مفصل خاکہ
غلام قادر جیلانی
برطانوی دورِ حکومت میں، یعنی آزادی سے قبل ہی بھارت میں ریل سروس کا آغاز ہو گیا تھا۔ ہندوستان کی پہلی مسافر ٹرین 16اپریل 1853کو ممبئی سے تھانے کے درمیان چلی۔اس تاریخی آغاز کے بعد سے، بھارت میں ریل کا سفر نہ صرف بلا تعطل جاری رہا ہے بلکہ اس نیٹ ورک میں مسلسل بہتری لائی گئی ہے، جس سے مسافروں اور سامان کی نقل و حمل میں انقلابی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔
آج 69,181کلومیٹر کے ساتھ، ہندوستان کا ریلوے نیٹ ورک دنیا کا چوتھا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ یہ نیٹ ورک روزانہ کروڑوں مسافروں اور ہزاروں ٹن سامان کو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک منتقل کرتا ہے۔اس اعتبار سے، ہندوستانی ریلوے ملک کی ترقی اور نقل و حمل میں ایک کلیدی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے جموں صوبے کو پہلی بار 1897ء میں بھارتی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کیا گیا تھا۔ جموں شہر کا قدیم ریلوے سٹیشن، جس کے کچھ تاریخی آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، دریائے توی کے بائیں کنارے پر ہوٹل اشوک اور بکرم چوک کے علاقے کے بیچ میں قائم کیا گیا تھا۔1853سے 1897تک، ریلوے کو جموں پہنچنے میں پورے 44سال کا طویل عرصہ لگا اور یہ کامیابی کسی طرح بھی آسان نہیں تھی۔اس دوران، پنجاب کے اہم دریاؤں، یعنی ستلج، بیاس اور راوی پر عظیم الشان ریلوے پل تعمیر کرنے پڑے۔ چونکہ یہ کام آج کی جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل تھا، اس لیے ان پلوں اور ریلوے لائن کی تعمیر ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔
جموں کو ریلوے نیٹ ورک سے جوڑنے کے بعدمہاراجہ پرتاب سنگھ کشمیر کو بھی جلد از جلد ریل سے منسلک کرنے کے خواہشمند تھے۔ تاہم یہ ایک ناممکن نظر آنے والا چیلنج تھا۔ جموں اور کشمیر کے درمیان کوئی مناسب سڑک موجود نہیں تھی اور اس خطے میں سڑکوں کی تعمیر انتہائی خطرناک اور تھکا دینے والا عمل تھا۔شوالک کی کھردری پہاڑیاں عبور کرنا،پٹنی ٹاپ کی کٹھن چڑھائی اور رام بن کے قریب دریائے چناب کا خطرناک عبور ریلوے کے تعمیر میں حائل بڑی رکاوٹیں تھیں۔ اسکے علاوہ گھنے جنگلات، دشوار گزار پہاڑ، اور سردیوں میں شدید برفباری کام کی رفتار کو روکتی تھی۔ ان سب کے علاوہ پیر پنچال کے عظیم پہاڑی سلسلے کو پار کرنا کسی محنت طلب مہم سے کم نہ تھا۔
برطانوی حکومت نے وادی کشمیر کو ریل سے منسلک کرنے کے لیے تین مختلف منصوبوں پر غور کیا۔
سرینگر تک پہنچنے کے لیے سب سے آسان اور سستا ریلوے روٹ ایبٹ آباد (جو اب پاکستان میں ہے) کے قریب سے ہوتا ہوا، اُس وقت کی ریاست کی تحصیلوں مظفرآباد، اوڑی اور بارہمولہ سے گزرتا ہوا دریائے جہلم کے کنارے تک پہنچتا تھا۔ تاہم اس منصوبے کے تحت سرینگر کا براہِ راست رابطہ جموں سے نہیں بن سکتا تھا جو شاید مہاراجہ کی منظوری کے قابل نہ ہوتا۔
دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ ریل جموں سے اکھنور، ریاسی، ارناس، مہور، گول اور گلاب گڑھ سے گزرتی ہوئی پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے کو سرنگوں کے ذریعے عبور کرکے وادی تک پہنچے۔ چونکہ اُس وقت تک ان تمام علاقوں میں کوئی سڑک کا نیٹ ورک موجود نہیں تھا۔ اس لیے اس روٹ پر ریلوے لائن کی تعمیر عملی طور پر ممکن نہیں تھی۔ مقامی نقل و حمل صرف پیدل پگڈنڈیوں کے ذریعے ہوتی تھی، اور خوراک، ضروری اشیاء یا تعمیری سامان کی سپلائی کے لیے گھوڑوں اور خچروں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی ریلوے منصوبے کو سڑک کے نیٹ ورک کے بغیر وقت پر مکمل یا شروع نہیں کیا جا سکتا۔
تیسرے منصوبے کے تحت، ریلوے لائن جموں، ادھم پور، چینینی، سدھ مہادیو کی شیوالک پہاڑیوں ںسے گزرتی اور پھر کھلینی اور ڈوڈہ کی پہاڑیوں کو عبور کرتی۔ یہاں سے پیر پنجال کے سلسلے کو سرنگوں کے ذریعے کاٹ کر وادی میں کوکر ناگ کے قریب پہنچنا تھا۔ اس راستے میں دریائے چناب کو عبور کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، نیز علاقے کی دستیاب ٹوپوگرافی بھی مشکل تھی۔ اس کے علاوہ، لمبے سرنگوں کی تعمیر، مالیاتی رکاوٹوں اور متعدد تکنیکی و جغرافیائی مشکلات کا بھی سامنا تھا۔ مزید برآں، یہ لائن صرف نیرو گیج (Narrow Gauge) یا میٹر گیج ڈیزائن کرنے کی تجویز تھی۔
نومبر 1972 میں، جموں شہر کو ایک بار پھر ریلوے نیٹ ورک سے جوڑا گیا۔ بعد ازاں اپریل 1983میں اُس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے جموں۔ادھم پور ریلوے لائن کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ لائن زیادہ تر دریائے توی کے بائیں کنارے پر موجود، جغرافیائی طور پر نہایت پیچیدہ اور دشوار گزار شیوالک پہاڑیوں سے گزرنی تھی۔ غالباً یہ منصوبہ موجود تھا کہ اس ریلوے لائن کو کٹرہ کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر کی وادی تک بڑھایا جائے۔
اپریل 2005 تک، ادھم پور شہر بھی ریل سے منسلک ہو گیا، جبکہ ادھم پور۔کٹرہ لائن کی تعمیر ابھی جاری تھی۔ بالآخر، کٹرہ ریلوے سٹیشن کا افتتاح وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جولائی 2014میں کیا۔
تکنیکی لحاظ سے، وادی کو ریل سے جوڑنا انتہائی مشکل ترین کام تھا۔ اس کے بڑے چیلنجز میں کٹرہ کے قریب مین باؤنڈری (Main Boundary Fault)کو عبور کرنا، چناب پل کی تعمیر اور پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں لمبی سرنگیں کھودنا شامل تھے۔
2002 میں،اُس وقت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے دوران جموں و کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر، اس ریلوے لائن کی تعمیر کی ذمہ داری وزارتِ ریلوے کے تحت دو سرکاری اداروں کونکن ریلوے (KRCL) اور ارکان (IRCON)کو سونپی گئی، حالانکہ ریلوے لائن کا حتمی سروے بھی ابھی جاری تھا۔
وادی میں ریلوے کا کام پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ حکومت نے اسے ’’قومی منصوبہ‘‘ قرار دیا اور 11اکتوبر 2008کو وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نوگام سے مازہامہ کے درمیان چلنے والی کشمیر کی پہلی ٹرین کا افتتاح کیا۔ اس کے ساتھ ہی وادی میں ریلوے کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اس کے بعد ایک تاریخی پیش رفت سامنے آئی۔ کشمیر کے پیرپنچال پہاڑی سلسلے میں واقع 11.215کلومیٹر لمبی بانہال ریلوے سرنگ (Tunnel) کو جون 2013میں باضابطہ طور پر ریلوے آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ سرنگ کشمیر کو بقیہ بھارت کے ریلوے نیٹ ورک سے جوڑنے میں ایک کلیدی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس اہم پیش رفت کے نتیجے میں، بارہمولہ اور بانہال کے درمیان ریل کا کامیاب سفر جاری رہا۔ اس سروس کی وجہ سے لوگوں کے لیے نہ صرف کم کرایہ میں سفر کرنا ممکن ہوا بلکہ اس نے وقت میں کمی اور سفر میں بے پناہ آسانیاں بھی پیدا کیں۔
20فروری 2024کو ایک اہم پیش رفت سامنے آئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ادھم پور۔سری نگر۔بارہمولہ ریل لنک منصوبہ کے بانہال۔سنگلدان سیکشن کا افتتاح کیا۔اس باضابطہ آغاز کے ساتھ ہی سنگلدان کا علاقہ بھی ملک کے اہم ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہو گیا، جس نے کشمیر کو بقیہ بھارت سے جوڑنے کی کوششوں کو ایک اور مضبوط بنیاد فراہم کی۔
6جون 2025کو وزیر اعظم نریندر مودی نے وادی کشمیر کی پہلی وندے بھارت ایکسپریس ٹرین کا افتتاح کیا۔ یہ ٹرین، جسے کٹرہ۔سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کا نام دیا گیا، ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہوئی۔اس افتتاحی تقریب نے ادھم پور۔سری نگر۔بارہمولہ ریلوے لائن (USBRL)کی تکمیل کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی کشمیر کا خطہ مکمل طور پر بھارت کے قومی ریل نیٹ ورک سے جڑ گیا اور کشمیر میں وندے بھارت ریل کےباقاعدہ کمرشل آپریشنز اگلے ہی دن سے شروع کر دیے گئے۔
ریل نیٹ ورک کی سب سے مثبت اور خوش آئند پیش رفت مال بردار ٹرینوں کی شروعات ہے۔ اس سلسلے کا پہلا اہم قدم 9اگست 2025 کو اٹھایا گیا، جب پنجاب کے روپ نگر سے چلنے والی کشمیر کی پہلی سیمنٹ ٹرین اننت ناگ گڈز شیڈ پہنچی۔یہ واقعہ ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وادی کشمیر قومی مال بردار نیٹ ورک سے براہِ راست منسلک ہو گئی۔ اس طاقتور رابطے سے خطے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی رفتار کئی گنا تیز ہو گی اور معاشی ترقی کے فروغ میں زبردست مدد ملے گی۔
کشمیر کے میوہ کاشتکاروں کے لیے ایک انتہائی اہم اور تاریخی پیش رفت اس وقت ہوئی جب بھارت کے شمالی ریلوے نے 15ستمبر 2025سے وادی کشمیر سے دہلی کے آدرش نگر تک سیب کی نقل و حمل کے لیے ایک مخصوص روزانہ پارسل ٹرین سروس کا آغاز کیا۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ہاتھوں جھنڈی دکھا کر روانہ کی گئی یہ روزانہ کی سروس، سڑک کے ذریعے نقل و حمل کے مقابلے میں تیز، محفوظ اور زیادہ کفایتی متبادل فراہم کرتی ہے۔قومی شاہراہ پر بار بار کی رکاوٹوں کے پیشِ نظر، اس سروس کا بنیادی مقصد پھل کاشتکاروں کو بھرپور مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف جموں و کشمیر کی معیشت کو فروغ دیں گے گا بلکہ میوہ صنعت کو تقویت بخشتے ہوئے اسے قومی منڈیوں تک مضبوط رسائی بھی دلائے گا۔
کشمیر کی ریل تاریخ میں ایک نئی اور تاریخی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب رواں ماہ کی 3تاریخ کو 116ماروتی سوزوکی گاڑیاں ہریانہ سے ریل کے ذریعے براہِ راست وادی کشمیر پہنچائی گئیں۔کشمیر کی تاریخ میں ایسا پہلی بارہوا ہے کہ گاڑیوں کو ریل کے ذریعے منتقل کیا گیا ہو۔ اس سے قبل، ریل نیٹ ورک کی عدم دستیابی کی وجہ سے، گاڑیاں جموں سے کشمیر تک صرف سڑک کے ذریعے ہی بھیجی جاتی تھیں۔اس ریل سروس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ جموں۔سری نگر قومی شاہراہ سردیوں اور بارشوں کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ اور پتھر گرنے کی وجہ سے اکثر بند رہتی ہے۔ ان موسمی رکاوٹوں کے سبب، مختلف کمپنیوں کے کار ڈیلرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جو اب ریل کے محفوظ اور مسلسل رابطے سے ختم ہو جائیں گی۔
ادھم پور۔سری نگر۔بارہمولہ ریلوے لنک (USBRL) کی جون 2025میں تاریخی تکمیل نے کشمیر کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر مثبت توقعات پیدا کی ہیں۔اس اہم منصوبے کے فوائد کثیر جہتی ہیں۔ ان میں سیاحت اور تجارت کو زبردست فروغ دینے سے لے کر علاقے کی رسائی کو بہتر بنانے اور بقیہ بھارت کے ساتھ مضبوط انضمام(Integration) تک شامل ہیں۔ کشمیر میں ریل کی آمد سے خوشگوار اور آسان نقل و حمل کو مزید تقویت ملی ہے۔
اگرچہ کشمیر کے اس مشکل ترین ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر پر بڑا سرمایہ خرچ ہوا ہے، تاہم اس نظام کو مزید فعال اور کامیاب بنانے کے لیے حکومت کی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ عوام کا بھرپور تعاون بھی ضروری ہے۔ ریلوے نے کشمیر کے اہم شعبوں میں نہ صرف مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، بلکہ کشمیر کی معیشت، معاشرت اور تجارت کو ایک نئی جہت اور کافی فروغ دیا ہے۔یہ پیش رفت محض انجینئرنگ کا ایک کارنامہ نہیں بلکہ کشمیر کی معاشی ترقی اور قومی دھارے میں مکمل شمولیت کی طرف ایک ٹھوس قدم ہے۔
(مضمون نگارگورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ میں مدرس ہیں۔)
[email protected].