مشہور ماہرِ لسانیات سرجارج گریرسن (1841-1951 ) کے مطابق ہندوستان بھر میں 174 زبانیں اور 544 بولیاں بولی جاتی ہیں اور اِن میں اردو بھی شامل ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ اردو ہندوستان کی کسی بھی ریاست کی مادری زبان نہ ہونے کے باوجود یہاں کے بیشتر خطوں اور علاقوں میں کم و زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور اِسی چیز کے مدِنظر ہندوستان کے عظیم شاعر اور ادیب مولانا الطاف حسین حالیؔرقمطراز ہیں:’’اردو تمام افرافِ ہنداستان میں عموماََ بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اسی کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اسی کو ترقی دی جائے‘‘۔(انتخابِ اردو نثر۔قومی کونسل بائے فروغ ارود ۔صفحہ نمبر۔69)
ہندوستان کی تمام دیگر ریاستوں سے صرف نظر جموں و کشمیر خالص ایسی ریاست ہے جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ 1886ء کے آس پاس ریاست میںاُس وقت کے شخصی حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے دیا‘ جس کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اِن تینوں خطوں سے وابستہ لوگ اردو کو وسیلۂ اظہار اور رابطے کی زبان کے طورپراختیارکریں۔ اس ضمن میں وادیٔ کشمیر کے صفِ اول کے صحافی ‘ شاعر اور ادیب غلام نبی خیالؔ رقمطراز ہیں:
’’کشمیر ایک واحد ریاست ہے جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔یہ سلسلہ دراصل انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا جب اس دور کے شخصی حکمران مہاراجہ رنبیرسنگھؔنے 1886ء میں اس غرض سے اردو کوسرکاری زبان بنایا کہ ڈوگروں کی ملک گیری کے جوش میں کشمیر‘لداخ اور جموں کو حادثاتی طور پر جو ایک ہی ریاست بناکے پیش کیا گیا تھا‘اس کے پیشِ نظر تینوں خطوں کے مابین گفت و شنید کاسلسلہ اسی زبان کی وساطت سے قائم ہوسکے‘‘ روزنامہ کشمیر عظمیٰ15 ۔ستمبر 2013ء
سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہونے سے قبل کشمیر میں اردو زبان کی تاریخ کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ جن کا احاطہ کرنا قدرے مشکل بلکہ صحیح معنوں میں کارے دارد والا معاملہ ہے۔ کیونکہ تاریخی ادوار کا جائزہ لینا کافی سخت اور عرق ریزی کا کام ہے جس کے بعد بھی انسان مطمئین نہیں ہوتا ‘ اور شکوک و شبہات کی گنجائش بہرحال رہتی ہے۔ بقول ایک امریکی مفکر بی ٹکمینB-Tuchman کے۔’’History is the unfolding of miscalculations‘‘یعنی تاریخ غلط اندازوں کا نتیجہ ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تاریخ کے تئین انسان ہمیشہ تذبذب کا شکار نظر آتاہے۔
بہرحال مہاراجہ رنبیر سنگھ نے نہ صرف یہ کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا بلکہ علمی اور فنی معاملات کو بھی زیرِ غور لایا اور ایک چھاپا خانہ (Printing Press ( قائم کر کے یہاں کے ادیبوں ‘ شاعروں اور قلمکاروں کے لئے نہ صرف ایک راستہ ہموار کیا بلکہ اُن کی سراہنا کر کے اُن سے کئی علمی و ادبی کارنامے بھی انجام دلوائے۔ اُس کے بعد چونکہ ریاست کے حالات میں تغیر آیا ‘ افراتفری کا عالم بر پا ہوا‘ لوگ انتشار کا شکار ہوگئے تمام شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ علم و ادب اور اردو زبان بھی انتہائی حد تک متاثر ہوئی۔ لیکن کہتے ہیں کہ زبان کبھی مرتی نہیں اور اردو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔لیکن کشمیر کی سرزمین سے ایسے عظیم اور قدآور عالم‘ مفکر‘ ادیب اور شاعر اُٹھے جنہوں نے یہاں اردو کے پرانے قالب میں نئی روح پھونک کر اِس زبان کو حیات ِ جاوداں عطا کی۔ لیکن موجودہ دور میں جہاں عالمی سطح پر اردو زبان کو سینکڑوں مسائل کا سامنا ہے وہاں کشمیر میں بھی یہ زبان کئی پیچیدہ مسائل سے دو چار ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں:۔
۱:۔یہاں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود بھی وہ درجہ نہیں دیا جاتا جس کی یہ مستحق ہے۔ سرکاری وغیر سرکاری دونوں سطحوں پر اردو کے تئین ہو رہی نا انصافی اردو زبان و ادب کے لئے ایک ایسا پیچیدہ مسلہ ہے کہ جس کی طرف اگر توجہ نہ کی گئی تو وہ دِن دور نہیں جب یہاں کے لوگ چاہے وہ عوام میں سے ہوں یا خواس میں سے آئن سٹائن اور ڈاروِن سے تو واقف ہونگے علامہ اقبالؔ ‘ غالبؔ‘ سر سیدؔ اور حالیؔ وغیرہ ہم سے نہیں۔ اردو زبان کی اس ناگفتہ بہ حالت کی ذمہ دار جتنی یہاںکی عوام ہے اُس سے کہیں زیادہ یہاں کی سرکار جو اردو زبان کو اپنے ذاتی اغراض اور مقاصد کے لئے تو ہمیشہ اور ہر دور میں استعمال کرتی ہے مگر اس زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتی۔ اردو دنیا کے مشہور ادیب اور صحافی شمس الرحمٰن فاروقیؔ کشمیر میں اردو کی اس حالتِ زار اور نار واسلوک کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہاں کی سرکار اور عوام خاس کر اردو زبان و ادب سے وابستہ لوگ دونوں کو ذمہ دارٹھراتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہاں (کشمیر کی)صوبائی حکومتوں نے یکے بعد دیگر اردوسے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی لیکن اردو کو دیا کچھ نہیں۔یہ بات افسوس ناک ہے اور تاریخ اِن تمام حکومتوں کو اس معاملے میں مجرم ٹھرانے میں ہر گز تامل نہ کرے گی۔لیکن اس سے بڑھکر بات یہ ہے کہ ہم اردو والے مانگتے نہیںتھکتے‘ خود کُچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں‘‘(ماہنامہ ’’بے لاگ‘‘ سری نگر ۔جون ۲۰۱۵)
۲: دوسرا بڑا مسلٔہ جو ریاست میں اردو زبان کو درپیش ہے وہ یہ کہ یہاںاردو کی کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو اس زبان کو فروغ دیتا اور اس کے مسائل کو زیر غور لاکر کوئی عملی اقدام کرتی۔ جب کہ ہندوستان کی دیگر کئی ریاستوں میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور اشاعت کے لئے اردو اکادمیاں قائم ہیں جیسے بہار‘ کرناٹک‘ ہریانہ اور جھارکھنڈ وغیرہ۔غور طلب ہے کہ اِن ریاستوں میں کشمیر کے برخلاف اردو کو نہ تو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی تمام سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی وہاں اردو اکادمیاں قائم ہیں جس کا سہرا اِن ریاستوں میں موجود اردو کے چاہنے والوں کے سرجاتا ہے۔ بقول کالی داس گپتا رضاؔ ؎
تجھ سے اے حسینۂ اردو میں
لوگ کہتے ہیں پیار کرتا ہوں
پیار ہی تجھ سے میں نہیں کرتا
جان تجھ پر نثار کرتا ہوں
اس سب کے برعکس کشمیر میں اردو کو نہ صرف سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے بلکہ یہاں اسکولوں میں اردو کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھا یا بھی جاتا ہے اور اس کے باوجود بھی یہاں اردو کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوئی مخصوص اکادمی موجود نہیں۔ یہ بات جب شمس الرحمٰن فاروقیؔ کے سامنے ایک سوالیہ انداز میں دو ہرائی گئی تو انہوں نے جواب دیا:’’آ پ یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں کہ جموں کشمیر میںایسا کیوں نہیں (یعنی فروغ اردو ادارہ کیوں نہیں)۔ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ تو آپ لوگ بتائیں۔ آپ لوگوں نے بہار کے اردو والوں کی طرح جدوجہد کیوں نہیں کی؟ بہار والوں کی طرح اردوکے لئے جان کی قربانی دینے والے اور کہاں ہیں؟ خود کشمیریوں نے اردو کو اپنے گھروں میں زندہ اور روشن رکھنے کے لئے کیا کیا؟ سرکاری اداروں سے تقاضا کرنا اور خود کچھ نہ کرنایہ ہم لوگوں کا شیوہ کیوں بن گیا ہے۔(ماہنامہ ’’بے لاگ‘‘ سرینگر)
