فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، نے کہا ہے کہ کشمیر میں امن کا انحصار پاکستان پرمنحصر ہے اور امن وسکون کے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔فوجی سربراہ نے کہا کہ تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اس کے برعکس امن کو گلے لگانے سے جموں و کشمیر میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔انہوں نے یہ باتیں جمعرات کو اپنے دو روزہ کشمیر دورہ سمیٹنے کے موقع پر نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہیں۔ فوجی سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد اور بھارتی حدود میں جنگجوؤں کے بھیجنے کو بند کرنے کے عمل سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جنگجویانہ سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے جس کے پیش نظر ہم کسی بھی صورت میں اپنی تیاریوں کی سطح کو کم نہیں کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کی بحالی ایک مشکل کام ہے ،دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد قائم ہے، تاہم اعتماد بحال کرنا اور قیام امن پوری طرح سے پاکستان پر منحصر ہے۔
فوجی سربراہ کی یہ باتیں کسی حدتک حقیقت پسندی پر مبنی ہیں ۔آج اگر سرحدوں پر سکوت قائم ہے اور سرحدی آبادی چین سے زندگی بسر کررہی ہے تو بلا شبہ اس میں بھی پاکستان کا کردار ہے کیونکہ اگر اس دوران پاکستان نے جارحیت سے کام لیا ہوتا تو جنگ بندی معاہدہ پر اعادہ ممکن نہیں بن پاتا۔اصل میں دونوں ممالک کو امن کی جانب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور ایک خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کی سعی کرنی ہے۔
یہ اس صورتحال کا ایک پہلو ہے تاہم اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا تعلق کشمیر کی اندرونی صورتحال سے بھی ہے ۔مانا کہ پاکستان تشدد کو ہوا دے رہا ہے تاہم اندرونی طور پر بھی کشمیر میں اعتماد سازی کا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر کے عوام کو صرف اُسی صورت میں قومی دھارے میں مکمل طور شامل کیاجاسکتا ہے جب اُن کا اعتماد حاصل کیاجاسکے ۔بلا شبہ ا س سمت میں کوششیں ہورہی ہیں اور مرکزی حکومت سے لیکر جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کی لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ عوامی راحت رسانی کے کام جاری رکھے ہوئے ہے تاہم عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے دل جیتناناگزیر ہے ۔اس ضمن میںجموںوکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنا لازمی ہے ۔خود ملک کے وزیراعظم سے لیکر وزیر داخلہ تک سبھی متعلقین نے پارلیمنٹ کے ایوان میں کشمیری عوام سے وعدہ کیاتھا کہ حالات بہتر ہونے کے ساتھ ہی جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا لیکن اب دو سال ہونے کو ہیں ،ریاستی درجہ کی بحالی نہیں ہوپارہی ہے ۔فوجی سربراہ سے لیکر سیاسی قیادت تک سبھی اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ جموںوکشمیر خا ص کر کشمیر وادی کے حالات کافی حد تک بہتر ہوچکے ہیں اور تشدد کے گراف میں نمایاں کمی ہوئی ہے ،ایسے میں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مرکزی اکابرین کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب فوجی سربراہ خود کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں قیام امن کا انحصار پاکستان ہے تو ایسے میں مکمل امن کی بحالی کا انتظار نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ریاستی درجہ کی بحالی لوگوں کے دلوں کے انتہائی قریب ہے اور جموںوکشمیر کے درجہ کی تنزلی سے عوامی نفسیات کو جو ٹھیس پہنچی ہے ،اُس کا ازالہ صرف اُسی صورت میں ہوسکتا ہے جب جموںوکشمیر کا ریاستی درجہ واپس بحال کیاجائے جس کا مطالبہ نہ صرف جموںوکشمیر کے لوگ بلکہ سبھی مین سٹریم سیاسی جماعتیں بھی روز اول سے کرتی آرہی ہیں۔یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے اور ایک حکم سے یہ درجہ بحال کیاجاسکتا ہے ۔
ایسے میں امید کی جانی چاہئے کہ مرکزی حکومت عوامی جذبات کی قدر کرتے ہوئے کشمیر کے داخلی پہلوئوںکو ایڈرس کرنے کے ضمن میں پہلی فرصت میں جموںوکشمیرکا ریاستی درجہ بحال کرے گی اور اس میں اب مزید تاخیر نہیں کی جائے گی کیونکہ اس طرح کے فیصلہ سے نہ صرف عوام کا اعتماد اور بھروسہ جیتا جاسکتا ہے بلکہ جموںوکشمیر کی عوام کو قومی دھارے کے ساتھ جوڑنے میں مزید مدد مل سکتی ہے ۔اس کے بعد دیگر اعتماد سازی کے اقدامات بھی داخلی سطح پر اٹھائے جاسکتے ہیں جن کے نتیجہ میں ایک ایسی فضاء قائم ہوسکتی ہے جودلّی اور سرینگر کے درمیان موجود رشتے کو مستحکم کرسکتی ہے۔ترقیاتی فرنٹ پر بہت کچھ ہورہا ہے اور مزید کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن ترقیاتی عمل کے ثمرات صرف اُسی صورت میں عوام کو مل سکتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو قومی دھارے سے ہم آہنگ پائیں گے ۔پاکستان کے ساتھ انگیج کرنے کے ساتھ ساتھ ان داخلی پہلوئوں کو بھی بلا تاخیر ایڈرس کرنا بھی ضروری ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ مرکزی اکابرین معاملات کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے کشمیر میں امن و خوشحالی کیلئے تمام مطلوبہ اقدامات کرنے میں بخل سے کام نہیں لیںگے۔