رئیس یاسین
کشمیر میں آج ایک سنگین سماجی مسئلہ تیزی سے جنم لے رہا ہے اور وہ ہے نوجوانوں کی شادیوں میں تاخیر۔ جہاں پہلے شادیاں سادگی اور دینی جذبے سے ہوا کرتی تھیں، آج وہی نکاح دولت، نوکری، گاڑی اور سماجی حیثیت کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ ایک طرف لڑکی کے والدین پر جہیز کا بھاری بوجھ ہوتا ہے تو دوسری طرف لڑکے بے روزگاری، مہنگائی اور مہنگے رسومات کی وجہ سے نکاح کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نکاح جو کہ ایک مقدس دینی فریضہ ہے، اب صرف ایک مالی معاہدہ بن کر رہ گیا ہے جس میں اخلاص کم اور دکھاوا زیادہ ہے۔
آج نکاح صرف لڑکی کے والدین کے لیے ہی نہیں بلکہ لڑکے کے لیے بھی ایک بڑی آزمائش بن چکا ہے۔ مہنگے رسومات اور بڑھتی ہوئی معاشرتی توقعات نے نکاح کو عام انسان کے لیے تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ جہاں امیر لوگ اپنی شادیوں پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں، وہیں اُن کے پڑوس میں ایک غریب لڑکی حسرت بھری نگاہوں سے اُن رنگین شادیوں کو دیکھتی ہے اور کسی ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ معاشرہ بن چکا ہے۔ خدارا! انصاف کرو!اسلام ہمیں نکاح کی سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا: ’’اور تم میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ان کے نکاح کر دو۔‘‘ (سورۃ النور: 32)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہوں کو نیچا رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔ افسوس کہ ہم نے ان سنہری اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر رسوم و رواج، مہنگی تقریبات، غیر ضروری اصراف اور جہیز جیسی لعنت کو اپنا لیا ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم نے نکاح کے راستے مشکل بنا دئیے اور فحاشی کے راستے آسان کر دئیے ہیں۔ سمارٹ فونز نے فحاشی کو عام کر دیا ہے، یہاں تک کہ اسکول کے بچے بھی ان گناہوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ گھروں میں چالیس سال کی عمر سے تجاوز کر چکی لڑکیاں نکاح کے انتظار میں بیٹھی ہیں، لیکن رشتے صرف پیسے اور معیار کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار ہم سب ہیں — والدین، نوجوان، سماج اور ہم سب کے رویے۔
شادیوں میں تاخیر کا انجام انتہائی افسوسناک ہے۔معاشرتی بے حیائی، زنا کا فروغ، نفسیاتی دباؤ، طلاق میں اضافہ اور خاندانوں کی بربادی۔ نکاح کے وقت دین داری، اخلاق اور انسانیت کو نظر انداز کر کے صرف نوکری اور تنخواہ دیکھی جاتی ہے۔ کیا ایک اچھا اخلاق، دین داری، پرہیزگاری اور نرمی جیسے اوصاف کم قیمتی ہیں؟ کیا یہ ضمانت نہیں کہ وہ شخص آپ کی بیٹی کا وفادار، مہربان اور شرافت پسند شوہر ثابت ہوگا؟اب وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے ان مسائل کو سمجھیں اور اصلاح کی راہ اپنائیں۔ ہمیں بحیثیت ِ اُمّت نکاح کو آسان اوربُرائی کے راستوں کو مشکل بنانا ہوگا۔ ہمیں سادگی، دین داری اور اخلاقی قدروں کو فروغ دینا ہوگا۔ جہیز کی لعنت کو رَد کرنا ہوگا اور شادی کے اخراجات کو کم سے کم رکھنا ہوگا تاکہ ہر نوجوان لڑکا اور لڑکی پاکیزہ بندھن میں بندھ سکے۔آئیے! ہم سب مل کر ایک نیا عزم کریں۔’’نکاح کو آسان بناؤ،بُرائی کے راستے کو مشکل بناؤ!‘‘یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں زنا، بے حیائی، طلاق اور معاشرتی بگاڑ سے بچا سکتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خوشحال، بااخلاق اور دین دار ہو تو ہمیں نکاح کے دروازے کھولنے ہوں گے اور فحاشی کے دروازے بند کرنے ہوں گے۔
[email protected]