غازی سہیل خان
گزشتہ دنوں مرکزی وزارت انصاف نے کشمیر کے حوالے ایک ایک چونکا دینے والی رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 10سے 17سال عمر کے 168700نوجوان جموں کشمیر میں منشیات کی لت میں گرفتار ہو گئے ہیں وہیں اس رپورٹ کو پڑھ کے انسان تب چونک جاتا ہے جب دس لاکھ مرد حضرات کے ساتھ ساتھ اب ایک لاکھ سے زائد خواتین بھی اس زہرناک وبا میں گرفتار ہو گئی ہیں ۔گذشتہ سال تک میں اکثر اپنے منشیات کے متعلق مضامین کی تمہید میں لکھا کرتا تھا کہ جموں کشمیر میں منشیات وبا کی طرح پھیل رہی ہے ! لیکن افسوس حالیہ حکومتی اعداد شمار کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے کو مجبور ہو رہا ہوں کہ جموں کشمیر میں منشیات ایک وبا کی مکمل صورت اختیار کر گئی ہے ۔پہلے پہل تو ہم پولیس کے ذریعے سے زیادہ تر گرفتاریاں جو منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہوتے تھے مرد حضرات کی ہی دیکھتے اور پڑھتے تھے ،لیکن آج خواتین کی گرفتاریاں بھی دھڑا دھڑ ہورہی ہیں ۔یہ اتنی جلدی کشمیر میں کیا سے کیا ہوگیا؟ مرد و خواتین اس انسانیت سوز دھندے میں کیوں ملوث ہو رہے ہیں ؟میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں ۔
بہر کیف اب اس وبا سے محض وہ منشیات کا عادی فردِواحد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے سبب گھروں کے گھر اور ہنستے کھیلتے خاندان برباد ہو کے سماج تباہی کی اور بڑی تیزی سے جا رہا ہے ۔نوجوان نشہ آور ادویات،شراب اور دیگر چیزوںکو خریدنے کے لئے اپنے گھروں سے قیمتی سامان کوڑیوں کے دام بیچ کے اپنی زندگی برباد کرنے سے ہچکچاتے نہیں ،جن کو گھروںمیںبیچنے کے لئے کچھ ملتا نہیں وہ دوسرں کے گھروں سے قیمتی سامان چُرا کے نشہ آو رچیزیں خرید رہے ہیں ۔کشمیر میں نشہ آور چیزوں کی خرید وفروخت آ ج کی تاریخ میں اپنے عروج پہ ہے ۔اس کاروبار سے وابستہ انسانیت کے قاتلوں نے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرکے اپنے لئے دولت کے انبار جمع کر کے محلات تعمیر کیے ہیں ۔بلکہ آج جو بھی زیادہ پیسہ کم وقت میں کمانا چاہتا ہے وہ اس انسانیت سوز دھندے میں شامل ہو جاتا ہے ۔کشمیر میں نشہ آور ادویات اور دیگر نشیلی چیزوں کا استعمال نوجوان بہت ساری وجوہات سے کر رہے ہیں ۔چند اپنی گھریلوں پریشانیوں کے سبب ،چند لڑکو ں اور لڑکیوں سے عشق و عاشقی کے سلسلے میں ،چند شوقیہ اور ماہرین کے مطابق چند نوجوان کشمیر میں چل رہی شورش کے سبب نشہ آور چیزوں کا استعمال کر رہے ہیں ۔یعنی اربوں کی دولت کو اُڑا کے جموں کشمیر کے نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہو کے ایک قومی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ لیکن یہ شراب اور دیگر نشہ آور ادویات کہاں سے اور کیسے کشمیر میں سپلائی کی جا رہی ہیں یہ کشمیر کی عوام جاننے سے قاصر نظر آ رہی ہے ۔ تاہم بی بی سی کی ایک رپورٹ ،جس کا عنوان ہی تھا کہ ’’ کشمیر میں منشیات کہاں سے آتے ہیں ؟‘‘لکھتے ہیں کہ ’’پولیس اور سول انتظامیہ کے کئی افسران کشمیر میں منشیات کے پھیلاو کو روکنے کے لئے کام کر چُکے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ 100؍سال پہلے کشمیر کے راستے ہی منشیات پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتی تھیں ،ان کے مطابق کشمیر کو ایران ،افغانستان اور پاکستان کے قریب ہونے کی وجہ سے گولڈن کریسنٹ یا ’’ سُنہرا ہلال ‘‘ کہا جاتا تھا۔ایک مقامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جس طرح کی وبا اب یہاں ہے، ایسا کبھی نہیں تھی،یہی وجہ ہے کہ یہاں 1990سے 2000تک نوجوان نیند آ ور یا درد کش گولیاں لیتے تھے ،پچھلے چند سال میں یہاں ہیروئن کی سپلائی بھی بڑھی ہے اور ڈیمانڈ بھی ۔‘‘(بی بی سی رپورٹ )
