Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

کشمیر مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ ہے

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 8, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
سرینگر   کی تاریخی جامع مسجد میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے منبر پر چڑھ کر داعش کا پرچم لہرایا اور دولت ا لا سلامیہ کے حق میں نعرے بلند کئے تو وادی میں ہر جانب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ مختلف سوشل میڈیا پر دم بخود ہوکر اس واقعہ کا ویڈیو دیکھتے رہے اور صرف سرگوشیوں میں ہی اس پر تبصرہ کرتے رہے۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس دن کسی نے کھل کر اس واقع پر کسی طرح کا تبصرہ نہیں کیا۔ ہاں، جب دوسرے دن اوقاف جامع نے اس واقعے کی مذمت کی اور مزاحمتی قیادت نے بھی لب کشائی کی، تو لوگ بھی اس پر بات کرنے لگے۔  
عام لوگ اس واقعہ کو لے کر تذبذب کا شکار ہیں۔جامع مسجد سرینگر کے ساتھ کشمیر وادی کے ہر شخص کی بہت ہی گہری روحانی وابستگی ہے۔کرناہ سے قاضی گنڈ تک اور پہلگام سے پوشکر تک، وادی کے ہر مسلمان کے لئے سرینگر کی جامع مسجد اُمت مسلمہ کی وحدت کی ایک ایسی نشانی ہے جو صدیوں سے خوشگوار اور تکلیف دہ، پُر امن اور پُر تشدد، دوستانہ و دشمنا نہ موسموں کو سہتی ہوئی مسلمانوں کے روحانی سکون کا ایک مرکز رہی ہے۔ 1394 میں تعمیر کی گئی یہ مسجد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور صدیوں پہ محیط کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا گواہ ہے جس نے  کشمیر پر ہوئی زیادتیوں کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ خود بھی سہا ہے۔ 
29 دسمبر2018، نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد میں جو کچھ ہوا،یہ مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک گھنائونی سازش تھی اور اس سا زش کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری سرکار اور مزاحمتی قیادت پر ہی نہیں بلکہ اُن سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کی اس تاریخی مسجد کے ساتھ روحانی و جذ باتی وابستگی ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ اس گھنائو نے واقعے نے کچھ ایسے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب اگر جلدی نہیں تلاشا گیا تو مستقبل میں نہ جانے ایسے واقعات کہاں کہاں پیش آئیں گے اور کونسا رُخ اختیار کریں گے۔
جامع مسجد میں جو جھنڈے لہرائے گئے وہ کشمیر کی سر زمین پر پہلی بار نہیں دیکھے گئے۔گذشتہ ایک دو سال سے یہ جھنڈے وادی کے طول وارض میں لہرائے جارہے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے ہوں یا ہلاک شدہ جنگجوئوں کے جنازوں کے جلوس، یہ سیاہ پرچم ہر موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ جلسوں اور جلوسوں میں پرچم لہرانا ایک بات ہے لیکن مسجد میں ایسا کرنا قطعی جائزنہیں لیکن اس جھنڈے کے پیچھے چھپے نظرئے اور سیاست کیلئے کیا کشمیر میں کوئی گنجایش ہے؟ اگر مزاحمتی قیادت کا یہ ماننا ہے کہ ایسے نظریات کی کوئی گنجائش نہیں تو ان قائیدین سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج تک وہ خاموش کیوں بیٹھے۔جس دن پہلی بار اس جھنڈے کی نمائش کی گئی تھی، اگر مزاحمتی قیادت اُسی دن دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتی کہ کشمیر کی تحریک کا ایسے نظریات اور پر چموں سے کوئی لینا دینا نہیں، تو شاید آج جامع مسجد کا واقعہ پیش نہیں آتا۔
