سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایک خوبصورت اور توانا نوجوان بندوق تھامے کھڑا تھا۔ تصویر پر لکھا تھا کہ یہ لولاب کپوارہ کا منان وانی ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے۔ فوٹو پر نام پتہ اور تعلیم کی پوری تفصیل کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ نوجوان اب حزب المجاہدین کا ایک سرگرم رکن ہے اور اس کا عسکری نام حمزہ بھائی ہے۔یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ اتنی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان جس کے سامنے روشن اور تابناک مستقبل ہے بندوق اُٹھا سکتا ہے ۔لیکن حزب المجاہدین نے اگلے ہی روز اس کی تصدیق کرڈالی اور سید صلاح االدین نے ایک خصوصی بیان میں اس واقعہ پر مسرت کا اظہار کیا ۔یہ تصویر عین اسی روز سامنے آئی جب سوپور میںپولیس کا ایک اے ایس آئی اور تین کانسٹیبل ایک بارودی دھماکے میں موت کی نیند سوگئے۔
یہ وہی دن تھا جب پچیس سال پہلے اسی مقام پر ایک قتل عام بھی ہوا تھا جس کی دلخراش یاد میں سوپور بند تھا ۔ ایک طرف سوپور کے لوگ اس سانحے میں جدا ہونے والے اپنے عزیزوں کو یاد کرکے خون کے آنسو رورہے تھے اور دوسری طرف رفیع آباد میں کانسٹیبل غلام نبی کی تین معصوم بیٹیاں اپنے والد کے جسد خاکی کے سامنے پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ نہ جانے اس سے کیا پوچھ رہی تھیں ،یا شایدوہ اللہ سے پوچھ رہی تھیں کہ اب وہ کس کا ہاتھ پکڑ کر بازار جائیں گی ۔ کس کے انتظار میںایک ایک پل گنا کریں گی کہ وہ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ان کے لئے رنگ برنگی چوڑیاں ہوں گی ۔ کپڑے ہوں گے اور آنکھوں میں محبتوں کے آبشار ہوں گے ۔کانسٹیبل پرویز احمد کا معصوم سا بچہ بھی اس مردہ وجود کو دیکھ رہا تھا جس کی گود میں وہ کھیلا کرتا تھا ۔وہ یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ ابا کیوں بے حس و حرکت سویا پڑا ہے ،آج وہ اسے ہاتھوں میں اٹھا کر گلے کیوں نہیں لگاتاہے اور جیب سے چاکلیٹ نکال کر اسے کیوں نہیں دیتا ۔ان جنازوں میں شامل کئی لوگوں کے ذہنوں کو یہ سوال بڑا پریشاں کررہا ہوگا کہ پولیس کی وردی میں ہی سہی لیکن مرنے والے کشمیری ہی تو تھے، انہیں کیوں مارا گیا اور ان کی موت نے جن بچوں کو شفقت پدری سے محروم کردیا وہ بھی تو کشمیری ہی ہیں اور مسلمان بھی ہیں، انہیں کس جرم کی سزا میں یتیم کیا گیا ۔جو عورتیں بیوہ ہوئیں انہوں نے کونسا جرم کیا تھا اور جن ماؤں کے چراغ بجھا ئے گئے انہوں نے کس کا کیا بگاڑا تھا ۔
یہا ں ذہنوں میں یہ سوال تھے تو وہاں سوپور میں پچیس سال پہلے کے اس قیامت خیز دن کے منظر آنکھوں میں اُبھر رہے تھے جب ہنستے کھیلتے انسانوں پر دیکھتے ہی دیکھتے وہ قہر ٹوٹ پڑا کہ آن کی آن میں آگ خون اور تباہی کے سوا کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔سالوں کی محنتوں کے اثا ثوں سے شعلے اٹھ رہے تھے، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں ،گولیاں چل رہی تھیں ،آہ و بکا تھی اور چیخیں تھیں ۔فورسز کے جوتوں کی ہیبت ناک آوازیں تھیں اور سہمے ہوئے شہریوں کی آنکھوں سے برستا پانی تھا ۔پچیس سال پہلے بھی کشمیر کی سرزمین اس کے باشندوں کے خون سے سیراب ہوئی تھی اور آج بھی ہورہی ہے ۔یہ سلسلہ جاری ہے ۔ہر سال گنتی ہوتی ہے اور حساب ہوتا ہے کہ کتنی لاشوں کا خون اس زمین نے پیا۔ نئے سال کی شروعات بھی کشمیر یوں کے خون سے ہوئی ۔یکم جنوری کو اونتی پورہ میں جیش محمد کے تین جنگجو مارے گئے جن میں دو کشمیر ی تھے ۔