ رکھیں گے تو ملک کی تمام ریاستوں کے نقشے بھی رکھیں، کیوں آپ ملک کا نقشہ رکھیں اور ساتھ ہی بچوں کو بتادیں کہ ہماری الگ شناخت بھی ہے،لہٰذا مسئلہ کی بنیاد زمینی سطح پر ہے کہ کس طرح سکولوں میں تعلیمی نظام کو کورپٹ کیا گیا ہے“۔انکا کہنا تھا کہ ڈی پی ایس میں ایسا نہیں ہے، اسی لئے بیشتر سکولوں میں پتھراﺅ کرنے والے سامنے آتے ہیں، کیونکہ کئی نوجوان جو گرفتار ہوئے ایسے ہی سرکاری سکوں میں زیر تعلیم تھے۔انہوں نے کہا کہ مزید پبلک اور سی بی ایس سی سکولوں کو کھول کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔راوت نے کہا”کشمیر کے سکولوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے،اگر آپ کشمیر جاکر سکولوں میں دیکھیں کہ کونسی تعلیم دی جارہی ہے تو مجھے خوشی ہوگی“۔فوجی سربراہ نے کہا” دوسرا معاملہ مساجد اور مدارس ہیں، مساجد اور مدارس سے ہی بچوں کو معلومات فراہم کی جارہی ہیں، یا غلط اطلاعات دی جاتی ہیں، میرے خیال میں کچھ حد تک ان اداروں پر کنٹرول ہوناچاہیے،اور اسکے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں“۔تاہم انہوں نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کس قسم کا کنٹرول تجویز کررہے ہیں۔فوجی سربراہ نے کہا ” سب سے زیادہ تباہی ہمارے لئے سوشل میڈیا سے کی جارہی ہے،سوشل میڈیا اور سکولوں کی طرف سے بڑی حد تک غلط مہم پھیلانے سے نوجوان مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں“۔جنرل راوت نے کہاکہ اس سال کشمیر کے شمالی علاقوں میں آپریشن پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ 2017 میں فوج نے جنوبی کشمیر میں زیادہ آپریشن کئے اور اس سال شمالی کشمیر کے علاقوں بارہمولہ، پٹن، ہندوارہ، کپوارہ، سوپور، لولاب اور بانڈی پورہ میں زیادہ فوجی آپریشن کئے جائیں گے تاکہ دراندازی کی کوششوں کو روکا جاسکے۔جنرل راوت نے خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے کہا کہ بھارت اپنے پڑوسی ممالک کو چین کے زیر اثر نہیں جانے دے گا۔امریکا کی پاکستان کو دھمکیوں سے متعلق سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ بھارت کو دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی اپنانی ہوگی۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہیے بہر حال ہمارا کام امریکہ نہیں کرسکتا، ہمیں جو کرنا ہے وہ خود ہی کرنا ہوگا۔انکا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرکے پھینک دیتا ہے لیکن بھارتی فوج نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو بھی تکلیف کا احساس دلایا جاتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے پر اب بھارت سے دوگنا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے متواتر طور پیغامات موصول ہورہے ہیں کہ فائر بندی کا احترام ہو لیکن جب تک پاکستان اس کا احترام مکمل طور پر نہ کرے، سرحدوں پر صورتحال معمول پر نہیں آسکتی۔