کشمیر کی جنت نما وادی غالباً گذشتہ تیس برسوں سے سیاسی افراتفری کے نتیجے میں کشت و خون، حقو ق البشر کی خلاف ورزیاں ، ایذاء رسانیاں، لوٹ مار، اغوا کاری، توڑ پھوڑ ، ہڑتالیں اور بند یہاں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ان گھمبیرحالات کا سب سے بدترین اثر درس و تدریس کے عمل پر پڑا ہے۔ یہاں کے تعلیمی اداروں میں لا تعداد طلباء اور طالبات جسمانی طورپر حاضر تو ہوتے ہیں لیکن اندرونی حالات کی جانچ پڑتال کیجئے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر ذہنی طور پر کلاسوں سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔ معلم اور متعلم کے درمیان صحت مند رشتوں کا تذکرہ اب فقط کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے یہ رشتہ کب کا دم توڑ چکا ہے۔ جب بچے والدین کے ہی منکر اور روگرداں ٹھہرے تو استاتذہ ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ معلم اور متعلم کے درمیان ٹوٹنے والے مقدس رشتے کے لیے اساتذہ صاحبان بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ماضی میں میلوں کی مسافت پیدل طے کرکے اساتذہ صاحبان وقت پر تعلیمی اداروں میں پہنچتے تھے اور وقت پر گھروں کی طرف کوچ کرتے تھے لیکن آج حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ گھر کی دہلیز سے لے کر ادارے کی دہلیز تک نجی سواری کا بندوبست ہونے کے باوجود بھی اکثر اساتذہ صاحبان مقررہ وقت پر اسکول پہنچنا کسر شان سمجھتے ہیں، جس کے لیے اُن کی اپنے عظیم پیشے سے عدم دلچسپی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ اساتذہ صاحبان کی ایک بڑی تعدادجزوقتی تجارتوں (Side Business) میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کو نبھانے میں بہت کم۔ پچھلی دو دہائیوں سے جمعۃ المبارک کو معمولاً اکثر تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا کام بالکل ہی نہیں ہوتا ہے کیونکہ اکثر وبیشتر جوان پود یہ دن فقط کرکٹ میچ کھیلنے کے لیے وقف رکھ کر جمعہ نماز کی رحمتوں ، نعمتوں اور اصلاح ِ ذات کی خواہش سے محروم رہتی ہے۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے زیادہ تر نوجوان کھیل میدانوں میں پورا دن کرکٹ کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں، جب کہ ملازم نماز کے بہانے اپنے فرائض کی ادائیگی سے کنی کتراتے ہیں۔ اس حساب سے جموں کے مقابلے میں کشمیر کے طالب عالم تعلیمی سال کے چالیس دن (ایک مہینہ دس دن) پڑھائی کی زیب و زینت سے محروم رہتے ہیں۔ چنانچہ ماہرین تعلیم کے مطابق تعلیمی میدان میں پیش رفت کے لیے درس و تدریس کے عمل میں تسلسل وتواتر ہونا بہت ضروری ہے لیکن یہاں کے ہڑتالی ماحول وغیرہ چیزوںنے اس عمل میں تسلسل کے بجائے رکاوٹوں کا سلسلہ متعارف کیا ہے۔ ہڑتالی ماحول نے طلباء و طالبات کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات ڈال دئے ہیں اور اس کے نتیجے میں تعلیم کی طرف اُن کی عدم دلچسپی میں اضافہ ہونا ایک لازمی امر ہے۔ تعلیم کی طرف نئی نسل کی عدم دلچسپی نے مدرسین کو بھی تمام سطحوں پردرس و تدریس کے کام میں تغافل شعار اور غیر ذمہ دار بنا کے رکھ دیا ہے۔ گذشتہ ڈھائی دہائیوں کی سیاسی افراتفری کے نتیجے میں سینکڑوں کالج، ہائی اسکول، مڈل اسکول اور پرائمری اسکول آگ زنی کی نذر کئے گئے، جس کے نتیجے میں ہزاروں طالب علم جگہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے سرگرداں اور پریشان سے دوچارہیں۔ پچھلے پارلیمنٹ الیکشن میں اکثر ان تعلیمی اداروں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا جنہیں الیکشن کمیشن نے انتخابی مراکز کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اس طرح ان اداروں میں بڑی دیر تک پڑھانے لکھانے کا کام کاج مفلوج ہوکر رہ گیا۔ فوجی کارروائیوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے نتیجے میں بھی تعلیمی اداروں کو سرکاری سطح پر بند رکھنے کے احکامات جاری کئے جانے کی روایت بن گئی ہے اور سنگ باری میں مبینہ طور کسی کے ملوث ہونے کے نتیجے میں بھی تعلیمی اداروں کو یہ مار سہنا پڑی کہ انہیں بند رکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں اساتذہ بھی نصاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہنا فطری بات ہے کیونکہ اس طرح کی نامساعد فضا کشمیر میں بچوں کا تعلیمی سال دیکھتے دیکھتے بیت جائے تو وہ کیا خاک پڑھیں لکھیں؟ گذشتہ کئی سال سے طلباء کی ایک خاصی تعداد کو Mass Promotion کی لت پڑی ہوئی ہے ،لہٰذا وہ آج بھی ایسے حالات پیدا ہونے کے متمنی ہوتے ہیں جو ان کے لیے Mass Promotion کے لیے راستہ ہموار کرسکیں۔ محکمہ تعلیم کے ساتھ وابستہ مختلف اداروں کی طرف سے ہونے والے نئے نئے تجربات بھی طلباء میں ذہنی انتشار پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی طرف سے اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بھی تعلیمی ماحول میں رخنہ پڑتا رہتا ہے۔ نازک ترین تعلیمی معاملات کو سمجھنے سے قاصر لوگوں کو محکمہ کے ذمہ دار عہدوں پر فائز کرکے ’’کار نجار بدست گلکار‘‘ والا معاملہ شعبۂ تعلیم کو درپیش ہے۔ مزیدبرآں سرکار نے کئی بار خود یہاں کے تعلیمی اداروں کو فوجی قیام گاہیں بناکر نہ صرف ان کا تقدس پائمال کیا بلکہ درس و تدریس کے عمل پر بھی قدغنیں لگائیں۔ ان اقدام کا بالواسطہ یا بلاواسطہ منفی اثر تعلیمی ماحول پر پڑنا ایک لازمی بات ہے۔
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے ہمارے کئی تعلیمی اداروں میں دست ِ غیب کی جانب سے نشہ آوراشیاء کے استعمال کو رواج دیا جارہا ہے۔ آج کی تاریخ میں طلباء کی ایک مخصوص تعداد اس لت میں گرفتار ہوچکی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ منشیات کے شکار بچے تعلیمی اخرجات کے نام پر والدین سے رقومات اینٹھ کر انہیں ڈرگ خریدنے میں صرف کرتے ہیں۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ نشہ کے خمار میںلڑکھڑانے والے ایسے طلباء اپنی صحت اور والدین کے خوابوں کو چکنا چور کر کے اپنی زندگیوں سے کھیلنے میں بھی پس وپیش نہیں کر تے۔ راقم الحروف نے آج سے 17 سال قبل ایسے کئی دل براداشتہ کر نے والے واقعات جموں کے سرحدی قصبہ راجوری میں دیکھے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس ملت کی بعض بیٹیاں بھی ڈرگ خوری کی دوڑ میں پیچھے نہیں ۔ بے راہ روی کے اس ماتمی ماحول نے بعض طلباء اور طالبات کی صحت اور نفسیات پر بہت ہی بُرا اثر ڈالا ہے، لہٰذا مستقبل قریب میں ان سے کسی قابل فخر کارنامے کی انجام دہی کی اُمید رکھنا عبث ہے۔
2014ء کے سیلاب نے بھی ہمارے تعلیمی ماحول کو بڑی حد تک زک پہنچادی۔ ایک طرف ہزاروں طلبہ گھر سے بے گھر ہوگئے ،دوسری طرف سیلاب نے سینکڑوں اسکولوں کو زمین بوس کرکے ناقابل استعمال بنادیا۔ طلباء اور طالبات سال بھر بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت تک کھلے آسمان تلے پڑھنے لکھنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ تعلیمی اداروں میں اربوں روپے مالیت کی کتابیں اور فرنیچر تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی عارضی تقرریوں نے بھی تعلیمی ماحول پر منفی اثرات ڈالے ہیں کیونکہ عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ کے بارے میں اکثر شکایتیں آتی ہیں کہ وہ اپنے فرائض احسا سِ ذمہ داری کے ساتھ نبھانے میں عدم دلچسپی سے کام لیتے ہیں اورعارضی تقرریوں کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کا کام بے ہنگم ہوکر رہ جاتا ہے۔
