نئی دہلی// وادی کی موجودہ صورتحال پر سابق مرکزی وزراء، بیروکریٹوں،بشری و سماجی حقوق کارکنوں پر مشتمل’’متحرک وفکر مند شہریوں‘‘ کے گروپ نے حکومت او رکشمیری احتجاجی مظاہرین کو اس بات کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیاہے کہ دنیا بھر کے جمہوری نظام میں شورش زدہ خطوں میں تشدد سے کوئی بھی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔بھارت کے معروف15شخصیات پر مشتمل اس متحرک شہریوں کے گروپ نے کہا ہے کہ9 اپریل کو سرینگر میں ضمنی انتخابات کے دوران8 احتجاجی مظاہرین کے جاں بحق ہونے کا مسئلہ ہو یااسی روز200کے قریب فورسز اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بات ہو،اور اب طلاب کے احتجاجی مظاہرے،کشمیر میں دن بہ دن صورتحال بدتر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ موسم گرما میں پہلے ہی کافی خون اور خاک کو ہم نے دیکھا ہے۔ سابق مرکزی وزیر خارجہ،یشونت سنہا اور سلمان حیدر، نامور صحافی پریم شنکر جھا،معروف قانون دان بھارت بھوشن،جسٹس(ر) اے پی شاہ، وجاہت حبیب اللہ، نیرپما رائو،شیکھر گپتا، رام چندر گوہا،کپل کاک،جان دیال، سوشھبا باروئے، اُرونا رائے،ایس عرفان حبیب اوربدری رینہ پر مشتمل اس گروپ نے کہا ہے کہ حکومت اور نہ ہی کشمیری شہری یہ چاہتے ہیں کہ وادی میں2016کی صورتحال پھر سے پیدا ہو۔انہوں نے کہا کہ سرینگر پارلیمانی حلقے کے ضمنی انتخابات کے دوران7 فیصد شرح کی ووٹنگ اس بات کی وارننگ ہے کہ کشمیر کے رائے دہندگان کے دل کس حد تک بدل گئے ہیں اور انکا دماغ کس حد تک منتشر ہوا ہے۔ مذکورہ گروپ کا کہنا ہے کہ جمہوری عمل سے بداعتمادی، بالآخر بجائے خود مملکت کے جوازکو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے اور اصلاحی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مختلف نظریات والے لوگوں سے بات چیت جمہوری سماج میں مہذب طریقہ کار قرار دیتے ہوئے متحرک شہریوں کے اس گروپ نے کہا کہ دوریوں کو ختم کرنے کیلئے جمہوریت میں افہام و تفہم کا طریقہ کار بھی سب کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا دل بڑا ہے اور قانون میں بھی معقول لچک موجود ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں بشمول جموں و کشمیر کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کو اس میں شامل کرسکتا ہے۔ انہوں نے قیام امن کو مذاکراتی عمل کیلئے لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کیلئے مرکزی اور ریاستی سرکار کوفورسز کی تعیناتی اور احتجاجی مظاہروں کے دوران کارروائیوں میںمثالی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ احتجاجی مظاہرین کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے وہ نقصان دہ ہے۔مذکورہ گروپ نے کہا کہ سنگبازی اور جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران مداخلت وہ آسان ہدف بن سکتے ہیں۔گروپ کا کہنا تھا کہ صرف ایک شہری ہلاکت بھی وادی کی موجودہ صورتحال میں دھماکہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔سابق مرکزی وزراء،بیروکریٹوں،بشری و سماجی حقوق کارکنوں پر مشتمل’’متحرک وفکر مند شہریوں‘‘ نے حکومت ہند کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیری عوام تک پہنچنے کیلئے کارگر حکمت عملی ترتیب دیں جبکہ اس دوران کشمیری لیڈروں،سیول سوسائٹی،دانشوروں اور رائے سازو ںسمیت ریاست کے دیگر فریقین تک پہنچے۔انہوں نے کہا کہ مزاحمتی جماعتوں سے بھی بات چیت کی جائے جو کہ پی ڈی پی اور بھاجپا کے ایجنڈا آف الائنس میں بھی درج ہے۔ انہوں نے حکومت کو فوری طور پر مذاکراتی عمل شروع کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ وادی میں تشدد کے خاتمے اور کشمیری عوام کے جمہوری نظام پر اعتماد کو بحال کرنے کیلئے انکے مسائل کو حل کیا جانا چاہے۔فوجی اقدامات پر تکیہ کر کے موجودہ صورتحال سے باہر نکلنے کو قلیل مدتی قرار دیتے ہوئے متحرک شہریوں کے اس گروپ نے کہا کہ بات چیت کا راستہ اپنایا جانا چاہے۔