دوسری بات،22 دسمبر2018 کو انصار غز و ۃ ا لہند کے چھ جنگجو ترال علاقے میں ایک انکا ئو نٹر کے دوران ہلاک ہوگئے ۔ انصار غز و ۃ الہندگروپ کشمیر میں داعش (ISIS) کے چیپٹر کے طور کام کرتا ہے اور اس کا با ضابطہ اعلان گروپ کے لیڈر ذاکر موسیٰ نے کیا ہوا ہے۔ اور یہی وہ گروپ ہے جس کا جھنڈا جامع مسجد میں لہرایا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس گروپ کے نظریات اور سیاست کی کشمیری تحریک کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں تو مزاحمتی قیادت نے ہلاک شدہ جنگجوئوں کو ’شاندار الفاظ میں ‘ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اُن کیلئے غائبانہ جنازہ پڑھنے کی اپیل کیوں کی ۔ اگر مزاحمتی قیادت اس جھنڈے کے نظریات اور سیاست کو تسلیم نہیں کرتی اوراسے کشمیری تحریک کے لئے سود مند نہیں سمجھتی، تو اس پرچم کے نظریات میں ایمان اور یقین رکھنے والوں کے ساتھ یہ قیادت اظہار یکجہتی کیسے کر سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ کنفیوژن ہے اور مزاحمتی قیادت پر لازم ہے کہ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے واضح کریں کہ اس پرچم کے حوالے سے اُن کا اسٹینڈ کیا ہے۔
آخری بات،کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے سیاسی مسئلہ ہونے کی گواہی اقوام متحدہ کی قرار دادیں دیتی ہیں جن کو بنیاد بناکر مزاحمتی قیادت مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر تحریک چلا رہی ہے۔اس تحریک کو مذہبی تحریک کا رنگ کس نے دیا؟ ’ہم کیا چاہتے ۔ آزادی‘ کا نعرہ مکمل طور اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے میل کھاتا ہے۔ لیکن ’آزادی کا مطلب کیا ۔ لا الہ الاللہ‘ کا ان قرادادوں کے ساتھ کوئی نا طہ نہیں اور ہم جب یہ نعرہ لگاتے ہیں تو ہم مسئلہ کشمیر کی سیا سی ہیئت کو تبدیل کرکے اسے ایک مذہبی مسئلہ بناتے ہیں۔ہم اس بات کا بر ملا اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم خود مسئلہ کشمیر کو ایک مذہبی مسئلے کے طورپر پیش کر رہے ہیں اور جونہی ہم نے اسے مذہبی رنگت دی، ہم اپنے آپ داعش جیسی تنظیموں کے لئے راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ ہم داعش کے نظریات کے ساتھ بھلے ہی اختلاف کریں لیکن یہ تنظیم بھی  لا الہ الاللہ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی سیاست کو فقط ’آزادی‘ تک ہی محدود رکھا ہوتا تو شاید آج کوئی نقاب پوش جامع مسجد کے منبرپر داعش کا جھنڈہ لے کر نہیں آ چڑھتا۔ لیکن آزادی کے ساتھ لا الہ الاللہ  کو جوڑ کر ہم نے داعش، طالبان، القاعدہ جیسی اُن ساری تنظیموں کو کشمیر آنے کی نا دانستہ طوردعوت دے دی ہے، جو اپنے اپنے نظریات کی گتھیوں میں قید یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام کی بالا دستی کا ٹھیکہ اُنہوں نے ہی لے رکھا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم مصلحت پسندی کا چولہ اتار کر کھری کھری بات کریں۔ ہمیں واضح کردینا ہو گا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں  اور اسے کس نظریے کی حد میں حل کرنے کے متمنی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کی ہر مسجد اور ہر گھر میں یہی جھنڈے لہرائیں گے۔ ہر کسی ایسی ویسی حرکت کی ذمہ داری ’بھارتی ایجنسیوں‘ کے سر تھوپ کر اگر ہم نے حقیقت سے ایسے ہی چشم پوشی کرنے کی روایت بر قرار رکھی تو مستقبل میں کہیں کوئی بہتری کی امید فقط خیال است و محال است۔
 بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

راجوری اور ریاسی میں موسلادھار بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اہم سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل میں رکائوٹ ، مسافر گھنٹوں متاثر رہے
پیر پنچال
ٹنگمرگ میںپانی کی سپلائی لائین کاٹنے کا واقعہ | 2فارموں میں 4ہزار مچھلیاں ہلاک
صنعت، تجارت و مالیات
قومی سیاحتی سیکرٹریوں کی کانفرنس 7جولائی سے سرینگر میزبانی کیلئے تیار
صنعت، تجارت و مالیات
وادی میں دن بھرسورج آگ برساتا رہا|| گرمی کا72سالہ ریکارڈٹوٹ گیا درجہ حرارت37.4 ڈگری،ایک صدی میں جولائی کا تیسرا گرم ترین دن ثابت
صفحہ اول

Related

مضامین

تاریخ کربلا اور شہادت امام حسینؓ کرب و بلا

July 5, 2025
مضامین

امام حسنؓ، امام حُسینؓ اور شہدائے کربلا پیغامِ کربلا

July 5, 2025
مضامین

حق و باطل کا تاریخ ساز معرکہ واقعہ کر بلا

July 5, 2025
مضامین

شہادتِ سیّدنا امام حسینؓ حادثہ ٔکربلا

July 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?