ہمارے تعلیمی ماحول کی تباہی کا ایک کارن ٹیوشن کا فیشن ہے جس نے بھی طلبہ کے لیے لیے ٹینشن کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ ٹیوشن مراکز کا اشتہار ی پروپیگنڈہ طالب علموں کو ان مراکز کی طرف راغب کرانے میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بیشتر ٹیوشن مراکز چلانے والے حضرات تعلیمی معاملات سے قطعی طور بے بہرہ ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد جوں توںدولت کمانا ہوتا ہے نہ کہ ملت کے جوانوںکو ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب دینا۔ ٹیوشن مراکز نام کمانے کی غرض سے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ یہ چیز طلباء میں تعلیمی اداروں کی جانب عدم دلچسپی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ سرکاری مداخلت سے پرے ان مراکز کے اڈوس پڑوس کا ماحول بھی اخلاقی اعتبار سے غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ اوباش اور آوارہ لڑکے ان مراکز کے درودیوار پر گندی مکھیوں کی مانند ڈیر اڈال کے ماحول کو کثیف کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات سے زیادہ تر طالبات کی پڑھائی کا عمل خاص طور سے متاثر ہوجاتاہے اور بعض باشعور طالبات کو مجبوراً ان تعلیمی مراکز کو الوداع کہنا پڑتا ہے۔
محکمہ تعلیم کے ساتھ وابستہ ادارے بھی وقتاً فوقتاً اپنی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امتحانوں کے انعقاد سے لے کر نتائج کا اعلان ہونے تک دیکھا جائے تو بے شمار خامیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ کلینڈر کے مطابق نہ تو وقت پر امتحانات منعقد کئے جاتے ہیں اور نہ ہی مقررہ وقت پر نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس مخمصے میں اُلجھ کر طلبہ کا کافی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ سوال ناموں کو ترتیب اور تشکیل دینے میں بھی بڑی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات امتحانی ہال میں لفافہ کھولنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ سوال نامہ نصاب کے مطابق نہیں ہے۔ اس طرح کی لاپرواہی سے ہزاروں طالب علموں کی محنت اور مشقت کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ امتحان سے متعلق ذمہ داروں کے تئیں لاپرواہی کارجحان کو بڑھاوا دینے میں یہ تعلیمی ادارے خود ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔ حد یہ کہ امتحانات سے متعلق لاپرواہی اور بے نیازی برتنے والوں کو آج تک کسی طرح کی جوابدہی کا سامنا کرنا پڑا نہ انہیں کوئی تادیبی سزا دی گئی تاکہ آئندہ اس طرح کی غلطیوں کا قبل از وقت تدارک ہو۔ جواب ناموں کی Evaluation کے وقت بھی کسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے۔ یہی جہ ہے کہ Re-evaluation کے بعد اکثر نمبرات میں ایک نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
