سبدر شبیر
کشمیر ایک حسین وادی ہے ،جس کی زمین نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ زرخیزی کے اعتبار سے بھی بے مثال ہے۔ صدیوں سے کشمیر کی معیشت کا بنیادی ستون زراعت رہی ہے، جس پر مقامی آبادی کا بڑا انحصار رہا ہے۔ روایتی فصلوں جیسے گندم، چاول، مکئی اور دیگر کی کاشت یہاں کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں کشمیر کی زرعی زمین کی نوعیت میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس کی جگہ اب باغبانی اور تجارتی استعمال نے لے لی ہے، جو نہ صرف معیشت کو بدل رہی ہے بلکہ سماجی، ماحولیاتی اور زرعی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
باغبانی کو کشمیر میں ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے، خاص طور پر سیب، آڑو، چیری اور ناشپاتی کی کاشت کو یہاں کی خاص پہچان سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں روایتی فصلوں کی کاشت میں کمی اور باغبانی کے لیے زمین کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم معاشی فوائد ہیں۔ باغبانی کی پیداوار روایتی فصلوں کی نسبت زیادہ منافع بخش ہوتی ہے۔ پھلوں کی بڑھتی ہوئی طلب اور ان کی برآمدات نے باغبانی کو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کشش دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان اپنی زمینوں کو پھلوں کے باغات میں تبدیل کر رہے ہیں۔ مزید برآں، کشمیر کی خاص آب و ہوا پھلوں کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہے، جس سے باغبانی کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس روایتی فصلوں کو زیادہ پانی اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کسان کم پانی والے اور زیادہ منافع بخش باغبانی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
یہ رجحان اگرچہ معاشی طور پر فائدہ مند ہے، مگر زرعی تنوع میں کمی اور غذائی تحفظ کے مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔ زرعی زمینوں کا تجارتی استعمال بھی کشمیر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر شہروں کے قریب کی زمینیں صنعتی، رہائشی اور کمرشل منصوبوں کے لیے تبدیل کی جا رہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب آبادی میں اضافہ اور شہری پھیلاؤ ہے۔ کشمیر میں شہروں کی وسعت کے ساتھ زرعی زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے کسان اپنی زمینیں بیچ کر فوری مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کی ترقیاتی پالیسیاں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبے بھی زرعی زمینوں کو تجارتی استعمال کے لیے مختص کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
تجارتی زمینوں کے اضافے سے معیشت کو وقتی طور پر فائدہ پہنچتا ہے اور انفراسٹرکچر میں بہتری آتی ہے، مگر اس کے ساتھ زرعی زمینوں کی کمی اور دیہی معاشروں کے بگاڑ کے خدشات بھی بڑھتے ہیں۔ دیہی علاقے جہاں روایتی زراعت معاش کا ذریعہ ہے، وہاں زمین کی کمی سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ زرعی زمین کا باغبانی اور تجارتی استعمال میں تیزی سے تبدیل ہونا کئی مثبت اور منفی نتائج رکھتا ہے، جن پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلے، یہ تبدیلی کشمیری کسانوں کی معاشی حالت بہتر کر سکتی ہے۔ باغبانی کی پیداوار زیادہ منافع بخش ہونے کے ساتھ برآمدات کے ذریعے قومی معیشت میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ، باغبانی اور تجارتی سرگرمیوں میں نئی ٹیکنالوجیز اور جدید طریقوں کا استعمال بڑھ رہا ہے، جو پیداوار کو بہتر اور موثر بناتے ہیں۔ دوسری جانب، زرعی زمینوں کی کمی روایتی فصلوں کی پیداوار میں کمی کا باعث بن سکتی ہے، جس سے غذائی تحفظ متاثر ہو گا۔ اگر فصلوں کی مقدار کم ہوئی تو کشمیر کو باہر سے زیادہ اشیاء درآمد کرنا پڑیں گی، جو قیمتوں میں اضافہ اور عوام کی مشکلات کا سبب بنے گا۔
