جدید مہذب دنیا میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے ۔صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے، جس میں سماج اور حکمرانوں کو اپنا عکس صاف دکھائی دیتا ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے ہی سماج اور حکمرانوں کی اچھائی اور برائی منظر عام پر آجاتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ میڈیاحکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔جہاں میڈیا حکومت کے اچھے کارناموں کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرتا ہے وہیں خامیوں کی نشاندہی کرکے بہتری کی گنجائش بھی پیدا کرتا ہے۔موجودہ صحافتی دنیا میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے رول کو شاید ہی کوئی فراموش کرسکتا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا چٹ پٹی خبروں کیلئے ہی جانا جاتا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا کو تواریخی ریفرنس کے طور بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کشمیر میں بھی نامساعد حالات کے باوجود اخبارات کی حتی المقدور کوشش رہی ہے کہ صحافت کے آفاقی اصولوں کے تحت ایک بہتر سماج کی تشکیل ہو۔اس کام میں کئی صحافیوں کو اپنی جانوں سےبھی ہاتھ دھونا پڑے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وادی میں اخبارات کے تئیں حکومت کی پالیسی معتدل نہیں رہی ہے۔اول تو یہاں کبھی بھی حکمران طبقے کو آزادی صحافت راس نہیں آئی ہے اور ہر دور میں حق گوئی کی پاداش میں صحافیوں کو سرکاری عذاب و عتاب کا سامنا رہا ہے اور اگر اس کے باوجو د بھی کسی اخبار نے غیرجانبداری سے کام لینے کی سعی کی تو اس کو دوسرے طریقوں سے زیر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔عصر حاضر میں اخبارات کو حکمران طبقے کا ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنانے کیلئے اشتہاری پالیسی کا سہارالیا جاتا ہے اورایسی حق بات ، جو حکمرانوں کو راس نہیںآتی، کہنے والے اخبارات کو اشتہارات کی ترسیل روک دی جاتی ہے ۔حالیہ ایام میں کسی باضابطہ حکم نامہ کے بغیر پہلے انگریزی اخبارات گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈرکے سرکاری اشتہارات بند کردئے گئے اور اب اسی غیراعلانیہ پالیسی کے تحت کشمیر عظمیٰ کے اشتہارات بھی روک دئے گئے ہیں۔ایک ایسے وقت جب پورے ملک میں جمہوری عمل جوبن پر ہے ،یہ اقدام کشمیر میں جمہوریت کے چوتھے ستون پر کسی کاری ضرب سے کم نہیں ہے کیونکہ اشتہارات کسی بھی اخبار کی شہ رگ ہوتے ہیں اور جب یہ اشتہارات ہی بند کئے جائیں تو اخبار کی مالی حالت کا پتلاہونا طے ہے اور اس کا منفی اثر نہ صرف اخبار کی اشاعت پر پڑسکتا ہے بلکہ اس اخبار میں کام کرنے والے صحافتی اور غیر صحافتی عملہ کی زندگی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔اشتہارات پر روک لگا کر سرکار ان اخبارات کومالی اعتبار سے محتاج بنانا چاہتی ہے،تاہم یہ اقدام قطعی طورجمہوری مزاج سے میل نہیں کھاتا ہے ۔ سرکار کی اس پالیسی کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادارہ گریٹر کشمیر کمیو نی کیشنز ،جس کا کشمیر عظمیٰ ایک حصہ ہے ، ریاستی عوام کی آواز ہے اور سرکار کی امتیازی پالیسی کی وجہ سے شدید مالی بحران سے دوچار ہے ۔شاید اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ادار ہ کما حقہ صحافتی اصولوں کی آبیاری کررہا ہے اور اس نے اپنے آپ کو کہیں گروی نہیں رکھا ہے ۔حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت کے اچھے کارناموں کو بھی اس اخبار میں مسلسل جگہ مل رہی ہے ۔ایسا کرکے ہم قطعا یہ نہیں کہیں گے کہ یہ کوئی احسان ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دوسرے اخبارات کی طرح ہی یہ اخبار بھی عوامی اہمیت کے حامل مسائل کو ابھار رہا ہے لیکن پھر اس ادارے کے ساتھ ہی امتیاز کیوں برتا جارہا ہے ،اس کا جواب ارباب اقتدار ہی دے سکتے ہیں۔اشتہاری پالیسی کو ہتھیار کے طور استعمال کرنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے ۔تمام اخبارات پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ کے تابع ہیں اور ہر اخبار کی طرح کشمیرعظمیٰ بھی اسی ایکٹ کے تابع رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے لیکن جس طرح گریٹر کشمیر کے بعداب اس اخبار کیلئے بھی سرکاری اشتہارات بند کر گئے ہیں، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اشتہارات دیکر سرکار اخبارات پر کوئی احسان نہیں کرتی ہے بلکہ حکومتی کام کاج کو عوام تک پہنچانے کیلئے اشتہارات ایک بہترین ذریعہ ہیں اور یہ اشتہارات اخبارات کے ذریعے ہی عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔صحافتی اقدار اور آزادی صحافت کی پاسداری کرتے ہوئے ارباب حل و عقد کو چاہئے کہ وہ اس مقدس شعبہ کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی بقا اور بہبود میں کسی قسم کا امتیاز نہ برتیں بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ تمام ادارے یکساں طرز پر پھلے پھولیں کیونکہ یہ ادارے بالآخر سماج کی تشکیل نو میں اہم رول اداکررہے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت اپنی اس پالیسی پر از سر نو غور کرکے موجودہ غیر جمہوری پالیسی کو ترک کرے گی اور کشمیرعظمیٰ ، گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر کے سرکاری اشتہارات بحال ہونگے تاکہ یہ ادارے پھل پھول سکیں۔ ایسے میڈیائی ادارے جن کی جڑیں عوام میں پیوست ہوں کلہم ترقی کے ضامن ہوتے ہیںاگر خدا نخواستہ یہ ادارے کمزور پڑ جائیں گے تو سماج کا توازن متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ پھر آئینہ دکھا نے کیلئے کوئی نہیں ہوگا۔