تعلیمی نظام سے متعلق سرکار کی غلط پالیسیوں نے بھی ہمارے تعلیمی ماحول کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ کالجوں میں مخلوط تعلیمی نظام نافذ کرنے سے نہ صرف نظم و نسق میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے بلکہ طلباء اور طالبات کے ذوق و شوق میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ زیادہ ترطلباء اور طالبات کالج احاطے میں داخل ہونے کے باوجود کلاسوں میں نہیں جاتے ہیں بلکہ گپ شپ اور فضولیات میں ہی کالج کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مخالف جنس کا اختلاطی عمل کبھی کبھار لڑائی جھگڑوں اور بغض ورقابت کو جنم دیتا ہے اور یہ لڑائی جھگڑے کبھی ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں کہ کالج انتظامیہ کو ان پر قابو پانے میں کافی پاپڑ بیلنے ہی نہیں پڑتے بلکہ کالج کا پورا تعلیمی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ بے شک مخلوط تعلیمی نظام میں اخلاقی برائیوں کو پنپنے کا بھرپور موقعہ ملتا ہے اور طالب علموں کی ایک خاص تعداد اس غلط کارانہ فضا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہاں پر میں بداخلاقیوں کی ایک زندہ مثال دیتاہوں۔ ستمبر کے مہینے میں ہمارا کالج بغرض ایکسکرشن سونہ مرگ گیا ہوا تھا۔ واپسی پر شام کو طلبہ نے وقت گاڑی کی روشنیاں گل کردیں کہ سناٹا چھا گیا۔ بس میں سوار چار پروفیسر صاحبان آگے بیٹھے ہوئے تھے جب کہ بیس کے قریب طالب علم عقب میں براجمان تھے۔ یہ لڑکے بلاکسی لاج شرم کے کتے اور بلی کی آوازیں نکال کر اپنی اخلاقی پستی کا مظاہرہ کر نے لگے۔ اسی دوران ہمیں چرس بھرے سگریٹ کی بدبو محسو س ہوئی جو یہ داستان سرائی کر رہی تھی کہ طالب علم اخلاقاً کہاں کھڑے ہیں۔ افسوس کہ ان بیس طلباء میں سے کسی ایک کو بھی پروفیسر صاحبان کی عزت و تکریم چھوڑیئے ،ان کی موجودگی سے بھی ان کی اودھم مچانے میں کوئی فرق نہ آیا۔ میرے خیال میں اس طرح کی بدتمیزیوں پر اُترنا طالب علموں کا قصور نہیں بلکہ یہ اس تعلیمی ماحول کا ثمرہ ہے جس نے تعلیم و تدیس کے چشمہ ٔ صافی کو کب کا گدلا کیا ہو اہے اور تعلیمی اقدار وافکار کو کب کا موت کی نیند سلادیا ہے۔
معلم اور متعلم کے درمیان عزت و احترام کی ساری دیواریں مسمار ہوچکی ہیں۔ اس طرح کے منفی اور ناگفتہ بہ حالات نے کالجوں میں سنجیدہ فکر تدریسی عملے کے لیے خوف اور بے توقیر ی کی فضا بھی پیدا کردی ہے۔ ان لوگوں کو کسی شاگرد کو سدھارنے کے لئے ڈانٹ پلانے یا امتحان میں نقل سے روکنے کے وقت بہت احتیاط وضبط سے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سال سے کہیں کہیں نقل ہونے کے باوجود بھی بہت کم نقل مخالف مقدمے درج کئے گئے۔ چند سال سے امتحانی نظم و نسق کی رسی اس قدر ڈھیلی پڑگئی ہے کہ ایک دوسرے کے بدلے امتحان میں شامل ہونے کے کئی واقعات بھی مسلسل رونما ہورہے ہیں لیکن ’’جان بچی لاکھوں پائے کے مصداق‘‘ امتحانی عملہ یہ سلسلہ روکنے کا قواعد وضوابط کا سہارا لینے سے احتراز کرتا ہے۔
کشمیر کے مقابلے میں صوبہ جموں میں بہ حیثیت مجموعی تعلیمی ادارے بغیر کسی خلل یا رخنہ اندازی کے اپنی نصابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ملازمتوں کے سلسلے میں منعقد ہونے والے تقابلی امتحانات میں وہاں کے طلبہ وطالبات کا تردماغ وچرب دست کشمیری طلبہ وطالبات پر سبقت لینے میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ ان ناقابل بیان حالات کے لیے صرف کسی فرد یا ادارے کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا بعید از انصاف ہے بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس اجتماعی بربادی کے لیے من جملہ سب کشمیری اور ہمارے’’ کرم فرما ‘‘ کہیں براہ راست اور کہیں بلواسطہ ذمہ دار ہیں ؎
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
رابطہ :صدر شعبہ اُردوگورنمنٹ ڈگری کالج بیروہ کشمیر
موبائیل09419022648
ای میل: [email protected]