ماحولیاتی طور پر بھی باغبانی اور تجارتی منصوبے پانی اور کیمیکلز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، جو زمین کی زرخیزی کو کمزور کر سکتے ہیں اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ زمین کے حد سے زیادہ تجارتی استعمال سے جنگلات کی کٹائی اور قدرتی ماحول کی تباہی کے خدشات بھی موجود ہیں۔ سماجی لحاظ سے، زرعی زمینوں کی تبدیلی دیہی علاقوں سے لوگوں کی شہروں کی طرف ہجرت کا باعث بن سکتی ہے، جس سے دیہی ثقافت اور معاشرت متاثر ہو سکتی ہے۔ شہروں میں غیر متناسب آبادی بڑھنے سے بے روزگاری اور دیگر مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔
کشمیر کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زرعی زمین کے استعمال میں توازن قائم رکھا جائے۔ روایتی زراعت اور باغبانی دونوں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ غذائی تحفظ اور معیشتی ترقی دونوں ممکن ہو سکیں۔ اس کے لیے حکومت اور کسانوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پائیدار زراعت کو فروغ دینا اور جدید ماحول دوست تکنیکوں کو اپنانا ضروری ہے تاکہ زمین کی زرخیزی اور قدرتی وسائل محفوظ رہ سکیں۔ کسانوں کو جدید باغبانی اور زراعت کی تربیت دی جائے تاکہ وہ کم وسائل استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔ زرعی زمینوں کو غیر ضروری کمرشل استعمال سے بچانے کے لیے قوانین سخت ہونے چاہئیں تاکہ زمین کا ضیاع نہ ہو۔ ساتھ ہی، شہری اور دیہی منصوبہ بندی بہتر بنائی جائے تاکہ شہروں کی توسیع زمین کی زرخیزی پر منفی اثر نہ ڈالے۔
کشمیر میں زرعی زمین کا باغبانی اور تجارتی استعمال میں تیزی سے تبدیل ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ معاشی فوائد اور جدیدیت کے باوجود، اس تبدیلی کے نتیجے میں زرعی استحکام، ماحولیاتی توازن اور سماجی ڈھانچے کو درپیش چیلنجز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس تبدیلی کو دانشمندی سے سنبھالا جائے اور متوازن ترقی کی حکمت عملی اپنائی جائے تو کشمیر کی زرخیز زمینوں کو ایک خوشحال اور مستحکم مستقبل کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر کی زمین کی حفاظت، کسانوں کی بہبود اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے، زراعت اور باغبانی کے شعبوں کو فروغ دینا ہماری سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس وادی کی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
مزید برآں، ضروری ہے کہ کسانوں کو مارکیٹ کی معلومات اور جدید زرعی مارکیٹنگ کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار کا بہترین معاوضہ حاصل کر سکیں۔ سرکاری سطح پر بھی ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جو زرعی زمین کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھیں اور کسانوں کو زمین بیچنے پر مجبور نہ کریں۔ علاوہ ازیں، مقامی کمیونٹی اور حکومت کو مل کر زرعی تحقیق اور ترقیاتی پروگراموں پر کام کرنا ہوگا تاکہ مقامی حالات کے مطابق بہتر اور پائیدار زراعت کی تکنیکیں متعارف کرائی جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے زرعی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تاکہ خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
کشمیر میں زرعی زمین کی حفاظت اور اس کا دانشمندانہ استعمال نہ صرف اقتصادی استحکام بلکہ ماحول کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر وادی کی خوشحالی اور اس کے لوگوں کا معیارِ زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ زرعی زمین کے باغبانی اور تجارتی استعمال میں توازن برقرار رکھا جائے اور ایک جامع حکمت عملی کے تحت ترقی کی راہ اپنائی جائے تاکہ کشمیر کی زرعی وراثت کو محفوظ رکھا جا سکے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی خوبصورتی اور زرخیزی برقرار رہے۔
[email protected]