چار جنوری کو سوپور میں ایک نوجوان کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا ۔ یہ جھڑپیں ، یہ لاشیں ، یہ کشت وخون اب ایک معمول بن چکا ہے اور حساس ذہنوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ جب اس طرح کا اندوہناک خون خرابہ جس کے شکار ایک ہی قوم، ایک ہی ملت اور ایک ہی معاشرے کے افراد ہوں روز کا معمول بن جاتا ہے تو اس کے قوم پر ، معاشرے پر ، تہذیب پر ، کردار پر ، ذہنوں پر اور دلوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ایسے حالات میں جو نسلیں پرورش پاتی ہیں ان کے وجود میں کیسے آتش فشاں دبے رہتے ہیں ۔اور ان کی آگ کس پر برستی ہے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے لولاب کے نوجوان نے اپنے روشن مستقبل کو کیوں ٹھوکر مار کر ایسا راستہ چن لیا جو اسے اپنے سارے علم کے ساتھ موت کے اندھیروں میں ہی جھونک دے گا ۔کیا اس نے یہ راستہ جنت کی حسرت میں چن لیا ۔ کیا اسے اس کے علم نے یہ یقین دلایا کہ جنت کا راستہ یہی ہے لیکن وہ تو جیالوجی پڑھ رہا تھا جس میں کہیں بھی جنت اور جہنم کا ذکر نہیں ۔اس نے ایم فل بھی کیا تھا ۔ اتنی تعلیم وہی حاصل کرسکتا ہے جو تعلیم کا ہی دلدادہ ہو اور تعلیم کا دلدادہ وہی ہوسکتا ہے جس کی آنکھوں میں تعلیم کی کسی بڑی منزل کا خواب ہو ،پھر اس کا خواب کیسے بدل گیا ۔ ایک تعلیم یافتہ ذہن یہ حساب بھی لگانے کی خوب اہلیت رکھتا ہے کہ ایک بڑی فوجی طاقت کے سامنے کلاشنکوف لیکر کھڑا ہونے کا انجام کیا ہوسکتا ہے ۔ اس کے باوجود اس نے بندوق ہاتھ میں لی تو کوئی تو بڑی وجہ ہے۔
مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما نے اپنے تقرر کے بعد کہا تھا کہ وہ نوجوانوں کے ذریعہ بندوق ہاتھ میں لینے کی وجہ جاننے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ منان وانی کے بندوق اُٹھانے کی وجہ دریافت کرسکیں گے ۔کیا حکومت نے اب تک بندوق اٹھانے کی وجہ دریافت کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے ۔ہر وزیر اعلیٰ نے بیروزگاری کو بندوق اُٹھانے کی بڑی وجہ قرار دیا ہے لیکن منان وانی کیلئے روزگار کا کونسا مسئلہ تھا ، اس کے لئے تو ہزاروں دروازے کھلے تھے ۔کیا سوپور جیسے قتل عام اس کی وجہ تو نہیں بنے ہیں اور سوپور میں آئی ای ڈی دھماکوں سے ہونے والی موتیں ایک بندوق کیخلاف دوسری بندوق کو جنم تو نہیں دیں گی ۔یہ دنیا کا ایک آزمودہ تجربہ ہے کہ ہر تشدد ایک نئے تشدد کوجنم دیتا ہے اور کشمیر اب ایک ایسی سرزمین میں تبدیل ہورہا ہے جس میں نوجوان لائبریریوں میں نہیں جاتے ،لٹریچر کو وہ انگریزی تہذیب کا جبر سمجھتے ہیں ۔انجینئرنگ اور سائنس کو وہ روزگار کے محض ایک ذریعے کے طور پر پڑھتے ہیں جو ان کی روحوں کو تسکین نہیں دیتا ۔بے قرار روحوں کی تسکین کیلئے وہ جہاںجاتے ہیں وہیں انہیں جنت کا راستہ مل جاتا ہے اور وہ اسی راستے پر گامزن ہوتے ہیں ۔
ترال کا سولہ سالہ لڑکا جنت کی تلاش میں ہی بندوق کو گلے لگاتا ہے اور موت کو گلے لگانے سے پہلے اعلان کرتا ہے کہ وہ زندگی کا لبادہ اتار کر جنت میں داخل ہورہا ہے ۔کیا سولہ سالہ بچے کا یہ یقین درست ہے ۔ اس پر بات کرنے کا جگر کس کے پاس ہے ۔نہ وزیر اعلیٰ کی نصیحتیں اس رحجان کو روک سکتی ہیں نہ مذاکرات کاروں کا تقرر ، نہ وزیر اعظم نریندر مودی کے گلے لگانے کازبانی مرحم ، اب شاید ہند پاک مذاکرات بھی اسے نہیں روک سکتے اور پاکستان بھی نہیں ۔