مورخینکے ایک طبقہ کے مطابق کشمیر میں دعوت دین کا آغاز عہد نبویؐ میں اس وقت سے ہوگیا جب آپؐ کے صحابہؓ میں سے کچھ لوگ اس سرزمین میں تبلیغ کی غرض سے تشریف آور ہوئے اور یہاں کے حاکم ویندات Venadutt سے ملاقات کرکے اس کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کیا، پھر کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعدچین کا سفرکیا اور شاہراہِ ریشم Silk Routeکے ذریعہ واپس عرب روانہ ہوگئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب جنوبی ہندکالی کٹ کے حاکم Cheruman Perumal نے رسول اﷲ ﷺکی زیارت کیلئے مدینہ کا سفر کیا اور آپﷺ کی سیرت وکردار سے متاثر ہوکر اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا۔کچھ مؤرخین کا ماننا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب ۷۱۱ ھــ میں سند ہ پر حملہ کیا اوریہاں کے حاکم راجہ داہر کو قتل کردیا توکچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا۔ چنانچہ اسی عرصہ میں یہاں دعوت دین کا آغاز کیا اور کئی مساجداور عبادت گاہیں بھی تعمیر کروائیں،بعد میں ان کی فوج کے ایک شامی سپہ سالا ر ھمام بن سمعۃنے یہی سے کشمیر کا رخ کیا اور یہاں کے حاکم سے ملاقات کی ، جس نے اس کابڑی گرم جوشی سے استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ تحفہ میں ایک بڑی جاگیر عطاکی ۔اس پر انہوں نے کئی مساجدکی سنگ بنیاد رکھی، چنانچہ یہیں سے کشمیر کے اولین مسلم معاشرہ کی داغ بیل پڑی۔
مشہور کشمیری مورخ کلہن نے اپنی شہرہ آفاق تاریخ راج ترنگنی Rajatringni میں اس بات کا اعتراف کیاہے کہ گیارہویں صدی کے کشمیری راجہ Harshadeva نے اپنے دربار میں بہت سے عرب مسلمانوں کو بطوردرباری اور فوجی متعین کیا تھا،چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر میںاسلام کی تبلیغٖ واشاعت اور مسلمانوںکی آمد قرون اولیٰ میں ہوچکی تھی لیکن اکثر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کشمیر میں اسلام کی آمد چودہوی صدی کے اوائل میں اس وقت سے شروع ہوئی جب و سط ایشیا، ایران اورافغانستان سے وارد ہونے والے مسلم مہاجرین، علماء، صوفیا ء اورریشی حضرات نے یہاں سکونت اختیار کرکے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا ۔ اس سے قبل تیرہوی صدی کے اخیر تک یہاںہندومت (Hinduism) بدھ مت (Buddhism) اورشیومت (Shavism) بحیثیت مذاہب رائج تھے ، اس خطہ مینو نظیر میں دعوت دین کی نشر واشاعت کا سہرا سب سے پہلے جس ولی ٔ اللہ کے سر جاتا ہے وہ سیدشرف الدین عبد الرحمانؒ عرف بلبل صاحب ہیں ۔ وہ ایک نہایت درجہ کے تقویٰ شعار،عبادت گزار اور خدا ترس عالم دین تھے ۔ مؤرخین کے مطابق وہ ترکستان کے رہنے والے تھے جواس وقت منگولوں کے زیر اثر تھا، چنانچہ ان کے ظلم وبربریت کو ٹال کر وہ ترک وطن کرکے کشمیر واردہوئے اور سری نگر میںمقیم ہوگئے ، یہاں دین کی تبلیغ کاآغاز کیا ۔ کشمیری سماج پراپنے غیر معمولی اثرات مرتب کرنے اور دینی خدمات کی انجام دہی کے سبب وہ عوام میں بلبل صاحب ؒکے نام سے مشہور ہوئے۔ مشہور انگریزی مؤرخ Lawrence کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیری معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار تھا، لوگ منشیات، شراب نوشی اور قماربازی کے عادی تھے ، کشمیر میں ترویج اسلام اور اس کی بڑے پیمانہ پر دعوت واشاعت کاسلسلہ اس وقت سے شروع ہوا جب یہاں کے حاکم رینچن شاہ Renzu Shah Rinchanنے ۱۳۲۴ء میں عبد الرحمان بلبل شاہؒ کے ہاتھ پراپنے قبول اسلام کا اعلان کیا، وہ ایک لداخی شہزادہ تھا جو ۱۳۲۰ھ میں اپنے باپ کی موت کے بعد کشمیر کے تخت پر قبضہ آور ہوا ، مسلمان ہونے سے پہلے وہ بت مت کا پیروکار تھا ، حالانکہ بت مت کے مراسم عبادت، عقیدہ ،ذات پات اوررسوم ورواج کا سخت مخالف تھا ۔ رینچن شاہ قبول اسلام کے بعد سلطان صدر الدین کے نام سے موسوم ہوا۔اس کا قبول اســلام کشمیرکی مذھبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے ۔ اس کی ایک اہم وجہ اس کے قبول اسلام کے باعث اس کی رعیت کا کثر ت کے ساتھ میں قبول اسلام ہے، نومسلموں میں اس کے افراد خانہ اور اس کا برادرِنسبتی راون چندرخاص طورسے قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں بودھوں کی ایک بڑی اکثریت جنہوں نے اس واقعہ کے بعد برہمنیت کے مذہبی جبراور ذات پا ت کے طوق وسلاسل سے نجات حاصل کرنے کیلئے اسلام کو سینے سے لگایا۔سلطـان رینچن سے بعد میں بلبل شاہ صاحبؒ کیلئے سرینگر میں ایک خانقاہ تعمیر کروائی اورمسلمانوں کیلئے ایک مسجدکی سنگ بنیاد ڈالی جوکہ کشمیر کی سب سے اولین مسجد شمارکی جاتی ہے اور یہ علاقہ بلبل لنکر کے نام سے مشہورہے ، جو شہر خاص نواکدل سری نگر میں واقع ہے۔ اس کے قرب وجوار میںہی بلبل شاہ صاحبؒ کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے ۔ان کا انتقال ۱۳۲۷م / ۷۲۷ھـــ میں ہوا۔
تبلیغ اسلام کی نوخیز کلی جو بلبل شاہ صاحب کی کدوکاوش سے پروان چڑھی تھی ،اس وقت اپنے جوبن پر آکر کھل اٹھی جب میرسید علی ہمدانی ؒنے یہاں دعوت دین کا پرچارشروع کیا۔ وہ ایک بلندپایہ اولیا ء اللہ ، مستند فقیہ، دینی علوم کے ماہر، قرآن کریم کے حافظ ، بلند سیرت وکردار کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم المرتبت مصنف اور منصوبہ ساز اور دانش وربھی تھے۔ وہ ایران کے شہر ہمدان کے رہنے والے تھے اور علی ثانی کے نام سے مشہورتھے۔ آپؒ ۱۳۷۲م/ ۷۷۴ھ میںہمدان سے سات سو افراد پر مشتمل سادات کی جماعت کے ساتھ ہجرت کرکے کشمیر چلے آئے اور یہاں عارضی سکونت اختیار کرکے دعوت وتبلیغ کے کام میں لگ گئے۔ اس ہجرت کی ایک بڑی وجہ ترک حکمران تیمورلنگ کا وسط ایشیا پر قبضہ اور اس کے نتیجہ میںپیدا شدہ سیاسی بحران اور عدم استقرار بھی بتا یا جاہے تھا مگر مورخین اس بات کی وقعیت سے انکار کر تے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیرپر سلطان شہاب الدین کی حکومت تھی، ان کے دور حکومت میں آپ نے یہاں چار ماہ تک قیام کیا ، اسکے بعد آپ یہاں سے مکہ تشریف لے گئے اور ۷۸۱ ھـ میں وہاں سے لوٹ کر دوبارہ وادی تشریف فرما ہوئے، یہ سلطان قطب الدین کا دورحکومت تھا، اس مرتبہ آپ نے یہاں لگ بھگ ڈھائی سال تک قیام کیا، اس کے بعد ۷۸۳ھـ میں آپ ترکستان روانہ ہوئے، تیسری مرتبہ ۷۷۵ھـ میں کشمیر کا ارادہ کیا، آپ کا خیال تھا کہ اس دفعہ زیادہ عرصہ تک کشمیرمیں قیام کریں گے لیکن طبیعت کی خرابی کے سبب مجبور ہوکر آپ نے ختلان( ترکستان) کا ارادہ کیا جہاں آپؒ کی وفات۷۸۶ھـ میںہوئی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ وادی میں اپنے قیام کے دوران امر کبیر شاہ ہمدان میر سید علی الہمدانی ؒ اور ان کے مصاحبین کو سیاسی سرپرستی حاصل رہی جس کی بدولت انھیں یہاں وسیع تر پیمانہ پر دعوت دین کے مواقع میسر آئے، یہا ں تک کہ شاہی حلقوں تک دعوت وتبلیغ کی رسائی نصیب ہوئی۔ تین بار قیام کشمیر کی مدت میں تقریبا ۳۷۰۰۰ ہزار لوگ آپ ؒ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور کثیر تعدادمیں دعوت اسلام کے روحانی پیغامات سے سیراب ہوئے۔ میر سید علی ہمدانی ؒ نے لوگوں کی کردارسازی اور تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ خالص دینی تہذیب و ثقافت اور صنعت وحرفت کو بھی فروغ دیا ، چنانچہ آپ ؒ کی ہدایت پر یہاں کے حکمران سلطان قطب الدین نے غیر اسلامی ہندوانہ لباس ترک کرکے اسلامی لباس اختیارکیا، جس کے نتیجہ میں باقی مسلم رعایا نے بھی اسلامی طرز زندگی اور وضع قطع کے مطابق بتدریج اپنے آپ کوڈھال دیا۔ سلطان نے اس کے علاوہ کئی دینی مدارس بھی قائم کئے جہاں پر قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان مدارس نے اسلامی تعلیمات اورمسلم تہذیب و ثقافت کی تعمیم میں اہم ترین رول ادا کیا۔ میر سید علی ہمدانیؒ نے جہاں ایک طرف تبلیغی سرگرمیوں کے ذریعہ کشمیری عوام میں دعوت دین کی ترویج وتشہیر کام انجام دیا ،وہی اس کام کے لئے تحریری صورت میں متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں، جن میں ''ذخیرۃ الملوک'' اور '' اوراد فتحیۃ '' خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
شاہ ہمدانؒ کا دعوت دین کی نسبت کشمیر میں قیام کا ایک بڑا اثر یہ پڑا کہ اس کے ذریعہ یہاں ایرانی علوم وفنون کی ترویج شروع ہوئی، چنانچہ ان کے مصاحبین میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جو طرح طرح کی صنعت وحرفت کے ماہر تھے جن میں قالین سازی ،شال بافی، خطاطی اور بنائی وغیرہ شامل ہیں، چنانچہ ان لوگوںنے یہاں دعوتی مشن کی آبیاری کے ساتھ ساتھ ان فنون کی ترویج میں اپنا کلیدی رول ادا کیا ،علامہ اقبالؒ کے مطابق شاہ ہمدان ؒاور سادات عجم نے اپنی سکونت سے وادی کشمیرکو ایران صغری میں تبدیل کردیااور لوگوں کے فکر ونظر میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ حضرت میر سید علی ہمدانی کے بعدجس بلند مر تبہ شخصیت نے یہاں بڑے پیمانہ پر خدمت دین کا کام سرانجام دیا وہ ان کے فرزند ارجمندمیر محمدہمدانی ؒکی شخصیت ہیں ، انہوں نے ۱۳۹۴م/ ۷۹۶ھــمیں تین سو افراد کی معیت میں وادی کا سفر کیا۔ اس وقت ان کی عمرفقط۲۲بائیس سال تھی ۔مؤرخین کے مطابق اس سفر کے لئے انھیں ان کے والد نے وصیت کے طورپر دو تحریریں ارسال کی تھی۔ نو خیز عمری کے باوجود میر محمدعلم وحکمت سے لبالب اورتقوی اورجذبہ ایمانی سے لبریزتھے ۔ انہوں نے اپنے دعوتی مشن کے ذریعہ بہت سی ان منکرات، خرافات اور بدعات کے استیصال کی کوشش کی جو نووارد کشمیری مسلمانوں کے اندر اپنے آباء کی تقلید کے نتیجہ میں سرایت کرچکی تھیں۔ ان میں شراب نوشی،قمارباز ی ، گانے بجانے کی مجلسوں کااہتمام اورستی ( یعنی اگر کسی ہندو کا شوہر مرجاتا تواس کی بیوی بھی چتا پر زندہ جانے کی رسم) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ان کی دعوت کی ایک بڑی کامیابی سلطان سکندرکے کشمیری پنڈت وزیر اعلیٰ اور سپہ سالار سُہہ بٹ کا قبول اسلام ہے، اس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام سیف الدین نام رکھا۔اس کا قبول اسلام کئی برگزیدہ ہم وطنوں کے لئے بھی قبو لیت اسلام کا سبب بنا۔میر محمد ہمدانیؒ کے دینی جذبہ سے متأثر ہوکر حاکم وقت سلطان سکندر نے انھیںاپنا بھرپور دست تعاون دیا اورخود بھی ان کے ساتھ دعوت دین کے عملی میدان میں اترے، یہاں تک کی کچھ متعصب لوگوں نے انہیں بت شکن یعنی بتوں کوتوڑنے والا جیسا لقب دیا۔ سلطان نے اس کے علاوہ میر محمد ہمدانیؒ کیلئے سری نگر میں اس جگہ ایک خانقاہ تعمیر کروائی جہاں وادی میں اپنی آمد کے موقع پر ان کے والد شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانیؒ نے قیام فرمایاتھا ۔ یہ جگہ آج خانقا ہ معلی نے نام سے مشہور ہے اور کشمیرکی قدیم اور وسیع ترین عبادت گاہ شمار کی جاتی ہے۔مشہور مؤرخ جون راج سلطان سکندر اور قافلہ عجم کے اس سالارکی وصف میں رقمطراز ہے:
'' بادشاہ مسلمانوں کا مشتاق تھا۔ بہت سے مسلمان باقی حکمرانوں کو چھوڑ کر اس بادشاہ کی پناہ میں آگئے جو سخاوت کیلئے مشہورتھا۔جس طرح تاروں کے درمیان ایک روشن چاند ہوتاہے اسی طرح میر محمد ہمدانیؒ مسلمانوں کے درمیان تھے۔اگرچہ وہ لڑکے تھے مگر اپنے علم کی بنا پر وہ ان کے سردار بن گئے'' ( راج ترنگنی أز جون راج: ص/ ۶۵)
کاروانِ ملت کے ان عظیم داعیوں نے جہاں ایک طرف پیام حق کے شمعیں فروزاں کیئں، وہیں دوسر ی طر ف صوفیاء اور ریشی حضرات نے اسلامی تبلیغ کی مہم کیلئے اپنے لیل ونہار وقف کردیئے جن میں بابا زین الدینؒ ،سید محمد حصاریؒ، شیخ حمزہ مخدومیؒ، سید أحمد کرمانی ؒ اوربالخصوص شیخ نور الدین ریشی ؒکی مثالی شخصیتیں قابل ذکر ہیں۔ شیخ العالم شیخ نوار لدین نورانیؒ ضلع کولگام کے گاؤں کیموہ میں۱۳۷۷م / ۷۷۹کو پیدا ہوئے جو سری نگر سے تقریبا ۶۰کلومیڑ کے فاصلہ پر واقع ہے، آپؒ نے ابتدائی زندگی ترک دنیا اور گوشہ نشینی کی حالت میں گزاری مگر بہت جلد اس سے تائب اورکنارہ کش ہوکر اسلامی تعلیمات کے عرین مطابق میدان عمل میں کود پڑے ، دعوت دین کیلئے کشمیر کے طول وعرض میں پہنچے اوراس راہ میں عظیم ترین مشقتوںاور تکالیف پر صبر و تحمل کیا، کشمیری عوام میں اپنی غیر معمولی مقبولیت ، انسان دوستی اورعلم وعمل کے باعث وہ علمدارکشمیرؒ کے نام سے مشہور ہوئے۔ شیخ نور الدین نورانیؒ داعی، مفکراورعالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔اپنی حقیقت شناس شاعری کو انہو ں نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا وسیلہ بنایا،یہ شاعری حکمت اور دانائی سے لبریز ہے اور توحید، رسالت، فکرآخرت،حشر ونشراور دنیا کی بے ثباتی جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔اپنے کلام بلاغت نظام کے ذریعہ حضرت شیخؒ نے کشمیر ی عوام کے قول وفعل میں شریعت محمدی ؒکے جوہر بھر دئے اور آپ ؐ کی متابعت کرنے کی ترغیب دلائی،نیز تہذیبِ نفس، تعمیرحیات اور تجدید فکر پر ابھارا۔ مزیدبرآں اس کے ذریعہ وقت کے نام نہاد ملا اور صوفیاء کی کھل کی مذمت کی جو دین کی آڑ میں دنیا کا سودا کرکے اپنے اورغیروں کیلئے سامانِ ضلالت وگمرہی کرتے ہیں۔چنانچہ رجوع الی اﷲ کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' خداکی ذات تھی اور اسی کی ذات باقی رہنے والی ہے، اسی سے اپنی توقعات اورامیدیں وابستہ رکھنا، وہی تمہاری ساری پریشانیوں کا حل اورعلتوں کا مداوی ہے،اے میری جان اپنے جوہر کو پہچان! ''
میدان حشر کی تصویر کشی کرکے فرماتے ہیں:''روز محشر میں تمہارا کیا حال ہوگا جب خاص وعام کے ہوش باختہ ہوجائیں گے؟ ، اس دن باپ بھی اپنے بیٹے کوپہچاننے سے انکار کردے گا ، صابرین کا صبر جواب دے گا اور وہ بھی اضطراب کا شکار ہوجائیں گے'' ۔ قرآن کریم کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:'' اس کفروشرک کے طوفان میں کون ہے جو علم اوردین کا چراغ روشن کرئے، معروف کاعلم دے اور منکرات سے لوگوں کو بازرکھے، اور الف ، لام ، میم یعنی قرآن مقدس کاپیام عام کرئے،کیونکہ علم کا منبہ قرآن کریم ہی ہے''
نام نہاد ملاوں اور جھوڑے دینداروں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:'' ملا دیکھنا ہو تو ملا رومی کو دیکھنا ورنہ ملا دیکھ کر استغفارپڑھنا چاہئے''۔
وادی کشمیر میں مبلغین کرام اور داعیان عظام کی دعوتی واصلاحی کاوشیں سرعت کے ساتھ کفر و باطل سے ستیزہ کار رہیں یہاں تک کہ %90 فیصد مقامی آبادی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔ ۱۵۸۶ھـ میں مغلوں نے یہاں کی زمام حکومت سنبھالی، ان کے دور حکومت میں اسلام کو کافی پھلنے پھولنے کا موقع ملا، یہی وہ دور تھا جب کشتوار جموں کے راجہ جے سنگھ نے سید فریدالدین بغدادیؒ کے ہاتھ پر اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا،وہ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس کے قبول اسلام نے اس کے کئی ہم وطنوںکو قبول اسلام کی طرف راغب کیا۔
مغلوں کے بعد افغانیوں نے کشمیر کے تخت پر اپنے قدم جمالئے،ان کا دور حکومت ۱۷۵۳ء ــ ۱۸۱۹ تک قائم رہا، ان کے عہد میں بھی کشمیراسلامیانے Islamization کا سلسلہ بتدریج جاری رہا، مگر بدقسمتی سے یہ عمل اس وقت جمود کا شکار ہوا جب ۱۸۱۹ھـ میںسکھ کشمیر کے تخت پر قابض ہوگئے اور اپنی سیاسی اقتدار سے لوگوںپر ظلم و استحصال کا ہتھکنڈہ آزماناشروع کردیا، ان لوگوں نے دعوت وتبلیغ اور مذہبی امور کی ادائیگی پر پابندیاں عائد کردیں ،یہاں تک کہ سری نگرکی مرکزی جامع مسجد کولگاتار کئی بارمقفل کردیا۔سکھوں کے زوال کے بعد ۱۸۴۶ھ میں جموں کے ڈوگرہ خاندان نے کشمیرپر قبضہ جمالیا۔ ان کا دورِحکومت کشمیرکی تاریخ کا بدترین دورتصورکیاجاتاہے،یہ وہی دور تھا جب یہاں غلامی اور بیگارکا نظام رائج ہوا اورحقوق انسانی کی بڑے پیمانہ پر پامالیاں ہوئیں۔ مذہب اس زمانے میں سیاسی جبر کا شکار رہا اور اشاعت مذہب ناقابل معانی جرم قرارپایاجو کہ اپنے داعی و مدعودونوں کیلئے سزا کا موجب ٹھہرایاگیا۔ظلم واستبدداد کا یہ دور بھی آخر ایک صدی کے اندرڈوگرہ حکومت کے سقوط کے ساتھ سرنگوں ہوکر رہ گیااور بہت جلدداعیان ِ دین کی بےلوث کا وشوں سے کشمیر کے گھر گھر میں اسلام کی شمع فروزاںہوئی ۔الغرض اس جنت نظیر سرزمین میںاشاعت اسلام کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے، یہ ساری تاریخ اﷲرب العزت کے اُن مخلص اور جانثاربندوں کے دینی جذبے، ایمان وعمل ،ایثار وقربانی اور فہم وفراست کی غماز ہے جنہوں نے اپنا وطن اور اپنا گھر بار چھوڑکرکشمیر میں دعوت دین کے پیغام کو عام کیااوراس سرزمین کو شرک کی آلائش سے پاک کرکے اﷲ کی وحدت کیلئے خاص کردیا۔
………………………………..
نوٹ: مضمون نگار اسسٹنٹ پروفیسر عربی، ڈگری کالج
اننت ناگ (اسلام آباد ) ہیں