اس وبا کے سبب ہم دیکھتے ہیںکہ کشمیر میں جرائم کی تعداد بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔ ہم سب آئے روز اخبارات اور سوشل میں دیکھتے ہی ہیں کہ کس طرح سے ابھی بچے لڑکپن ہی کی عمر میں ہوتے ہیں اور وہ دیگر جوانوں سے معمولی قسم کی باتوں پر پارکوں ،گلی کوچوں اور چوراہوں پر جھگڑے تو اب روز کا معمول ہی ہیں تاہم اب دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان ایک دوسرے پر چھریوں سے بھی وار کرنے سے ہچکچاتے نہیں بلکہ حال ہی میں ایک نوجوان کی سرینگر میں مبینہ طور اسی قسم کی آ پسی رسہ کشی میں موت واقع ہو چُکی ہے ۔سماج میں لڑائی جھگڑے عام ہونا فتنے اور فسادایک ٹرینڈکی شکل ہمارے کشمیر میں اختیار کر گئی ہے ۔ وہیں چند نوجوانوں کو نشہ آوردوائی نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر دیتے ہیں ،اور چند کو خطرناک بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیںمثلاً کشمیر میں نشہ میں مبتلا 50؍فیصد تک افراد اپنی رگوں میں ہیروین انجیکشن کے ذریعے پہنچاتے ہیں اور کئی لوگ ایک ہی سوئی کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہیپاٹائٹس سی اور کئی دیگر خطرناک بیماریاں لگ جاتی ہیں ۔ان نشوں میں کشمیر میں بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ملوث ہو گئی ہیں بلکہ اچھے گھروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ان منشیات کا شکار ہو رہے ہیں ۔حکومت ہند کے وزارت انصاف کی حالہ رپورٹ ہمارے لئے چشم کُشا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کشمیر میں نوجوانون کو اس وبا سے پاک رکھنے کے لئے سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں ،پولیس اور علماء اپنی کوششوں کے باوجود بھی منشیات کو کشمیر سے ختم کرنا تو دور کی بات کم کرنے میں بھی ناکام دیکھائی دے رہے ہیں ۔ بلکہ آئے روز کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔عوام انتظامیہ سے یہ سوال کرتی ہے کہ یہ افیم اور ہیروئن اور دیگر نشیلی انجیکشن اورٹیبلٹس کہاں اور کیسے کشمیر میں پہنچ رہے ہیں ۔یہ بات واضح ہے کہ یہ سارا کچھ ایک منظم طریقے سے ہی انجام دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک اس دھندے سے وابستہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو پکڑا نہیں جاتا تب تک اس وبا پہ قابو پانا ممکن نہیں ہے ۔یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جموں کشمیر میں ڈرگ پالیسی کے اطلاق اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی کارروائیوں کے باوجود ڈرگ سمگلروں پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکتا ؟کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دھندہ ایک منظم پروگرام اور سیاسی لوگوں کے آشرواد سے چل رہا ہے۔ یہ عام لوگوں کے بس کی بات یہ نہیں ہے ۔اگر سرحدوں پہ اتنی فوج اور تاربندی کی گئی ہے تو وہاں سے اتنی بڑی مقدار میں ڈرگس کیسے کشمیر لائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سے وادی میں اگر فورسز کی نظر ہر ایک شحص پہ ہے تو یہ ہزاروں میں جو درندے کشمیر کے نوجوانوں کی زندگیاں اُجاڑنے میں مصروف ہیں، یہ کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہے ہیں ؟
اس ساری مایوس کُن اورتشویشناک صورتحال کے بیچ ہمیں چاہئے کہ ہم اجتماعی طور سماجی سطح پہ اس ناسور کو کشمیر سے اُکھاڑ پھنکیں ۔اپنے بچوں کو پہلے سے ہی اچھے اور بُرے کی تمیز کروانا سیکھائیں، اُن پہ نظر رکھیں اُنہیں دینی تعلیم سے آراستہ کروائیں ۔ہمارے علماء کا یہاں ایک خاص رول بنتا ہے کہ اپنی اپنی مساجد اور درسگاہوں میں بچوں کو تلقین کریں اس ناسور سے دور رہنے کی۔ سب سے اہم ذمہ داری ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ صاحبان پر کہ وہ بچوں کو منشیات سے دور رکھنے کے لئے مختلف طرح کے پروگرام منعقد کریں، بچوں کو پرائمری سطح سے ہی اس ناسور سے بچوں کو دور رکھنے کے لئے ہمارے سکول اور اساتذہ ایک عظیم کام انجام دے سکتے ہیں ۔وہیں انتظامیہ کو بھی اسلام پسند اور با حیاء نوجوانوں کو بھی کشمیر میں نوجوانوں کے اندر دینی حس اور مذہبی بیداری کے لئے ایک موقعہ فراہم کرنا چاہئے۔جتنا نوجوان اپنے دین و مذہب کے ساتھ جُڑے رہیں گے، اُتنا وہ ان چیزوں سے دور رہ سکتے ہیں ۔ پولیس کو بھی چاہئے کہ اس منظم دھندے میں ملوث افراد ( خاص طور سے بڑے بڑے مگر مچھ )کے خلاف کڑی سے کڑی کارروائی عمل میں لا کر دیگر لوگوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا جائے۔
رابطہ۔ 7006715103