۳: تیسرا مسلٔہ یہ کہ یہاں اردو زبان سیاست کی نظر ہوگئی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جو چیز بھی سیاست کی نظر ہوگئی وہ تباہ و برباد ہو کے رہ گئی۔ یہاں اردو کو سرکاری یا دفتری زبان کا درجہ ضرور حاصل ہے‘ جس کی تصدیق نہ صرف مہاراجہ رنبیر سنگھ نے کی تھی بلکہ نیشنل کانفرنس کے منشور ’’نیا کشمیر‘‘ میں بھی اس کا مطالبہ اور وعدہ درج ہے مگر یہی سرکار جب کوئی دستاویز پیش کرتی ہے تو اردو کے بجائے انگریزی میں ہوتی ہے۔ مشہور ادیب محمد یوسف ٹینگ ؔ رقم طراز ہیں:۔’’اردو ریاست کی سرکاری زبان ہے جس کی تصدیق ریاستی آئین میں کی گئی ہے۔ لیکن آج باقی ملک کی طرح یہاں بھی اس کو دیس سے نکال دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سیکرٹریٹ سیاردو کو طلاق دی گئی ہے اب اسمبلی کونسل اور اِنفار میشن کا لٹریچراور پریس نوٹ تک اس میں شائع نہیں ہوتے جموں میں اردو کے نام پر استاد لگائے جاتے ہیں لیکن وہ سکولوں اور کالجوں میںدوسری زبانیں پڑھاتے ہیں۔ اردو ریاست کی وحدت کا نشان ہے اور اسی لئے ڈوگرہ مہاراجوں نے اسے سرکاری زبان بنا کر اپنی حکمرانی کے101 برسوں میں ریاست کو جوڑے رکھا۔نیشنل کانفرنس کے منثور’’نیا کشمیر ‘‘میں بھی اسے ریاست کی سرکاری زبان تسلیم کر لیا گیاہے لیکن اب اس کے زوال کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جموں ہائی کورٹ اور دوسرے دفاترمیں اردو میں لکھی عرضیاں قبول نہیں کی جاتیں۔ اردو کے ساتھ اس بے دردانہ سلوک کو کشمیر میں بعض حلقے تہذیبی جارحیت سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘(ہفت روزہ ’’چٹان‘‘7 تا13 ستمبر 2009ء)
زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ایک عالم گیر حقیقت ہے مگرسیاست کے زیرسایہ تعصب اور بغض کی بناء پر اردو کو مسلمانوں کی زبان گرداننے والے اُن لوگوں (جو اردو کو مسلمانوں سے منسوب کر کے اسے مٹانے کے درپے ہیں) کو کون سمجھائے کہ اردو اگر خالص مسلمانوں کی زبان ہوتی تو مہاتما گاندھیؔ نے 9 جون1938 ء کو جب وہ یارودہ جیل میں مقید تھے‘ چودھری محمد حسینؔکو اردو زبان میں خط لکھ کر اس بات کا برملا اظہار کیوں کیا کہ علامہ اقبال کی اردو میں لکھی ہوئی نظم ’’ہندوستان ہمارا‘‘ صبح وشام اُن کی زبان پر رہتی ہے۔ اور پنڈت جواہر لال نہروؔ نے 15 اگست 1947 ء کو صبح آزادیٔ ہند پر اردو میں تقریر کرتے ہوئے قوم کو اسی زبان میں کیوں مخاطب کیا؟ یا اردو کے مشہور افسانہ نگار پریم چند اور کرشن چندر مسلمان تو نہیں تھے۔ مشہور ادیب واستادمرحوم عبدالرحمٰن مخلصؔ لکھتے ہیں:ــ’’اردو کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہوتا‘ تو گریرسنؔ‘ جان گل کرائسٹ‘ پریم چندؔ‘ کرشن چندرؔ‘ تلوک چندمحرومؔ ‘ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوریؔ‘ اوپندرناتھاشکؔ‘ راجندر سنکھ بیدیؔ‘ کنور مہندرؔسنگھ بیدی سحرؔاور جگن ناتھ آزاد وغیرہ نے اس زبان کی آبیاری کبھی نہ کی ہوتی۔ لیکن لسانی عصبیت کو کیا کیجئے کہ یار لوگ اسے مسلمانوں کی زبان کہے بغیر نہیںرہتے ۔(پُروائی ۔صفحہ نمبر:70-69 )
یہ اس زبان کے تئیں سراسرمتعصبانہ سیاست برتی جارہی ہے اور۱۳۳۰ء میں یہی سیاست ‘ تعصب ‘ بغض اور نفرت ومغائرت فارسی زبان کے تئیں اختیار کی گئی تھی ، جب کہ اُس وقت کی حکومت نے فارسی کو سرکاری زبان قرار دیا‘ جس کے بعد محدودالفکر اور تنگ نظری کے شکار لوگ فارسی زبان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ فارسی میں چونکہ کافی اسلامی لٹریچر کافی منتقل ہوا تھا،اس وجہ سے تنگ نظر لوگوں نے یہ زبان سیکھنے والوں کو تعصب کی بنا پر کا طعنے دئے۔ آج ہو بہو یہی حال اردو کا کیا جارہا ہے کہ اسے مسلمانوں سے منسوب کر کے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ شیریں زبان ہمیشہ کے لئے فنائیت کا شکار ہو کر رہے گی‘ پھر شاید ہی اردو زبان کا سورج اپنی تابناک شعاعوں کے ساتھ کہیں نمودار ہو کر گلستانِ علم و ادب کو ایسی حرارت بخشے کہ داغ دہلویؔ کا یہ مشہور مصرعہ کسی کو حقیقت لگے ع
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
۴: آج کے تیز رفتار زمانے میں اُسی چیز کو ثبات ودوام حاصل ہے جو زمانے کی نزاکت اور رفتار کو سمجھتے ہوئے کشمکش اور انقلاب کو اپنا وطیرہ بنائے۔ بقول اقبال ؎
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب
روحِ امم کی حیات کشمکش ِ انقلاب
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
فون نمبر8825090545