جب کوئی جذبہ چاہے وہ محبت کا جذبہ ہو یا نفرت کا جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے تو اسے روکنے کا کوئی امکان ہی موجود نہیں رہتا ۔نہ فرہاد ر ک سکتا ہے نہ چنگیز خان رک سکتا ہے اور نہ سمندر کی موجیں رک سکتی ہیں۔ایک طرف یہ جنون ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف صف آرائیاں ہیں ۔دونوں طرف کشمیر کے ہی باشندے ہیں۔ایک صف میں وہ کشمیری ہیں جو ہندوستان کے ساتھ اپنی سوچ یا اپنی مجبوریوں کے سبب کھڑے ہیں اور دوسری طرف وہ کشمیری صف آراء ہیں جو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں اورکسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس معرکے کا انجام کیا ہوگا ۔
ایک طرف پاکستان جنگجووں کو تربیت دیتا ہے اور ہتھیار فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف ہندوستان پولیس ، فوج اور نیم فوجی دستوں میں کشمیریوں کو بھرتی کرکے انہیں تربیت دیتا ہے اور ہتھیار فراہم کرتا ہے ۔کشمیر کی زمین پر دونوں ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں اور یہ لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اور وسعت اختیار کررہی ہے۔حال ہی میں حکومت نے پنچایتی انتخابات کا اعلان کردیا حالانکہ وہ اننت ناگ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کرانے میں ناکام ہوچکی تھی اور اس کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ حالات انتخابات کے انعقاد کیلئے سازگار نہیں ہیں ،پھر پنچایتی انتخابات کیلئے حالات سازگار کیسے ہوئے ؟اس کے جواب میں بارہ منٹ کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں جنگجووں کی طرف سے پنچایتی انتخابات میں حصہ لینے والوں کی آنکھوں میں تیزاب ڈال کر انہیں عمر بھر کے لئے اندھا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ اس دھمکی پر سرکار کا ردعمل بھی قابل ذکر حد تک سخت نہیں ہے اور اپوزیشن کا بھی نہیں شاید اس طرح ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ دھمکی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ نہیں، لیکن اس دھمکی نے جو دہشت پیدا کردی وہ پہلے ہی سے دہشت زدہ لوگوں کا چین و قرار چھین چکی ہے ۔ایسے حالات نے ان ذہنوں کے سوچنے کی قوت ختم کرکے رکھ دی ہے جو غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے اورحقیقت پسندانہ اپروچ کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اب تجزیہ کرنے والے متحارب صفوں میں پوری طرح سے شامل ہونے والے لوگ ہی رہ گئے ہیں ۔اس لئے ان باتوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی نہیں جو کشمیر اور اس کے باشندوں کے مستقل کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں ۔
یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ قریبا ً تیس سال کی محاذ آرائی اور انسانی خون کی ارزانی کے باوجود بھی نہ تحریک مزاحمت کسی کامیابی کی طرف گامزن ہے اور نہ ہی امن و قانون کی مشنری یا بھارت کا اقتدار ۔دونوں کے ہاتھ خالی ہیں اور اس کے باوجود بھی کوئی مفاہمت کی راہ تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ۔نہ بھارت کا اقتدار اپنی فاش غلطیوں کو تسلیم کرنے اور بے سروپا کشمیر پالیسی میں تبدیلی کا روادار ہے اورنہ ہی پاکستان شدید تر دباو ٔکے باوجود کشمیر سے ہاتھ کھینچنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔کشمیر میں بھی کوئی نہیں جو اس لڑائی میں کشمیر کے خون کو دونوں طرف سے بہنے کا عمل روک سکے ۔ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر